کیا علامہ اقبال اور سید مودودی آج بھی اہم ہیں؟



ایک وقت تھا کہ کلیات اقبال میرے لیے آسمانی صحیفے کا درجہ رکھتی تھی۔ جیسے کارل مارکس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ
آں کلیم بے تجلی، آں مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب
”وہ پیغمبر تو نہیں ہے لیکن اس کی بغل میں کتاب ہے“۔ اسی طرح اقبال بھی میرے نزدیک پیغمبر تو نہیں تھا لیکن اس نے بھی اپنی بغل میں کتاب داب رکھی تھی۔ شاعر مشرق، حکیم الامت، مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال علیہ رحمتہ اللہ کی بعض باتیں ہمیں سمجھ نہ بھی آتیں مگر ان کا آہنگ و انداز اور درد دل ہمارے جذبوں کا رنگ ضرور گہرا کردیتے۔ ہمیں سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رازی تو حاصل نہ ہو سکا مگر اس کشمکش میں راتیں گزارنے والے کی تڑپ ہمارے دلوں کو ضرور گرما دیتی۔

یہی زمانہ تھا کہ جب افکار مودودی سے بھی ہمارا تعارف ہوا، تحریک پاکستان کے معماروں کے بارے میں بھی کچھ پڑھا، حسن البنا اور سید قطب کے بارے میں بھی کچھ آگاہی ہوئی، تحریک خلافت اور تحریک مجاہدین کے بارے میں سنا، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے جوش و جذبے سے بھی متاثر ہوئے، حضرات سرسید، ندوی، تھانوی اور نعمانی صاحبان کی کچھ تحریریں دیکھنے کا بھی موقع ملا، لیکن اقبال اور مودودی نے ہمیں جتنا متاثر کیا اتنا کوئی اور نہ کرسکا اور ہم غلبہ اسلام کے لیے قران و سنت کی دعوت لے کر دنیا پر چھا جانے کے لئے تڑپنے لگے۔ ایک عظیم عالم گیر امت مسلمہ کا حصہ ہونے کا تصور سحر انگیز تھا۔ یہ ایک ایسی شناخت تھی، ایک ایسی عظیم طاقت تھی جس نے ہمارے قد کو کئی گنا بڑا کردیا۔ ہمارے سر کو فخر سے بلند کردیا، ہمیں احساس خودی سے آشنا کردیا اور ہمیں اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگی۔ اب کسی مسلمان کو کانٹا کابل میں چبھتا یا فلسطین میں، کشمیر میں یا چیچنیا میں، ہماری بےتابی دیکھنے لائق ہوتی۔

1991ء کی بات ہے، ہم اقبال کے شیدائی ابھی بارہویں جماعت کے طالب علم تھے کہ ہمارے کالج میں جمعیت کے ناظم بھائی، جو خود اقبال کے شاہین کی مثال تھے اور کئی بار گم راہ جماعتوں کے بدمعاشوں کو مٹی چٹا چکے تھے، نے ہمیں قائل کرلیا کہ مسلمانان عالم پر طاغوتی قوتوں کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں عسکری تربیت حاصل کر لینا چاہیے۔

تربیت دینے کا یہ فریضہ مجاہدین اسلام پاکستان کی سرحد سے متصل افغانستان کے پہاڑوں میں کیمپ لگا کر بخوبی سر انجام دے رہے تھے۔ میرے والد صاحب پیپلز پارٹی کے کارکن تھے، اگرچہ انھوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ ہماری وابستگی پر کبھی اعتراض نہیں کیا تھا، لیکن ہمیں یقین تھا کہ وہ ہمیں اس مقصد کے لیے جانے کی کبھی اجازت نہیں دیں گے۔ چناں چہ ہم نے کاغان ناران ایک ٹرپ کے ساتھ جانے کے لیے اجازت لی اور نوجوانوں کے ایک گروپ کے ساتھ جمعیت کے ناظم کی سربراہی میں، جو ہمیں پشاور کچھ اور قائدین کے حوالے کر کے واپس چلے گئے تھے، میران شاہ سے ہوتے ہوئے افغانستان کے پہاڑوں میں قائم البدر ۳ کے کیمپ میں پندرہ دن کی عسکری تربیت حاصل کرنے کے لیے پہنچ گئے۔ ہم جذبہ ایمانی اور شوق شہادت سے تو سرشار تھے لیکن شہادت کے لیے مرنے، مارنے اور خون بہانے جیسی شرطوں پر ہم نے کچھ زیادہ غور نہ کیا تھا۔

