بے روزگاری اور انسانی سمگلنگ


پاکستان میں بے روزگاری کا جن جب تک بوتل سے باہر ہے انسانوں کی سمگلنگ اور غیر قانونی نقل مکانی روکنا مشکل ہے۔ کسی معاشرے میں جہالت، غربت، معاشی نا ہمواری اور بے روزگاری جیسی برائیاں جرائم کی پرورش کرتی ہیں۔

معاشی لحاظ سے پاکستان میں اگرچہ گزشتہ کچھ سالوں کی نسبت بہتری آئی ہے صورتحال اب بھی حوصلہ افزا نہیں۔ ملک کے تعلیمی نظام سے لے کر حکومت کے بنیادی ڈھانچے میں شامل تمام ادارے بے روزگاری پیدا کرنے کے کارخانے ہیں۔ ایک غیر تعلیم یافتہ فرد کا تو ذکر ہی کجا ہمارا اعلے تعلیمی نظام بھی افراد کو اس قابل نہیں بناتا کہ وہ معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کر سکیں۔

افرادی قوت کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں نویں نمبر پر ہے۔ 2016 میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی کل افرادی قوت تقریبا 6 کروڑ ہے۔ مگر غیر مؤثر حکمت عملی کے باعث نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ تجربات اور بے مصرف سرگرمیوں میں ضائع کر دیتا ہے۔ 21 سے 24 سال کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 9 فیصد بتائی گئی۔

اس معاشی دباؤ سے نکلنے کے لئے اور ایک آسان حل کے طور پر پاکستان اپنی افرادی قوت کی بڑی تعداد کئی عرب اور یورپی ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ شاید یہ اسی رجحان کا اثر ہے کہ آج ہر غریب، بے روزگار اور مجبور شخص اپنی جان کی قیمت پر بیرون ملک جا کر کمانے کو ترجیح دیتا ہے۔ جب مقامی ایجنٹ ان نوجوانوں کو اچھے مستقبل کے حسین خواب دکھا کر باہر بھیجنے کا جھانسہ دیتے ہیں تو یہ مجبور نوجوان انہیں اپنا نجات دھندہ سمجھتے ہوئے اپنی جمع پونجی ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ غیر قانونی سرحدی راہداریوں یا غیرمحفوظ سمندری راستوں میں جانے والے ان نوجوانوں کی بڑی تعداد منزل پر نہیں پہنچ پاتی، کچھ سفری صعوبتیں نہیں جھیل پاتے اور کچھ غیر ملکی سیکیورٹی اداروں کی زد میں آ جاتے ہیں۔ زندہ بچ جانے والے ڈی پورٹ کر دیے جاتے ہیں۔

دوسری طرف انسانوں کی سمگلنگ اور غیر قانونی نقل مکانی پاکستان سمیت دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔ بین الاقوامی معیشت میں یہ اربوں ڈالر کے کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ کاروبار جرائم کی دنیا میں تیسرا سب سے بڑا اور تیزی سے پھیلتا ہوا کاروبار ہے۔

 اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کی روک تھام کے دفتر کے مطابق سن 2013ء میں صرف پاکستان میں سرگرم جرائم پیشہ گروہوں نے انسانوں کی اسمگلنگ کے ذریعے 927 ملین ڈالر کمائے تھے۔

اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی سمگلنگ کی صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ رپورٹ کی تحقیقات کے مطابق یورپی یونین اور مشرق وسطیٰ میں غیر قانونی ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کی شرح گذشتہ سال کے مقابلے میں بڑھ چکی ہے۔

پاکستان میں  ایف آئی اے کا اینٹی ٹریفکنگ سیل گزشتہ کئی سالوں سے قائم ہے۔ اس ادارے کی ’ریڈ بُک‘ کے مطابق پاکستان میں 2014ء میں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں کی تعداد 141 تھی۔ رپورٹس کے مطابق یہ مافیا پنجاب میں جہلم کھاریاں، لالہ موسے، گجرات اور گوجرانوالہ سے سیالکوٹ، راولپنڈی اور منڈی بہاؤالدین جیسے شہروں اور آزاد کشمیر میں سرگرم ہے۔ اسمگلنگ کے واقعات میں تسلسل کے ساتھ اضافہ اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان میں حکومتی اور سفارتی سطح پر اب تک جو کوششیں ہوئی وہ آٹے میں نمک کے مترادف ہیں۔

یہ سمگلر خشکی کے راستے گوادر، پنجگور، کوئٹہ اور تربت کے سرحدی علاقوں سے ان افراد کو ایران پہنچاتے ہیں جبکہ کچھ ایجنٹ سمندری راستے سے عمان لے کر جاتے ہیں۔ موسم گرما میں ایسی کارروائیوں میں شدت آ جاتی ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب اس مافیا کا سٹارٹنگ پوائنٹ اور ایگزٹ پوائنٹ معلوم ہے، طریقہ کار پتہ ہے، اور انٹیلیجنس معلومات کا نیٹ ورک بھی کوشاں ہے تو یہ گروہ اتنے طاقتور کیسے ہیں؟ کیوں انسانوں کی سمگلنگ کے ایجنٹ گرفتار نہیں ہو تے، یا گرفتار ہونے کے باوجود ثبوت اور گواہ نہ ہونے کی بنیاد پر عدالتوں سے رہا ہوجاتے ہیں۔ جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسانوں کی سمگلنگ کے دھندے میں کئی با اثر شخصیات ملوث ہیں

پاکستان سمیت دنیا بھر میں غیر قانونی تارکین وطن اور انسانوں کی سمگلنگ کے سدباب کے لیے قوانین موجود ہیں مگر ان قوانین کے نفا‏‎‌‍ذ میں کہیں نہ کہیں کوئی سقم موجود ہے۔  اور جب تک بے روزگاری اور غربت پر قابو نہ پایا گیا یہ تمام اقدامات بے سود ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).