بلوچستان صحافت کا قبرستان بن چکا ہے


بلوچستان کا نام آتے ہی، بیرونِ بلوچستان قاری کے ذہن کے پردے پر جو شبیہیں ابھرتی ہیں اُن میں یا تو خون آلود سڑکوں کا منظر ہوگا، یا آب و گیاہ پہاڑوں، چٹانوں اور چشموں کا، یا ایک ایسے جزیرہ نما کا جو اب تک کسی غیر دریافت شدہ سیارے کی مانند دِکھتا ہو۔ دوش اس میں اُن کا یوں بھی نہیں بنتا کہ علم اور معلومات کے موجودہ ماخذ، ذرائع ابلاغ کے بالائی مراکز سے لے کر ، سوشل میڈیا نامی جدید آئینے میں یہی کچھ دکھایا جا رہا ہوتا ہے۔ بلکہ اب تو علم و دانش کے سبھی دھارے یہیں سے پھوٹتے ہیں۔ گو کہ کسی دل جلے نے ٹی وی چینلز کو لغو معلومات کا اور سوشل میڈیا کو علم کا گٹر قرار دے دیا ہے، مگر باوجود اس کے ’عوامی دانش‘ کے جدید مراکز اب یہی ہیں۔

مگر حد یہ ہے کہ معلومات کے اس قدر وسیع اور کھلے ڈھلے مراکز کے باوجود بلوچستان نامی جزیرے سے متعلق معلومات کے فقدان کا وہی عالم ہے، جو نصف صدی پہلے ہوا کرتا تھا،بلکہ ظلم یہ ہوا ہے کہ پہلے معلومات کے فقدان کا المیہ درپیش تھا، اب غلط معلومات کا رونا رونا پڑتا ہے۔ اس لیے کہ درست معلومات کے لگ بھگ سبھی ذرائع یا تو مفقود ہو گئے یا مفقود کر دیے گئے۔ ماسوائے شخصی معلومات کے، اب آپ اس ضمن میں کسی بھی ذریعے کو قابلِ بھروسہ قرار نہیں دے سکتے، وہ بھی مذکورہ شخص کی نیت ٹھیک ہونے کی شرط پر۔ عوام تک درست معلومات کی رسائی کا سب سے بڑا ذریعہ‘ ذرائع ابلاغ ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد، جن کی روایت یوں بھی خاصی کم زور رہی ہے۔ برطانوی عہد میں اگر اخبار چھاپنے اور پڑھنے پر پابندی عائد کر کے، صحافت پر براہِ راست حملہ کیا گیا تو قیامِ پاکستان کے بعد اخبارات کو سرکاری اشتہارات سے جوڑ کر ان کی آزادی کو سلب کر لیا گیا۔ یوں گزشتہ نصف صدی سے بلوچستان میں صحافت، سرکار کے گھر کی لونڈی بنی ہوئی ہے۔ ایڈیٹر کا ادارہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے معدوم ہوا۔ جس کے پلے چار پیسے آئے، وہ ناشر بنا ، وہی مالک و مدیر بھی کہلایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اخبار، بلوچستان میں محض پریس ریلیز کا پوسٹر بن کر رہ گئے۔وہ تو بلوچستان کی سیاسی صورت حال نے حالات کوایسا ’خبرناک‘ بنا دیا کہ واقعاتی خبروں کا نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑا، وگرنہ ’اِس نے کہا، اُس نے کہا‘ کی گردان نے قاری کو کب کا اخبار سے متنفر کر ڈالنا تھا ۔

