پاکستان کی فلکیاتی تنظیمیں


آج ہم ایک ڈیجیٹل دور میں جی رہے ہیں جہاں ہر شے چند کلکس پر دستیاب ہے مگر سولہویں صدی کے نصف میں جب ” جان فلیم سٹیڈ ” نےفلکیا ت میں دلچسپی لینا شروع کی تھی تو اس وقت یہ علم خاص و عام سب کے لئے نو آموز تھا۔ محض انیس برس کی عمر میں اپنی تحقیقات پر پیپر لکھنے والے برٹش شہری فلیم سٹیڈ نے اپنی ساری زندگی فلکیات پر تحقیق کرتے ہوئے گزاری اور تین ہزار ستاروں کی ایک فہرست تیار کر کے ” اولین برٹش ماہر ِ فلکیات ” ( فرسٹ ایسٹرانامر) کا خطاب پاکر تاریخ میں امر ہو گیا۔ فلیم سٹیڈ کی کو ششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے 1820 میں چند شوقین ایسٹرانامرز نے ” رائل سو سائٹی آف ایسٹرانامی ” قائم کی جو دنیا کی قدیم ترین فلکیاتی سوسائٹی سمجھی جاتی ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں علم فلکیات میں ہونے والی تیز تر پیش رفت کی اگر ایک تاریخ مرتب کی جائے تو بلاشبہ یہ تذکرہ جان فلیم سٹیڈ اور رائل ایسٹرا نامی سوسائٹی کا ذکر کیئے بغیر ادھورا رہیگا۔ سولہویں صدی میں انفرادی شوق، لگن اور جستجو کا جو سفر جان سٹیڈ نے شروع کیا تھا وہ وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ کسی نہ کسی صورت میں جاری رہا اور آج دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جس کی ایک متحرک فلکیاتی سوسائٹی نہ ہو۔

اگر چہ پاکستان کا شمار ان چنیدہ ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں حکومتی سطح پر سرپرستی نہ کیئے جانے اور ناکافی سہولیات کے باعث عوام ” علم ِ فلکیات ” میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے اور فلکیاتی تحقیقات کی بین الاقوامی ریکنگ میں پاکستان جارجیا اور بلغاریہ کے ساتھ نمبر 52 پر ہے ۔ لہذاٰ لگن رکھنے والے افراد اپنے ذرا ئع سے ٹیلی سکوپ اور ایسٹراگرافی کے آلات خرید کر اپنا شوق پورا کر تے رہے ہیں۔ انہی چنیدہ افراد کی کوششوں کی بدولت اب عوام میں اجرام ِ فلکی اور ان کی حقیقت، فلکیاتی واقعات جیسے چاند و سورج گرہن، میٹی یور شاور ( شہاب ِ ثاقب کی برسات )وغیرہ کے بارے میں شعور و آگاہی بڑھ رہی ہے اور فی الوقت پاکستان کے وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں میں فلکیاتی سوسائٹی قائم کی جا چکی ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں مگر ریکارڈ کے مطابق پاکستان کی پہلی فلکیاتی سوسائٹی 1988 میں بنائی گئی جس کا نام ” ایمسٹروپاک ” رکھا گیا تھا۔ مگر ناکافی سہولیات اور سوسائٹی کے اراکین کی ذاتی ملازمتی مصروفیات کے باعث اسے متحرک نہ رکھا جا سکا اور 1990 میں بند کر دیا گیا۔ اس کے ٹھیک پانچ برس بعد 1995 میں فلکیات میں دلچسپی رکھنے والے چند مقامی افراد نے ” لاہور ایسٹرانامیکل سوسائٹی ” قائم کی جو اَب تک پاکستان کی سب سےزیادہ متحرک سوسائٹی سمجھی جاتی ہے۔ 1995 سے شروع ہونے والا جستجو اور لگن کا یہ سفر آہستہ آہستہ دیگر شہروں تک پھیلتا گیا اور 2007 میں اسلام آباد سوسائٹی ( پاکستان ایسٹرانامرز ) ، 2008 میں ” کراچی ایسٹرانامرز سوسائٹی“، 2009 میں ” خوارزمی سوسائٹی آف سائنس ( فلکیاتی میل ) ، اور حالیہ برسوں میں پشاور اور بلوچستان ایسٹرانامرز سوسائٹیز قائم کی گئیں، جن پر ایک سیر حاصل تبصرہ پیش ِ خدمت ہے۔

