’ورنہ‘۔۔۔ سر پکڑ کر بیٹھیے


سب سے پہلے تو اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ جب کسی فلم کے حوالے سے اتنا غیر ضروری شور شرابا برپا ہو چکا ہو، جیسا کہ ’ورنہ‘ کو سینسر سرٹیفیکیٹ ملنے کے سلسلے میں ہوا، تو پھر اس فلم کا غیر جانبدار تجزیہ کرنا قدرے دشوار ہو جاتا ہے۔ آپ چاہتے ہوئے بھی تجزیے میں اْن تنازعوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ حالانکہ اُن تنازعوں کا تعلق فلم کی کہانی اور معیار سے بالکل نہیں ہوتا۔

’ورنہ‘ کے سینسر بورڈ سے پاس ہونے میں اتنے مسائل پیدا ہوئے تھے، اس لیے میں یہ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے نزدیک اس فلم میں ایسی بالکل کوئی چیز نہیں ہے جس کی بنیاد پر اسلام آباد کے بورڈ نے پہلے اس کو سراسر بین کردیا اور پھر دباؤ میں آنے کے بعد اس میں بارہ کٹوتیاں تجویز کر دیں۔

اسلام آباد بورڈ کے ارکان نے جو کچھ بھی سوچا ہو، فلم دیکھنے کے بعد یہ بات ظاہر ہے کہ اُن کی سوچ کا حقیقت سے دور پار کا بھی تعلق نہیں تھا۔ یہ اچھا ہوا کہ انفارمیشن کی وزیر نے سینسر بورڈ کے احکام کو رد کردیا، لیکن بہتر ہوگا کہ اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے حکومت سینسر کے پورے نظام پر نظرِثانی کے لیے تیار ہو جائے اور کم از کم اسلام آباد کا بورڈ ہی از سرِنو تشکیل دے دیا جائے۔

بہر کیف، سینسر کی کارستانیوں پر تفصیل سے بحث پھر کبھی۔ اب آتے ہیں فلم کی جانب۔

جیسا کہ بیشتر لوگوں کو اب معلوم ہے، ’ورنہ‘ کہانی ہے ایک شادی شدہ لڑکی سارہ (ماہرہ خان) کی جس کے ساتھ ایک طاقتور سیاستدان کا بیٹا (ضرار خان) ریپ کرتا ہے۔ اور پھر سارہ ایسے معاشرے کا سامنا کرتی ہے جو اس کو انصاف دینے کی بجائے ناانصافی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ سارہ اپنے لیے انصاف کیسے حاصل کرتی ہے، یہی اس فلم کا موضوع ہے۔

ورنہ کے لکھاری، ہدایتکار اور پروڈیوسر معروف شعیب منصور ہیں اور اُن کی نیّت پر کوئی شبہہ نہیں کر سکتا۔ اْنہوں نے میڈیا میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے یہ فلم اس لیے بنائی تاکہ معاشرے کے ایک گھناؤنے پہلو کو اُجاگر کیا جا سکے، جس کے تحت طاقتور لوگ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے قانون اور انصاف سے بچ جاتے ہیں۔

شعیب منصور نے ہمیشہ عورتوں کے حقوق کی بات کی ہے اور اُن کی پچھلی دو فلمیں ـــ یعنی ’خدا کے لیے‘ اور ’بول‘ دونوں نے اُن دقیانوسی روایات کو نشانہ بنایا ہے جن کے ذریعے معاشرے میں عورتوں کے حقوق سلب کیے جاتے رہے ہیں۔ ورنہ میں بھی فلم کا محور ایک عورت اور اس کی معاشرے میں مردوں کے غیرمنصفانہ رویّوں کے خلاف جدوجہد ہے۔ یہاں تک تو سب ٹھیک ہے۔ لیکن اس دفعہ شعیب منصور اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بُری طرح لڑکھڑاتے دکھاح دیتے ہیں۔