یہ خبرناک والی صورت حال ایک طرف تو اخباراور قاری کے مابین پُل بنی ، دوسری جانب مگر خبر لانے والوں کے لیے موت کا پروانہ بن گئی۔ خصوصاً2005ءکے بعد جوں جوں سماجی ، سیاسی حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے، متحارب فریقین کے غیظ و غضب میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اپنا مو ¿قف اور اپنی کارکردگی ایک دوسرے کو سنانے نیز عوام الناس تک پہنچانے کے لیے ان کے پاس واحد میڈیم میڈیا تھا، اس لیے سارا زور اسی پہ تھا۔اور بلوچستان میں اب تک میڈیا کا مضبوط ترین میڈیم اخبار ہی ہے،اس لیے اخباری صحافیوں کے لیے تب مشکل وقت کا آغاز ہوا، جب دونوں فریقین نے اخبار کو اپنا پمفلٹ بنانا چاہا۔ دونوں فریق، میڈیا کو ایسا نوٹس بورڈ دیکھنے کے خواہاں ہیں، جہاں صرف ان کی مرضی کے نوٹس آویزاں ہوں۔ دوسری جانب مدیر (مالکان جمع ناشران) کا دردِ سر صرف اشتہار ہے، جس کی ڈور سرکار کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے وہ سرکار کی سننے پر مجبور ہیں۔ دوسرے فریق کے ہاتھ بندوق ہے، اس لیے وہ اپنا ہتھیار استعمال کرتا ہے، مگر اپنے محدود دائرئہ اثر کے باعث ان کا ہتھیار مالکان تک تو پہنچ نہیں پاتا، بیچ میں اس کا نشانہ بنتے ہیں عام صحافتی ورکر۔ اس گھن چکر میں 2005ءسے 2014ءکے درمیان 40 صحافی پس چکے۔ حتیٰ کہ اگست2014ءمیں، ان کی فہرست مرتب کرنے اور اپ ڈیٹ رکھنے والا نوجوان صحافی ارشاد مستوئی بھی اپنے دو ساتھیوں سمیت گولیوں کا نشانہ بن کر اس فہرست کا حصہ بن گیا۔ جو فہرست، گزشتہ دو برسوں میں مزید تین صحافیوں کی شہادت کے بعد اب 46کے ہندسے کو چھو تے ہوئے نصف سنچری کو آ پہنچی ہے۔ اب آپ خواہ کتنے ہی مبالغے سے کام لیں، تب بھی ان میں سے کم از کم نصف سے زائد صحافی ایسے ہیں جو اپنے فرائض کی ادائیگی میں مارے گئے۔ کہیں سرکار کی طرف سے تو کہیں سرمچاروں کی جانب سے۔

سرکار اور سرمچاروں کے بیچ سینڈوچ بنے بلوچستان کے صحافی گزشتہ ایک ماہ سے ایک بار پھر اسی صورت حال کا شکار ہیں۔ سرکار کا حکم ہے کہ کسی بھی کالعدم تنظیم کی کوئی خبر کہیںشائع نہ ہو گی،اگر ایسا ہوا تو سرکار، قانونی چارہ جوئی کرے گی اور مذکورہ صحافی و ادارے کو حوالات کو بھگتنا ہو گا۔ جب کہ بلوچ جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ ان کے موقف کو روکنا، آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے منافی ہے۔ اس لیے ان کے (ریاست مخالف) موقف کو بہرصورت جگہ ملنی چاہیے، بصورتِ دیگر وہ کسی صحافی اور صحافتی میڈیا کو بلوچستان میں کام کرنے نہیں دیں گے۔ جنگجوؤں کا عمومی موقف معتدل مگر ردِعمل نہایت سخت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آزادی اظہار کے عالمی اصول کے تحت ہر فریق کے موقف کو جائز جگہ ملنی چاہیے، لیکن اخبار یا ذرائع ابلاغ بہرحال ملکی قوانین کے پابندہوتے ہیں، اس لیے بالفرض اگر قانون کے تحت کوئی ایسا کرنے سے معذور ہو تو اس کی سزا بہرحال موت نہیں ہونی چاہیے۔ اور سنیے، سرکار اور سرمچار کے بیچ صحافیوں کے سینڈوچ بننے کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں۔ تین، چار برس قبل اُس ایسی ہی صورت حال پیش آئی جب ہائی کورٹ نے صحافیوں کو کالعدم تنظیموں کے بیانات شائع کرنے پر قانونی نوٹس بھیج دیے۔ نیز کہا گیا کہ آئندہ جس ’ذریعے‘سے ایسی خبر شائع ہوئی اسے چھ ماہ حوالات کی سزا بھگتنا ہو گی۔ اس میں دلچسپ نکتہ یہ تھا کہ سزا ’ذریعہ‘ کو ہو گی، شائع کرنے والے ادارہ کو نہیں، یعنی صحافی خبر بھی دے اور سزا بھی بھگتے۔دوسری جانب بلوچ جنگجوؤں کا وہی موقف کہ اگر ان کا موقف شائع نہیں ہو سکتا تو وہ ذرائع ابلاغ کا نہ صرف بائیکاٹ کریں گے بلکہ صحافیوں کو نشانہ بھی بنائیں گے۔ صحافتی تنظیموں نے غوروغوض کے بعداس دلیل کے ساتھ’قانون شکنی‘ کا فیصلہ کیا کہ عدالت کا حکم نہ ماننے کی سزا بہرحال چھ مہینے ہے، جب کہ سرمچار سیدھا گولی کا نشانہ بناتے ہیں۔ البتہ کچھ عرصے بعد سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے جیسا درمیانہ راستہ نکال لیا گیا ، جس کے تحت کالعدم جنگجو تنظیموں کی سنگل کالم خبر بیک فرنٹ پہ ایک کونے میں ’ذمہ داری قبول کرلی‘ کے عنوان سے شائع ہوتی جس کے آخر میں حفظ ِ ماتقدم کے بہ طور یہ جملہ بھی ڈال دیا جاتا کہ،’دوسری جانب سرکاری سطح پر واقعہ کی تصدیق نہیں ہو سکی۔‘ یہ وہ معتدل راستہ تھا، جسے دونوں فریقین نے بادلِ نخواستہ قبول کر لیا تھا۔