لاہور ایسٹرانامیکل سوسائٹی :
1995 میں چند مقامی افراد نے اپنے شوق کی تسکین اور علم ِ فلکیات کو فروغ دینے کے لئے ” لاہور ایسٹرا نامیکل سوسائٹی ”قائم کی جو گذشتہ بائیس برس میں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پاکستان کی نمایاں فلکیاتی سوسائٹی کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اس کیسرگرمیاں بین الاقوامی سطح پر بھی سراہی جا رہی ہیں ۔ لا ہور فلکیاتی سوسائٹی آج جس مقام پر ہے اس میں بنیادی کردار پاکستان کے معروف ایسٹرانامر ” عمیر عاصم ” نے ادا کیا، جو طویل عرصے سے اس سوسائٹی سے وابستہ ہیں اور 2003 میں انہوں نے اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوئے ” ذیڈز ایسٹرانامیکل آبزرویٹری“ قائم کی جس کا نام انہوں نے اپنی والدہ ”زاہدہ ” کے نام پر رکھا ، اس رصد گاہ کی اپنی شاندار چودہ انچ کی ٹیلی سکوپ ہے، واضح رہے کہ ٹیلی سکوپ کا سائز اس کے پرائمری مررکے سائز سے ناپا جاتا ہے۔ اس دوربین سے لی گئی تصاویر ”انٹر نیشنل لیونر فوٹو آف دی ایئر ”کے لئے منتخب کی جا چکی ہیں۔

آغاز میں لاہور سوسائٹی کی سرگرمیاں ہفتہ وار یا ماہانہ میٹنگز تک محدود رہی لیکن آہستہ آہستہ ممبران کی تعداد بڑھنے سے تعلیمی اور تحقیقاتی سرگرمیاں شروع کی گئیں اور فی الوقت ” لاسٹ ” متعدد بین الاقوامی فلکیاتی سوسائٹیز سے منسلک ہے جن میں ”ایسٹرانامی ایڈونچر نیوزی لینڈ ”، ”آبزرویٹری 99 ملی میٹر ( یو ایس ) ”، ” اے این آئی سی کولمبیا“، اور بلائنڈ ایسٹرانامی گلڈ شامل ہیں۔ لاسٹ ا ب تک لاہور اور اس کے مضافات میں کئی ٹریننگ ورک شاپس بھی کرواچکی ہے جس میں عوام کو ٹیلی سکوپ کا صحیح استعمال اور اس سے ڈیٹا حاصل کرنے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے تاکہ ملکی سطح پر فلکیاتی تحقیقات کو فروغ دیا جا سکے۔ فی الوقت عمیر عاصم فلکیات میں دلچسپی رکھنے والے متعدد مقامی افراد کو ٹریننگ دے رہے ہیں اور ان کے قابل ِ فخر شاگرد ” روشان بخاری ” اور ”آمنہ سلیم“ لاسٹ سے منسلک سوسائٹیز کی تین سو سے زائد بین الاقوامی تحقیقات میں معاونت کر چکے ہیں جس میں ” امریکن آبزرویشن آف ویری ایبل سٹار ” بھی شا مل ہے۔ روشان بخاری خیبر پختونخواہ کے متعدد سکولوں میں فلکیات پر لیکچر بھی دیتے رہے ہیں، ایم بی بی ایس ہونے کے با وجودانکا ایسٹرانامی سے شغف قابل ِ دید ہے اور وہ پاکستان میں فلکیات کی ترویج کے لئے لاسٹ ٹیم کے ساتھ پوری طرح سر گرم ہیں۔ چونکہ اس سوسائٹی کے پاس پاکستان کی سب سے بڑی سولر ٹیلی سکوپ ہے جس کے ذریعے سورج میں ہونی والی غیر معمولی حرکات کی بہت واضح تصاویر حاصل کی جا چکی ہیں لہذا ٰ لاسٹ کی ٹیم سال بھر میں رونما ہونے والے سورج گرہنوں کے وقت اپنی ٹیلی سکوپ لاہور کے بڑے پارکس یا تعلیمی اداروں میں بھی لے کر جاتی ہے جہاں عام افراد، اساتذہ، طالبعلم سب ہی لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے اپنی باری آنے کا انتظار کرتے دیکھے گئے ہیں، یہ اس بات کی علامت ہے کہ پاکستانی اس طرح کی سرگرمیوں میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں ، صرف حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ لاہور فلکیاتی سوسائٹی نے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کی معاونت سے کئی ایسٹرانامی کورسز کا بھی آغاز کیا ہے اور عمیر عاصم کی سرکردگی میں فلکیات کی ترویج کا یہ سفر جاری و ساری ہے، جنھیں 2014 میں سولر ایسٹرانامی پر انٹرنیشنل ”چارلی بیٹس ایوارڈ ”سے نوازا جا چکا ہے۔

کراچی ایسٹرانامرز سوسائٹی :
کراچی ایسٹرانامرز سوسائٹی 2008 میں قائم کی گئی اس کے بانی ممبران میں مہدی حسن، خالد مروت، ابو بکر شیخانی ، زین احمد، نوید مرچنٹ اور عمران رشید شامل ہیں۔ اس سوسائٹی کے قیام کا بنیادی مقصد ایک ایسا ایکٹو پلیٹ فارم فراہم کرنا تھا جہاں سے فلکیاتی سرگرمیوں کو مؤثر انداز میں آگے بڑھایا جاسکے، اور بہت کم وسائل و سہولیات کے باوجود نا صرف سندھ بلکہ بلوچستان اور ملک کے دیگر شہروں میں بھی فلکیات کی ترویج کے لئے کراچی ایسٹرانامرز سوسائٹی نے بہت تھوڑے عرصے میں قابل ذکر کردارادا کیا ہے، جس کا سہرا بلاشبہ بانی اراکین خصوصاً مہدی حسن کے سر جاتا ہے۔ اس سوسائٹی کی آفیشل ویب سائٹ 2010 میں لانچ کی گئی جس کے ملک بھر میں اٹھارہ سو سے زائد ممبران ہیں جبکہ پندرہ سو روپے سالانہ فیس کے ساتھ اس کی خصوصی ممبر شپ حاصل کر کے بہت سے دیگر فوائد بھی حاصل کیئے جا سکتے ہیں جن میں سوسائٹی کے منعقد کردہ ایونٹس ” سولر ایسٹرا نامی ” اور ” رت جگا ” میں ڈسکاؤنٹ بھی شامل ہے۔ لاسٹ کی طرح ” کاز“ بھی سورج و چاند گرہن یا خصوصی مواقعوں پر اپنی دوربین پی آئی اے پلنٹیریم ، پارکس، پبلک مقامات اور تعلیمی اداروں میں لے جاکر لوگوں کوبراہ ِ راست مشاہدات کے موقع فراہم کرتی رہی ہے۔ ان میں اب تک قابل ِ ذکر جون 2012 کا ” ٹرانزٹ آف وینس ” اور پندرہ مئی 2016 کا ” ٹرانزٹ آف مرکری ” ایونٹ رہا جب وینس اور مرکری سولر ڈسک کے سامنے ایک چھوٹے سے نقطے کی مانند دکھائی دیے۔ اس کے علاوہ کراچی سوسائٹی 2008 سے فلکیات کے شائقین کو ”رت جگا ” کی صورت میں آبادی اور لائٹ پولوشن سے دور سندھ اور بلوچستان کے متعددمقامات جیسے میر پور ساکرو، گورکھ ہلز، کیرتھر نیشنل پارک، مڈ وولکانو ( بلوچستان )، میں چاند ستاروں تلے رات گزارنے اور ایسٹروگرافی کے مواقع بھی فراہم کرتی رہی ہے اور اب تک لگ بھگ چالیس رت جگے منعقد کیئے جا چکے ہیں جن میں سے آخری گزشتہ ماہ اکیس اکتوبر ” اورینائڈ میٹی یور شاور ” کی رات کراچی سے کچھ فاصلے پر ” گھارو ” کے مقام پر رکھا گیا تھا۔ ان رت جگوں کا سہرا بانی رکن نوید مرچنٹ ، کو ایڈ وائزر حنیف بھٹی اور جنرل سکریٹری بلال کریم مغل کے سر جاتا ہے جو ٹریولنگ اور سیاحت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ کراچی ایسٹرونا مرز سوسائٹی نے اپنے وسائل سے ایک ” کاسٹ ڈوم ” آبزرویٹری بنائی ہے جس کی بارہ اعشاریہ پانچ انچ کی نیوٹونین ٹیلی سکوپ ہے، اس ٹیلی سکوپ کا مرر ایک برٹش ایسٹرانامر نے تحفہ میں دیا تھا۔ یہ سوسائٹی ہر برس انٹرنیشنل سپیس ویک میں ”ایسٹرانامی فیملی فیئر“ منعقد کروانے کے علاوہ کراچی کے تعلیمی اداروں پی ای سی ایچ ایس، دا ؤد ابراہیم سکول اور شاہین کمپلیکس میں فلکیات پر لیکچر اور ٹیلی سکوپ سے براہ ِ راست مشاہدات کے سیشنز بھی کرواتی رہی ہے مگر اس کا سب سے بڑا کارنامہ ملک بھر سے فلکیات کے شیدائیوں کی ٹیلی سکوپ اور فلکیاتی گلاسز خریدنے میں معاونت کرنا ہے جس کے لئے یہ اپنی ویب سائٹ بھی استعمال کرتے ہیں۔

پاک ایسٹرانامرز سوسائٹی :
نومبر 2007 میں فلکیات میں دلچسپی رکھنے والے اسلام آباد کے رہائشی چند افراد کےایک گروپ نے راولپنڈی اور ملحقہ علاقوں میں اپنی سرگرمیاں بڑھانے اور زیادہ سے ز یادہ لوگوں کو مواقع فراہم کرنے کے لئے ”پاکستان ایسٹرانامی سوسائٹی ” بنائی جس نام بعد میں تبدیل کر کے اسلام آ باد سوسائٹی اور پھر پاکستان ایسٹرانامرز سوسائٹی کر دیا گیا۔ اگرچہ لاہور اور کراچی سوسائٹیز کی نسبت یہ اتنی زیادہ متحرک نہیں ہے مگر اب تک ان کی ٹیم انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی اور نیشنل یونیورسٹی آ ف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اشتراک سے کئی فلکیاتی آبزرویشن سیشنز اور ایونٹس منعقد کروا چکی ہے۔ جس کا تمام تر کریڈٹ سوسائٹی کے صدر سیف الاسلام قریشی، نائب صدر فرخ شہزاد، جنرل سیکرٹری طلحہ احمد کو جاتا ہے۔ پاک سوسائٹی کے پاس ” سکائی واچر ایوو سٹار“، نیشنل جیوگرافک نیوٹونین ”، ” ڈوبوسونین ٹیلی سکوپ ” اور نیوٹونین ریفلیکٹربھی ہیں۔ ان دور بینوں کے ساتھ پاک ایسٹرانامرز نے لاہور ایسٹرانامیکل سوسائٹی کی معاونت سے ٹھنڈائی، قلعہ روہتاس میں بھی آبزرویشن ایونٹ منعقد کیئے اور 2016 میں خوارزمی سوسائٹی کے اشتراک سے کریسنٹ انٹرنیشنل سکول اسلام آباد میں سورج گرہن کے وقت سولر آبزرویشن کا سیشن بھی کر وایا جس میں اسلام آباد کے تما م سکولز کے بچوں کو مدعو کیا گیا تھا۔

حیدر آباد ایسٹرانامرز سوسائٹی :
حیدر آباد سوسائٹی کا قیام 2011میں عمل میں آیا اس کے بانی اراکین میں بلال کریم مغل، ذیشان احمد اور امجد نظامانی شامل ہیں جو اس وقت اسرا یونیورسٹی حیدر آباد کے طا لبعلم تھے، بلال کریم مغل کراچی ایسٹرانامرز سوسائٹی کے موجودہ جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ ان تینوں نے بہت کم وسائل اور ناکافی سہولیات کے با وجود حیدر آباد جیسے علاقے سےاپنی جدوجہد کا آغاز کیا جہاں سے آج تک سائنس و ٹیکنالوجی میں کوئی قابل ذکر ٹیلنٹ ابھر کر سامنے نہیں آسکا۔ اس سوسائٹی نے اپنے پہلے پبلک ایونٹ کا انعقاد اسرا یونیورسٹی میں ورلڈ سپیس ویک 2011 سے کیا، ا سے عام و خاص سب ہی کی خصوصی توجہ حاصل ہوئی جس سے ان تینوں طالبعلموں کو مزید تحریک ملی اور اگلے برس انہوں نے سپارکو کے تعاون سے ورلڈ سپیس ویک کی تقریب کا انعقاد مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو میں کیا۔ اس کے بعد سے سوسائٹی مختلف مواقعوں پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ حیدر آباد اور اس سے ملحقہ چھوٹے علاقوں میں فلکیات کی بنیادی معلومات پھیلانے کے علاوہ عوام کو براہِ راست مشاہدے کا موقع فراہم کیا جاسکے جس کے لئے یہ اپنے دو نیو ٹونین ریفلیکٹرز ( 114 ملی میٹر، 76 ملی میٹر)اور فلکیاتی گلاسز استعمال کرتے رہے ہیں۔ 2012 میں اس سوسائٹی کے بانی رکن بلال کریم مغل کی کھینچی ہوئی ” ٹرانزٹ آف مرکری ” کی ایک خصوصی تصویر کو ”انڈین ایسٹرو فوٹو فیسٹیول ”کے لئے منتخب کیا گیا جو نہرو پلانٹیریم نیو دہلی میں منعقد کیا گیا تھا۔ اگرچہ پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث اب ان تینوں ایسٹرانامرز کی سرگرمیاں کافی محدود ہو چکی ہیں مگر پھر بھی یہ اپنی ماہانہ میٹنگز ضرور منعقد کرتے ہیں جسے ” کاسمک ٹی پارٹی ” کا نام دیا گیا ہے، اس میں نئے اور پرانے تمام اراکین شرکت کرتے ہیں۔

خوارزمی سائنس سوسائٹی :
خوارزمی سائنس سوسائٹی لاہور سے تعلق رکھنے والے سائنس کے شیدائیوں کا ایک گروپ ہے جو طویل عر صے سے لاہور ایسٹرانامیکل سوسائٹی کی ایونٹس منعقد کروانے میں معاونت کر نے کے علاوہ پنجاب کے دور دراز مقامات اور خیبر ختونخواہ میں فلکیات کی ترویج کے لئے متحرک ہیں۔ اس سوسائٹی نے اپنی فلکیاتی سرگرمیوں کا آغاز ” انٹر نیشنل ایئر آف ایسٹرانامی ” سے کیا جس کے لئے انھیں نیشنل سائنس فاؤنڈیشن اور پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کی طرف سے گرانٹ دی گئی تھی۔ جس کی مدد سے یہ صوبۂخیبر پختونخواہ میں دس ہزار سے زائد سکول کے بچوں، ان کے والدین اور اساتذہ کو فلکیات کی بنیادی معلومات فراہم کر چکے ہیں، ہر قصبے میں منعقد اس طرح کے ایونٹ کو ” فلکیاتی میل ” کا نام دیا گیا ہے۔ جس کا پڑاؤ اب تک صوابی، پھول نگر، اوکاڑہ، شاہدرہ اور روہتاس قلعہ میں ہو چکا ہے اور یہ سفر مسلسل جاری ہے۔ اس کے علاوہ 2010 کے انٹرنیشنل سپیس ویک میں خوارزمی سوسائٹی نے لاہور کے لوکل پارک میں سب سے بڑی آرٹی فیشل آبزرویٹری(متحرک ) بنا کر مقامی افراد کو سورج گرہن کا براہ ِ راست مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔ جسےنیوز چینلز پر بھی نشر کیا گیا تھا۔ فی الوقت یہ سوسائٹی فلکیات اور سپیس سائنسز سے متعلق لیکچرز منعقد کروانے کے علاوہ ”نائٹ سکائی نیٹ ورک ” کے نام سے اپنا سائنس چینل بھی چلا رہی ہے جہاں چھت پر بنائی گئی ایک آبزرویٹری کے ذریعے اس چینل کی ویب سائٹ پر لاگ آن کر کے ہر شخص گلیکسیز کا براہ ِ راست مشاہدہ کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں فلکیات کی ترویج میں دلچسپی رکھنے والے افراد کی سکولوں اور تعلیمی اداروں میں ایونٹس منعقد کروانے میں مدد بھی کرتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ مقامی ٹیلنٹ کو سامنےلایا جا سکے جو نا کافی سہولیات کے باعث قابلیت رکھنے کے باوجود کچھ غیر معمولی کر دکھانے سے قاصر ہیں۔