نجانے ہماری خوش قسمتی تھی یا بدقسمتی کہ اپنی کم زور جسمانی ساخت اور دھان پان سی نازک مزاج شخصیت کے باعث، ہم وہاں صبح چار میل کی دوڑ، اسلحے کی تربیت اور دیگر ورزشوں کی سختیاں اور روزانہ ابلے ہوئے چاولوں پر لال لوبیے کی خوراک چند دن سے زیادہ برداشت نہ کرسکے اور بیماری کے باعث ہمیں ایک خیمے میں قائم ڈسپنسری میں داخل ہونا پڑگیا۔ اوپر سے ستم یہ ہوا کہ وہاں موجود ناتجربہ کار ڈاکٹر یا ڈسپنسر نے ہمیں ایک غلط ڈرپ لگا دی۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے جذبہ شہادت کو ہمارے بازو سے باندھ کر، جو پھول کر ہمارے باقی بدن کے برابر ہوچکا تھا، رسد لانے والی گاڑی پر واپس پشاور پہنچا دیا گیا۔ جہاں سے ہم خجالت کے مارے گرتے پڑتے کسی نہ کسی طرح واپس اپنے گھر پہنچ گئے۔ ہمارے خدشات کے برعکس اور شائد ہماری حالت دیکھتے ہوئے ہمارے بزرگوں نے ہم سے ایک لفظ کی بھی باز پرس نہ کی اور چپ چاپ خدا کا شکر بجا لاتے ہماری صحت کی بحالی کے اقدامات کرنے میں جت گئے۔

مجھے یہ کہانی ’ہم سب‘ کی ویب سائٹ پر اقبال سے نالاں ایک ”دانشور“ کا انٹرویو پڑھ کر یاد آئی۔ لکھنے والے ہمارے دوست ہیں اور مجھے ان کے مدعا سے کسی قدر اتفاق بھی ہے۔ تاہم یہ ساری داستان سنانے کا مقصد خدانخواستہ ایک مثال سے اتنا بڑا  نتیجہ اخذ کرنا نہیں، کہ نوجوانوں کو نظریاتی بندھنوں میں باندھ کر، ان کے دلوں میں اپنی قوم اور امت کے لیے شہادت کی جوت جگا کر، کچھ غیر حقیقت پسندانہ خوابوں میں الجھا کر، انھیں اپنے قومی تفاخر کی نرگسیت میں مبتلا کر کے، جنگوں کے ایندھن میں دھکیلنے کی ساری ذمہ داری محض مولانا مودودی کے افکار، خاص طور پر ان کے سیاسی غلبہ اسلام کے تصور اور اقبال کی غیرت و ایمان کو جگاتی شاعری پر ڈال دی جائے۔ بات اتنی سادہ نہیں۔ اقبال کی شاعری مجھے آج بھی پسند ہے۔ مودودی صاحب کو میں اب بھی ایک بڑا انشا پردازاور مذہبی مفکر مانتا ہوں۔ ان دونوں شخصیات نے برصغیر ہی نہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کے قلوب و اذہان کو متاثر کیا ہے اور یہی ان کی عظمت کی دلیل بھی ہے۔ لیکن کسی کے سر پر عظمت کا تاج پہنا دینے کا مطلب یہ نہیں کہ اب انہیں معروضی انداز میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی جا سکتی، جیسا کہ شائد کچھ لوگ سمجھتے ہوں۔