ماہرہ

ورنہ کو سینیما میں دیکھنے کے بعد میں کافی دیر تک یہ سوچتا رہا کہ آخر میں نے کیا دیکھا ہے۔ ورنہ تقریباً تین گھنٹے طویل لمبی فلم ہے، اس کے باوجود وہ کبھی بور فلم محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن اس کی کہانی میں کچھ اتنے حیران کُن پہلو ہیں کہ یہ حقیقت سے جُڑی ہوئی نہیں لگتی۔ شاید اگر یہی فلم لالی وُڈ کے کسی عام سے ہدایتکار نے بنائی ہوتی تو میں اس کو با آسانی نظرانداز کر سکتا تھا، اُس ہدایتکار کے محدود نقطۂ نظر کو بہانہ بنا کے۔ لیکن یہ تو شعیب منصور کی بنائی ہوئی فلم ہے۔ اس کو اتنی آسانی سے رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔

یہاں پر مجھے ایک اور اعتراف کرنا پڑے گا۔ فلم کے تجزیوں میں ’سپائلرز‘، یعنی کہانی کے وہ حصّے بتانا جن سے اُن لوگوں کے لیے جنھوں نے اب تک فلم نہ دیکھی ہو، کہانی کے پیچ و خم ظاہر ہو جائیں، میں اس کے سخت خلاف ہوں۔ لیکن ورنہ کے حوالے سے، معذرت کے ساتھ، ’سپائلرز‘ کا ذکر کیے بغیر فلم پر گفتگو ادھوری رہے گی۔ تو اگر آپ نے فلم نہیں دیکھی ہے اور دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو پھر اگلے تین پیراگراف پڑھے بغیر آگے بڑھ جائیں۔

اصل میں فلم کے شروع ہی میں ایک سین نے مجھے فلم کے حقیقت پسند نہ ہونے کا عندیہ دے دیا جس کے بعد میں ذہنی طور پر باقی فلم سے رابطہ جوڑنے سے قاصر رہا۔ یہ وہ سین تھا جس میں سارہ کو اغوا کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد کے عین بیچ و بیچ ایف نائن پارک میں دو لوگ ایک بڑی لینڈ کروزر میں آتے ہیں اور پستول دکھا کر سارہ کو زبردستی اس کے شوہر (ہارون شاہد) اور نند (نعمل خاور) کے سامنے سے لے جاتے ہیں۔

بعد میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ پنجاب کے گورنر صاحب کے کارندے ہیں اور گورنر کے بیٹے کے کہنے پر لڑکیاں اُٹھاتے پھرتے ہیں تاکہ وہ اُن کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا سکے۔ یہ سین کسی جانی پہچانی حقیقت سے اتنا دور تھا کہ اس سے پوری کہانی کا رنگ عجیب سا ہو گیا۔ کہانی میں آگے جاکر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ سارہ کا اغوا اس کے حلاف ذاتی دشمنی پر مبنی ایک سوچی سمجھی سازش تھی، لیکن اس وضاحت میں بھی وزن کم ہے۔ کیونکہ شروع میں اغواکار سارہ کی نند کو لے جانے کو تیار ہوتے ہیں اور سارہ صرف اُس کو بچانے کی خاطر اپنے آپ کو پیش کر دیتی ہے۔

پھر جب سارہ تین روز بعد اپنے گھر واپس پہنچتی ہے تو گھر والوں کی مایوسی اور بے بسی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ کوئی بھی پولیس میں رپورٹ درج کرانے تک کو تیار نہیں ہوتا اور سب کے سب، بشمول سارہ کے ماں باپ کے، سارہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس سانحے کو بھول جائے۔ لگتا ہے کہ سب کو سارہ کی حالت سے زیادہ اپنی عزت کی فکر ہوتی ہے۔ سارہ کا اپنا خاندان اور اس کا سسرال دونوں پڑھے لکھے اور امیر ہیں لیکن اسلام آباد جیسے شہر میں ایسا لگتا ہے اُن کے کوئی بھی تعلقات نہیں ہیں اور اُن کی بااختیار لوگوں تک رسائی نہیں ہے۔