ایسٹرانامیکل لیگ آف پاکستان :
لاہور ایسٹرانامیکل سوسائٹی نے 2016 ستمبر میں ایک اور سنگ میل عبور کرتے ہوئے خوارزمی سائنس سوسائٹی کے تعاون سے ” ایسٹرانامیکل لیگ آف پاکستان ” کا انعقاد کیا جس میں ملک بھر کی تمام چنیدہ فلکیاتی سوسائٹیز کو مد عو کیا گیا تھا۔ اس کے انعقاد کا بنیادی مقصد ملک کے ہر کونےمیں چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور فلکیات کی ترویج و آگاہی کے لئے ایک مؤثر سٹر ٹیجی بنانا تھا۔ لیگ کے چئیرمین کراچی ایسٹرانامرز سوسائٹی کی کو فاؤنڈر اور معروف ایسٹرانامر جناب خالد مروت ہیں ۔ 2016 میں سمپوزیم کے چار سیشنز رکھے گئے تھے جن میں لاہور، کراچی، حیدر آباد، اسلام آباد اور پشاور کی فلکیاتی سو سائٹیز کے نمائندگان نے شرکت کر کے اس حوالے سے اپنی اپنی رائے پیش کیں۔ پہلے سیشن کی صدارت عمیر عاصم نے، دوسرے کی توصیف احمد، تیسرے اور چوتھے سیشنز کی صدارت بالترتیب شہر زادہ سید اور روشان بخاری نے کی ۔ آخری سیشن میں کراچی اسٹرانامر سوسائٹی کے صدر مہدی حسن نے ٹیلی سکوپ (میکنگ ) بنانے پر خصوصی لیکچر دیا جبکہ باقی سیشنز میں ”ایسٹر ا ایمی جنگ“، فلکیات کی ترویج اور زیڈز آبزرویٹری کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی گئیں ۔ اگرچہ رواں برس اس کا کوئی اجلاس منعقد نہیں کیا جاسکا مگر امید ہے کہ جلد ہی ملک بھر سے فلکیات کے شائقین و ماہرین ایک بار پھر لیگ کے پلیٹ فارم پر دوبارہ جمع ہوں گے۔

ان چنیدہ سوسائٹیز کے علاوہ حالیہ برسوں میں پشاور ایسٹرانامرز سوسائٹی بھی متحرک ہوئی ہے جس کے صدر ایسٹرانامر روح اللہ ہیں اور گزشتہ برس اس سوسائٹی کو ایسٹرانامیکل لیگ آف پاکستان میں بھی شامل کیا گیا تھا ۔ لیکن ان کی سرگرمیاں اب تک محدود ہیں اور ایسٹرو گرافی کے علاوہ کوئی قابل ِ ذکر ریکارڈ میسر نہیں ہے۔ جبکہ بلوچستان سےکوئی بھی ایسٹرانامر ابھر کر سامنے نہیں آ سکا۔ اور یہاں سے فلکیات میں دلچسپی رکھنے والے افراد نا کافی سہولیات کے باعث آرٹیکلز یا بلاگز لکھ کر اپنا شوق پورا کرنے ساتھ یہاں کے شہریوں کو فلکیات کی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں اس فیچر کی لکھاری خود بھی شامل ہیں۔ اگرچہ گزشتہ برس اپنے سوشل آرٹیکلز کی وجہ سے کوئٹہ کی ایک طالبہ نورینہ خبروں کامر کز بنی تھیں اور یو این او کے سابق جنرل سیکرٹری بان کی مون کی جانب سے نورینہ کو ایک ٹیلی سکوپ بھی فراہم کی گئی تھی مگر یہ طالبہ اب تک کچھ غیر معمولی کارکردگی دکھانے سے قاصر ہیں، امید ہے کہ نورینہ کوئٹہ میں فلکیات کی ترویج کے لئے ایک مؤثر کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).