جیسے ہم سب اپنے ماحول کی پیداوار ہیں اسی طرح ان شخصیات کے افکار و کردار کو ان کے دور کے ماحول میں رکھ کر سمجھنا ہوگا۔ ہر دور اپنے ساتھ کچھ نئی الجھنیں، کچھ نئے مسائل اور کچھ نئے سوال لے کر آتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آج اقبال اور مودودی زندہ ہوتے تو آج کے دور میں اپنے انہی افکار و نظریات اور ان پر اصرار کے نتائج کو دیکھ کر، اگر تمام نہیں تو کچھ پہلووں پر ضرور نظر ثانی کا سوچتے۔ کم از کم ان کی شخصیت کے اخلاص سے مجھ خوش گمان کو یہی توقع ہے۔ تاریخ میں ہوتا یہی ہے کہ کوئی ایک کہانی شروع کرتا ہے، لیکن وہ کہانی اپنے آپ کو مکمل خود کرتی ہے۔ جو کہانی اپنے دور کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے مودودی، اقبال اور تحریکات اسلامی کے دیگر قائدین نے شروع کی تھی، اس کو اپنی منشا کے مطابق انجام پر پہنچانا خود ان کے بس میں بھی نہیں۔ حالات کا اندازہ کرتے ہوئے آپ کچھ اقدامات کرتے ہیں لیکن پھر حالات اپنی صورت گری خود کرتے ہیں، اپنا دھارا خود بناتے ہیں، خواہ ہمیں پسند آئے یا نہ آئے۔

اب ایک مسئلہ اور ہے۔ ہم سب کے ذہنوں اور دلوں میں کچھ بت ہیں، کچھ شخصیات کے بت، کچھ عقیدتوں کے بت، کچھ نظریات کے بت۔ اور ہم نے یہ بت بنا کر اپنے فکر و نظرکی بسولی اور ہتھوڑی کو پرے رکھ دیا ہے۔  ہم نے یہ تصویریں بنا کر اپنے اپنے قلم اور موقلم توڑ دیے ہیں۔ اب جو کوئی ان کی کسی کم زوری کی نشان دہی کرے ہم ہتھوڑا لے کر اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔ ہمارے ایمان کی رو سے وہ مرتد ہوجاتا ہے۔ یہ سمجھنا کچھ اتنا مشکل نہیں کہ اپنے ان بتوں کو توڑے بغیر اپنی تکمیل مشکل ہے۔

اقبال کو سمجھنے میں، میرے خیال میں، آج ہماری مشکل یہ ہے کہ ہمارے سینوں میں اس کا ایک بہت بڑا بت موجود ہے۔ ہمارے نزدیک وہ ایک برہان قاطع ہے۔ سچ پوچھیں تو اقبال ایک بہت اچھا شاعر تھا۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں کہ اچھے موسم میں اس کی شاعری سے لطف نہیں اٹھایا جاسکتا، یا یہ کہ اس نے اچھا ادب تخلیق نہیں کیا۔ منظر نگاری، نکتہ سنجی، مصرعے کی تابانی، صوت و آہنگ، خیال آرائی، شوکت الفاظ، جذبوں کو رنگوں میں گوندھ کر تصویر بنا دینا، کتنے ہی شعری محاسن ہیں، جو اقبال کی شعری عظمت کا ثبوت ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس کی شاعری سے حظ اٹھانے کی بجائے اس کے افکار و فلسفہ کو لے کر بیٹھے ہیں۔ اس کے افکار اس کے دور کو سمجھنے کے لیے اچھی کلید ہیں لیکن ان سے آنے والے دور کی تکمیل کی خواہش رکھنا خود کو مسلسل دھوکے میں رکھنے والی بات ہے۔ اگر نہیں بھی تو ان افکار کو حال کے تناظر میں پرکھنا اور پرکھتے رہنا ایک ضروری امر ہے۔

اگر خون صد ہزار انجم سے بھی سحر پیدا نہ ہو، بلکہ رات کی تاریکی گہری ہوجائے تو شائد یہ سوچنے میں حرج نہیں کہ ہمیں اپنے ستارے ایک ان دیکھی صبح کے لیے قربان کرنے کی ضرورت نہیں۔ صبح ان ستاروں کو قربان کرنے سے نہیں ان کو اجالنے سے آئے گی۔ اور اجالا مسلسل تعلیم، مسلسل تحقیق، مسلسل تنقید اور کل نہیں بلکہ آج میں جینے سے آتا ہے۔ سینے میں رکھے کچھ بت ٹوٹ جائیں تو حوصلہ رکھیں، کہ یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).