تحریک لبیک کا ایجنڈا مذہبی ہے یا سیاسی؟


مذہب کے نام پر بننے والی پاکستان جیسی ریاست میں سیاست کے لئے مذہب کا استعمال انوکھی یا انہونی بات نہیں۔ یہاں ہر شخص نے بوقت ضرورت مذہب کی من پسند تشریح کے ذریعے اپنا الو سیدھا کیا ہے۔ آسان ترین فارمولا ہے کہ کوئی بھی مذہبی ایشو چھیڑو، آڑ بناو، سیاست کرو، سودے بازی کرو، معاملہ دفن کرو اور پتلی گلی سے نکل جاو۔ کم از کم ماضی میں تو ایسا ہی ہوا ہے اور آیندہ بھی ایسا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

لمحہ بہ لمحہ رنگ بدلتی تحریک انصاف ہو، لبرل پیپلز پارٹی یا پھر ترقی پسندی کی دعوے دار مسلم لیگ کی کسی شاخ کو اقتدار تک پہنچنے، اقتدار بچانے یا مخالفین کو پچھاڑنے کے لئے جب کبھی ضرورت پڑی، عوام کا مذہبی استحصال اور مذہبی سیاسی جماعتوں کا استعمال بخوبی کیا گیا۔

اگر جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام، جمعیت علما پاکستان اور جمعیت اہلحدیث جیسی سیاسی جماعتوں کو اپنی اٹھان اور پہچانے کے لئے کسی نہ کسی مذہبی مسئلے یا تنازِع کا سہارا لینا پڑا تو ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک جیسی نوخیز مذہبی جماعتوں کے لئے کیا ممانعت ہے کہ جس مذہب کی انہوں نے برسوں خدمت کی، اسے پاکیزہ سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ کریں۔ یہ راستہ بھی تو بڑی سیاسی جماعتوں ہی نے دکھایا ہے۔

پاکستان کے مدارس مذہبی سیاسی جماعتوں کی نرسریاں ہیں اور سبھی مذہبی جماعتیں کسی خاص مسلک کی نمایندگی کرتی ہیں۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ یہ مذہبی سے زیادہ مسلکی جماعتیں ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔

پاکستان میں دینی مدارس کے سو فیصد درست اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ تاہم پیپلز پارٹی کےآخری دور حکومت کے آخری دنوں میں کچھ سرکاری اندازوں میں دینی مدارس کی تعداد 29 ہزار کے قریب بتائی گئی تھی۔

دیو بندی مسلک کے مدارس کی تنظیم وفاق المدارس سے 18600 مدارس کا الحاق ہے، جن میں بیس لاکھ کے قریب طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔

بریلوی مدارس کی تنظیم کو تنظیم المدارس کہا جاتا ہے۔ اس تنظیم سے منسلک مدارس کی تعداد 9000 کے قریب ہے، جن میں تقریباﹰ 13 لاکھ طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی منہاج القران نامی تنظیم کے مدارس میں زیر تعلیم طلبا و طالبات اس کے علاوہ ہیں۔

جماعت اسلامی کے تحت چلنے والے مدارس کے وفاق ”رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان“ کے تحت 1018 مدارس چل رہے ہیں۔

اہل حدیث مکتبہ فکر کی وفاقی تنظیم وفاق المدارس السلافیہ کے تحت 2400 مدارس فعال ہیں، جن میں 39000 کے قریب طلبا پڑھتے ہیں۔

اہل تشیع مکتبہ فکر کے پاکستان میں کل 460 مدارس ہیں اور ان مدارس میں طلبا کی تعداد سولہ ہزار سے لے کر اٹھارہ ہزار تک ہے۔

صرف وفاقی دارالحکومت میں 348 اسکولوں کے مقابلے میں 374 مدارس قائم ہیں، جن میں لگ بھگ پچیس ہزار کے قریب طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔

تحریک لبیک نے جس مذہبی ایشو کو لے کر دھرنا دیا، وہ ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہے۔ کیوںکہ ختم نبوت کا اقرارکیے بغیر مسلمانی کی تکمیل ممکن نہیں۔ تاہم جس واقعہ کو بنیاد بنا کر اس ایشو کو اٹھایا گیا، اس میں شاید اتنی جان نہیں تھی کی تحریک لبیک بھرپور کوششوں کے باوجود چند ہزار سے زیادہ لوگوں کو اسلام آباد میں جمع نہیں کر پائی۔ تاہم داد دینی پڑے گی اس منصوبہ ساز کو جس نے پہلے ممتاز قادری کی پھانسی اور بھی الیکشن قوانین میں ترمیم کے دونوں تنازعات کو بھرپور انداز میں سیاسی اٹھان کے لئے ایک کک اسٹارٹر کے طور پر استعمال کیا اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھار کر اپنی پہچان بنانے میں کامیابی سمیٹنے کی کوشش کی۔

جس تنازِع کو لے کر تحریک لبیک میدان میں اتری ہے، ایک آدمی کی مذہبی جذبات کو ابھارنے کے لئے اس سے بہتر کوئی موقع شاید میسر نہ آتا۔ قابل غور ہے کہ کیا تحریک لبیک کے قائدین اور کارکنان کے علاوہ بیس کروڑ عوام جن کی اکثریت سرکاری طور پر تسلیم شدہ مسلمانوں کی ہے، عقیدہ ختم نبوت سے لا تعلق ہیں پھر اس کی اہمیت سے آگاہ نہیں۔

چلیں مان لیتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے 342 اور سینٹ کے 103 میں سے غیر مذہبی سیاسی جماعتوں کے ارکان نے ختم نبوت کے معاملے پر مشترکہ سازش کی۔ لیکن انہی اراکین میں جمعیت علما اسلام کے کل ملا کر اٹھارہ، جماعت اسلامی کے کل ملا کر 4 اراکین کے علاوہ سیکڑوں ایسے ارکان پارلیمان شامل ہیں، جنہیں یہاں پہنچانے میں تمام مسالک کی مذہبی جماعتوں کی حمایت بھی شامل رہی۔ پھر ان اسمبلی اراکین نے بھی الیکشن کے حلف نامے میں عقیدہ ختم نبوت کی شق میں غیر شرعی ردو بدل پر کیوں خاموشی اختیارکیے رکھی اور اسے پاس بھی کروادیا۔

چلیں مان لیا کہ ملک کی بیشتر سیاسی جماعتوں میں کلیدی عہدوں پر بیٹھے لادین لوگ ختم نبوت کی شق حذف کرنے کے معاملے میں بدنیت ہیں۔ لیکن انہی جماعتوں کے اندر 29 ہزار مدارس سے فارغ التحصیل سیکڑوں نہیں ہزاروں سیاسی کارکن سیاست میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر وہ بھی اس مسئلے پر خاموش رہے تو کیا پہلے سے موجود مذہبی جماعتوں، جماعت اسلامی، جمیعت علما اسلام، جمعیت علما پاکستان، مجلس وحدت المسلمین اور دوسری مذہبی جماعتوں کو بھی حالات کی ختم نبوت کی اہمیت اور حساسیت کا احساس نہیں ہوا؟

چلیں مان لیتے ہیں کہ ملک کی 177 یونیورسٹیوں کےلاکھوں بلکہ کروڑوں طلبا و طالبات یک دم ملحد ہوگئے یا کم از کم معاملہ ختم نبوت سے لا تعلق ہو گئے۔ کیا ان مدارس کے لگ بھگ دو لاکھ اساتذہ، کئی لاکھ طلبا و طالبات بھی معاملے کی مذہبی اہمیت و نزاکت کو سمجھ نہیں پا رہے، کہ وہ ملک بھر میں تحریک لبیک کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں اور ایک دن میں حکومت کو چلتا کردیں۔

باقیوں کو تو چھوڑیں، بریلوی مکتبہ فکر کے نو ہزار مدارس کے پچپن ہزار اساتذہ اور تیرہ لاکھ طلبا ان کے خاندان دوست احباب کیا سبھی اس معاملے سے یکسر لا تعلق ہو گئے ہیں۔

تحریک لبیک کے ایک دھڑے نے گزشتہ دنوں اسلام آباد کے بلیو ایریا میں دھرنا دیا تو محض چند سو کارکن دھرنے کی جگہ تک پہنچ پائے۔ دوسرے دھڑے کے دھرنے میں ابتدائی ہفتے میں شرکا کی تعداد سیکڑوں میں رہی، پھر اچانک ہزاروں میں چلی گئی اور پھر آنیوں جانیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ تاہم جو راستے پہلے دن بند ہوئے تھے وہ بند ہی ہیں، اور حکومت باوجود متعدد کوششوں کے راستے کھلوانے میں ناکام رہی ہے۔ باخبر حلقوں کے مطابق حکومت الیکشن کے قریب کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتی، مگر دھرنے والے جانتے ہیں کہ لاشیں جتنی زیادہ گریں گی، الیکشن میں گراف اتنا اوپر جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).