چلیں، یہ بھی آپ ماننے کو تیار ہو جائیں لیکن اس کے بعد جو رُخ کہانی لیتی ہے وہ یقیناً آپ کو دنگ کر دے گی۔ سارہ محض دو ہفتے کے اندر اندر اس وحشیانہ ریپ کے اثرات سے نکل کر اپنا بدلہ لینے کا پلان بنا لیتی ہے۔ کیونکہ اُس کا میڈیکل ٹیسٹ وقت گزرنے اور رپورٹ نہ درج ہونے کے باعث نہیں ہو پایا تھا، تو وہ اور ایک ہمدرد وکیل یہ منصوبہ بناتے ہیں کہ ریپسٹ کو پکڑنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سارہ دوبارہ سے اس کے پاس جاکر اس کے ساتھ رات گزارے اور پھر اپنا میڈیکل اگلے دن کروائے۔ وکیل صاحبہ سارہ کے شوہر کو یہ کہہ کر اس منصوبے پر راضی کرواتی ہیں کہ وہ یہ سمجھے کہ سارہ کے ساتھ تین دن کے بجائے چار دن زیادتی ہوئی تھی، کیونکہ ایک دن اوپر نیچے ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔ امید ہے کہ آپ کو سمجھ آگئی ہو گی کہ اس وقت میں کیوں سنیما میں اپنا سر ہاتھوں میں دیے بیٹھا تھا۔

کہانی کے کچھ اور حیران کُن حصے بھی ہیں لیکن میرے خیال میں اِن میں مزید جانے کی ضرورت نہیں۔

اس عجیب و غریب کہانی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دیکھنے والا کبھی فلم کے کرداروں کے ساتھ آئیڈینٹیفائے نہیں کر پاتا۔ دوسرا مسئلہ کہانی کے ساتھ یہ ہے کہ سوائے سارہ کے کردار کے، باقی سب کردار کاغذی سے محسوس ہوتے ہیں۔ وہ صرف شعیب منصور کی پوائنٹ سکورنگ کرنے کے یا مختلف لیکچر سنانے کے کام آتے ہیں، وہ کبھی سچ مُچ کے کردار محسوس نہیں ہوتے۔ اور پوری فلم ایک ہی ٹُون میں چلتی رہتی ہے۔ یہ سمجھیں کہ اگر ’بول‘ میں سے شفقت چیمہ اور ایمان علی کے مزیدار کردار نکال دیے جاتے تو جو بچتا وہ ’ورنہ‘ جیسی ٹون ہوتی۔

یہ افسوسناک بات ہے کیونکہ ’ورنہ‘ میں کچھ پہلو کافی دلچسپ ہو سکتے تھے۔ مثلآ سارہ اور اس کے شوہر کا تعلق شاید ڈرامے کے اعتبار سے سب سے پیچیدہ تھا لیکن اس معاملے کو صحیح معنوں میں ایکسپلور ہی نہیں کیا گیا۔

اداکاری کے حوالے سے ماہرہ خان خاصی حد تک اپنا رول اچھا نبھاتی ہیں۔ اُن کو پہلی دفعہ ایسا کردار ملا ہے جو حالات کے سامنے بےبس نظر نہیں آتا۔ امید ہے آگے جا کر اُن کو مزید ایسے رول ملیں گے جن میں وہ اپنی اداکاری کی رینج میں اضافہ کر سکیں گی۔ باقی اداکاروں میں ضرار خان جو وِلن کا رول کرتے ہیں اور رشید ناز جو اُن کے وکیل کے روپ میں نظر آتے ہیں، نمایاں ہیں۔

لیکن افسوس کہ باقی اداکاروں کے لیے وہ ٹھوس کردار ہی نہیں لکھے گئے جن میں اُن کو اپنی صلاحیت دکھانے کا موقع ملتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp