دووزرا کی کہانی


شکار گاہ کی شکل اختیار کرنے والے معاشرے میں پروان چڑھنے والے افراد غیر انسانی تشدد سے لطف اندوز ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس رزم گاہ میں ہمدردی اور احساس کا کیا کام؟ آپ اکثر تعلیم یافتہ افراد کو یہ کہتے سنیں گے کہ اگر چند افراد کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیں گے ۔ گویا اُن کےنزدیک ہمارے اداروں اور افراد کے تمام امور اور طرز عمل کو درست کرنے کے لئے چند ایک پھانسیاں اکسیر کا نسخہ ثابت ہوںگی ۔ ہمارا تازہ ترین شکار زاہد حامد ہیں۔ ہم اُنہیں لٹکانا چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اُن سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے ، بلکہ اس لئے کہ ہمیں ایک قربانی کے بکرے کی ضرورت ہے جس کا خون کچھ طبقوں کو فتح کے جذبے سے سرشار کرکے اُن کا غصہ ٹھنڈا کرسکے ۔

وزیر ِ خزانہ اسحاق ڈار اور زاہد حامد کے بارے میں ہمارے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا نظام کس قدر خرابیوں کا شکار ہوچکا ہے ۔ اسحاق ڈار پر نیب کے الزامات کے تحت احتساب عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا۔ اب عدالت نے اُنہیں اشتہاری مجرم قرار دے دیاہے ۔ اُنہیں ریاست گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کرے اور اُ ن کی جائیداد ضبط کرلی جائے ۔ عام فہم زبان میں ایک اشتہاری قرار دیا جانے والا شخص عدالت سے مفرور ہوتا ہے ، اور پیش نہ ہونے والے شخص سے قانون سختی سے پیش آتا ہے ۔

مسٹر ڈار کو گرفتار نہ کیا گیاکیونکہ وہ ایک وفاقی وزیر اور حکومت کا حصہ ہیں، جبکہ ایک عام شہری کو گرفتار کرلیا جاتا۔ (آرٹیکل 90 وزیر ِاعظم اور وفاقی وزرا کو مجموعی طور پر ایگزیکٹو اتھارٹی دیتا ہے )۔ اسحاق ڈار نواز شریف کے رشتے دار بھی ہیں۔ وہ مشرف دور میں نواز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے ، لیکن بعد میں اُنھوںنے دعویٰ کیا اُن سے وہ بیان زبردستی ، دبائو کے تحت لیا گیا تھا ۔ اس طرح وہ نواز شریف کے خلاف ریفرنسز میں ایک کمزور سا لنک ہیں۔

چند مرتبہ عدالت میں پیش ہونے کے بعد اسحاق ڈار ملک سے باہر چلے گئے ۔ وہ پاکستان سے باہر رہ کر بھی بطور فنانس منسٹر اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے ۔ اُن کے نام کو ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا تھا ۔ اگرچہ اُنہیں ایک اشتہاری مجرم قرار دے دیا گیا ہے ، لیکن حکومت ، جس کا وہ ایک حصہ ہیں، اُنہیں واپس لانے کے لئے انٹرپول کے پاس نہیں جائے گی ۔ اگر کوئی عام مفرور ہوتا تو وہ شاید ایسا کرتی۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ صحت کے مسائل کی وجہ سے پاکستان کا سفر اختیار کرنے اور عدالت میں پیش ہوکر مقدمے کا سامنا کرنے کے قابل نہیں۔ اب اُن کی چھٹی کی درخواست بھی منظور ہوگئی ہے ، لیکن اُنہیں ابھی تک وفاقی وزیر ہی سمجھا جارہا ہے ۔

کیا کسی ریاست کی ایگزیکٹو اتھارٹی اور قانون کی حکمرانی کی اس سے زیادہ توہین ممکن ہے ؟ بطور ایک وزیر ، اسحاق ڈار نے حلف اٹھایا تھا، جس کے الفاظ یہ ہیں۔۔۔’’میں اپنے فرائض پوری ایمانداری اوراپنی بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق سرانجام دوں گا۔۔۔ میں اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری فیصلوں اور فرائض پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دوں گا۔۔۔ میں آئین کا دفاع کروں گا۔۔۔‘‘۔ کیا وہ قسم اٹھانے ، اور یوں اشتہار ی مجرم قرار پانے کے بعد اپنے حلف کی پاسداری کررہے ہیں؟

وزیر ِاعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی یہی حلف اٹھایا ہوا ہے ۔ اُن کے پاس آرٹیکل 92 کے تحت اتھارٹی ہے کہ وہ صدر ِ مملکت کو ایک وزیر کو عہدے سے ہٹانے کا مشورہ دیں ۔ کیا مسٹر عباسی واقعی یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے حلف کے مطابق پاکستانی عوام کی درست خدمت کررہے ہیں، اور سرکاری امور کی انجام دہی میں اُن کے ذاتی یا پارٹی کے مفادات حائل نہیں ہورہے ہیںجبکہ وہ عدالت کی طرف سے اشتہاری مجرم قرار پانے والے ایک شخص کو کابینہ سے نہیں ہٹا رہے ہیں؟

اگر ہم اسحاق ڈار کے مخمصے کا شکار ہیں ، یا زاہد حامد کا مسئلہ ہمارے سامنے موجود ہے تو ان دونوں مسائل کی وجہ ایک ہی ہے : پی ایم ایل (ن) کی سیاست کے سامنے درست قدم اٹھانے کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ اس کی وجہ سے مسٹر ڈار کے ذاتی مفاد کو نقصان پہنچتا ہے ۔ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ مسٹر ڈار دبائو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ۔ اس لئے نواز شریف نہیں چاہتے کہ اسحاق ڈار دبائو میں آکر پھر کوئی بیان دے دیں۔ اُنہیں عہدے سے ہٹانا قصور وار ، یا کمزور ہونے کا اعتراف ہوتا۔ چنانچہ پی ایم ایل (ن) نے ایک مفرور کو وفاقی وزیر کے عہدے پر برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کی بدنامی مول لے لی ہے ۔ زاہد حامد کا جرم یہ ہے کہ اُنھوںنے الیکشن ایکٹ 2017 کی نگرانی کی ۔ مذہبی طبقے کی طرف سے احمدیوں کے حوالے سے ، اور نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد بھی پارٹی سربراہ بننے پر اپوزیشن کی طرف سے پڑنے والے دبائو کے نتیجے میں پی ایم ایل(ن) نے زاہد حامد کو محاورۃً بس سے نیچے دھکا دیا تاکہ وہ مذہبی طبقے کو رام کرتے ہوئے اپوزیشن سے سیاسی طور پر دودوہاتھ کرسکے ۔ آئین کے مطابق احمدی غیر مسلم ہیں، چنانچہ کوئی ذیلی قانونی شق اُنہیں مسلمان قرار نہیں دے سکتی۔ پاکستان پینل کوڈ کے مطابق اگر کوئی احمدی خود کو مسلمان ظاہر کرے تو اسے ایک مجرمانہ فعل تصور کیا جائے گا۔ الیکشن ایکٹ 2017 پی پی سی کے سیکشن 298A، B اور C میں کوئی ترمیم نہیں کرتا۔ الیکشن آرڈر 2002 کے سیکشنز 7B اور 7C جیسی شقیں مشرف نے مذہبی طبقے کو خوش کرنے کے لئے شامل کی تھیں۔

اگرنواز شریف عہدے سے نہ ہٹائے گئے ہوتے ، اور اگر مسٹر ڈارو زیر قانون ہوتے تو مذہبی طبقے کو خاطر میں نہ لایاجاتا ۔ ہماری تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے ۔ کئی افراد پر انتہا پسندوں کا دبائو ہوتا ہے ،ا ور وہ منتخب ہونے کے بعد کسی اور انتہا پسند چھتری کے نیچے پناہ لے لیتے ہیں۔پی ایم ایل الیکشن ایکٹ 2017 کا دفاع کرتے ہوئے محض اصولوں کی خاطر اپنی سیاسی کرنسی ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ وہ اس اسلامی ریاست میں رہنے والے عام مسلمانوں کو مزیدمسلمانوں کے ہاتھوں اذیت سے بچانے کے لئے بھی کچھ نہیں کرنا چاہتی۔

اصولی طور پر آرٹیکل 17 کے تحت دیا گیا حق آرٹیکل 62/63 کی زد میں نہیں آتا، لیکن آرٹیکل 63A ، جو پارٹی ہیڈ کو اپنی پارٹی کے ارکان ِ پارلیمنٹ کو کنٹرول کرنے کے قابل بناتا ہے ، کی موجودگی میں معقول افراد اس معاملے پر اتفاق نہیں کریں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ پی ایم ایل (ن) نے بہتر سمجھا کہ ا نتہا پسندوں کا غصہ ٹھنڈا ہونے دیا جائے تاکہ پارٹی کی قیادت کے مسئلے پر اپوزیشن کے ساتھ پوری یکسوئی سے لڑسکے ۔ نواز شریف کے داماد، کیپٹن صفدر لند ن سے واپس آئے اور پارلیمنٹ میں احمدیوں کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز تقریر کر ڈالی ۔ جب پی ٹی آئی نے اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کی دھمکی دی ، اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ ایسا کرنا غیر آئینی اقدام ہوگا کیونکہ احتجاج کا حق عام شہریوں کو حاصل حقوق کو متاثر نہیں کرتاتو پی ایم ایل (ن) نے عزم کیا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرائے گی ۔ اُس وقت ہم نے ایک وزیر کو یہ کہتے بھی سنا تھا کہ’’ پی ٹی آئی کے شورش پسندوں ‘‘ کو ریاست کی عملداری چیلنج کرنے ، یا عوام کی نقل و حرکت کو متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اُس وقت یہ موقف اصولوں کی بنیاد پر تھا ۔ درست، لیکن آج کیا ہوا؟ عدالت کی طرف سے ویسا ہی حکم نامہ، اور صرف 2000 دھرنے دینے والے ، لیکن ریاست کی عملداری اور عزم کا کیا ہوا؟
ہمارے ہاں پائے جانے والے سول ملٹری عدم اعتماد کی سدابہار فضا میں پی ایم ایل (ن) کو ہمیشہ کسی نہ کسی سازش کی بو آتی ہے ۔ آفرین ہے اس کی قوت ِ شامہ پر ! اسے یقین ہے کہ فیض آباد دھرنا اسے زک پہنچانے کے لئے کی گئی ایک اور سازش ہے ۔کچھ لوگوں کو یقین ہے کہ مذہبی انتہا پسند چونکہ انتخابات جیت کر حکومت میں نہیں آسکتے ، اس لئے وہ مذہبی جذبات سے کھیل کر اقتدار سنبھالنا چاہتے ہیں۔ ذاتی مفاد کی خاطر کسی اصول کو خاطر میں نہ لانے والی سیاست انتہا پسندوں کو خوش کرنے کے لئے قدم پیچھے ہٹا رہی ہے ۔ فی الحال ایسا لگتا ہے کہ پی ایم ایل (ن) نے مسٹر ڈار کو بچانے اور مسٹر حامد کو سرخ کپڑا پکڑا کر بپھرے ہوئے بیل کے آگے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بابر ستار

بشکریہ روز نامہ جنگ

babar-sattar has 43 posts and counting.See all posts by babar-sattar