لیکن جوں جوں ریاست کا زور بڑھتا گیا، اور علیحدگی پسندبہ ظاہر کم زور پڑتے گئے، سرکار نے اُن کے لیے تمام نرم گوشے سخت کرنا شروع کر دیے۔ اسی جذبے کے تحت اخبارات میں ان کے لیے مختص سنگل کالم کوٹہ بھی ختم کر دیا گیا۔ نتیجتاً انہوں نے وہی سخت موقف اپنایا اور اپنا غصہ کم زور صحافی ورکروں پہ اتارنے کی دھمکی دی۔ پچیس اکتوبر کی ڈیڈ لائن کے بعد سے بلوچستان میں عملاً میڈیا بلیک آؤٹ ہو چکا ہے۔ کوئٹہ کے علاوہ، پشتون علاقوں اور بلوچستان کے مشرقی حصوں کے سوا، نہ تو کہیں اخبار پہنچ رہے ہیں، نہ کوئی نیوز چینل دکھایا جا رہا ہے۔ گوادر، نوشکی، چاغی، خاران، دالبندین، پنجگور سمیت درجن بھر پریس کلبز نے اپنی سرگرمیاں علی لاعلان معطل کر رکھی ہیں۔ صحافتی تنظیمیں ایک آدھ بیان دے کر بری الذمہ ہو چکی ہیں۔ چند ایک روز کی سختی کے بعد اخبار شائع ہونا شروع ہو گئے اور کوئٹہ کی سطح تک تقسیم بھی ہو رہے ہیں، اس لیے اشتہارات کا کوئی مسئلہ نہیں۔ سو، اخبار مالکان کے لیے بھی ’ستے خیراں‘ ہے۔ زمین اور اہلِ زمین سے نہ پہلے انہیں کوئی ربط تھا، نہ اب کوئی واسطہ۔ گندا ہے پر دھندا ہے کہ مصداق وہ بنا کسی ضمیر کی خلش کے اپنی دکاں سجائے ہوئے ہیں۔

اس سارے پس منظر میں، بلوچستان محض محاورتاً نہیں حقیقتاً صحافت کا قبرستان بن چکا ہے۔ صحافی، اس قبرستان کے مجاور ہیں، جو روز اس توقع کے ساتھ اس قبرستان میں اگربتیاں جلانے آ جاتے ہیں کہ کبھی تو کوئی معجزہ ہو گا، اور ان قبروں سے چلتے پھرتے، زندہ سلامت صحیفے برآمد ہوں گے اور ہم سمیت اہلِ زمیں کے دن بدلے جائیں گے، سب تخت گرائیں جائیں گے، سب تاج اچھالے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).