مردوں اور عورتوں کے درمیان تفرقات کیسے بڑھتے گئے؟


سماجی علوم میں مائیکرو اور میکرو تھیوری پیش کرنے والوں کے درمیا ن ہمیشہ سے ایک بحث رہی ہے کہ کیا معاشرہ افراد کی تشکیل کرتا ہے یا افراد معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں؟ یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔ مگر عمومی مشاہدہ یہی ہے کہ معاشرہ افراد کی تشکیل و تربیت کرتاہے۔ معاشروں میں ادارے اہم اور افراد کم اہمیت کے حامل ہیں کہ افراد کو آسانی سے ردوبدل کر دیا جاتا ہے اگر اداروں کو کہیں بھی افراد خود سے متصادم نظر آئیں تو۔ معاشروں میں ثقافتی تربیت کے اجز اء، معیارات، معمولات، لوک ریت، معروف آداب غلط اور صحیح کے درجات اور معاشرتی قوانین شامل ہیں اور نمایاں ادارے جو ان اجزاء کے لئے افراد کی تربیت کرتے ہیں ان میں خاندان، تعلیم، مذہب، سیاست، تجارت، ہم جولی دوست اور میڈیا شامل ہیں۔ یہ ادارے پہلے افراد کی تربیت کرتے ہیں اور پھر ان کو اس تربیت کی تشکیل کے ذرائع اور مواقع فراہم کرتے ہیں۔

صنفی اعتبار سے ہم ایک پدرانہ معاشرے کا حصہ ہیں۔ اوراس معاشرے کو عموماً اندرونی یا گھریلو اور بیرونی یا معاشرتی حصوں میں بانٹا گیا ہے۔ اب جو لوگ اندرونی حصوں میں اپنی ذمہ داریاں اداکرتے ہیں ان کو جذباتی آسودگی اور تنقیہ نفس جیسے اہم فرائض کے لئے مختص کیا گیا اور بیرونی ذمہ دارریوں والے افراد کو حقیقت پسند اور عاقل ما نا گیا۔ معاشروں میں اس اندرونی وبیرونی تقسیم نے مواقع، تعلیم، شعور، دولت، شعبہ جات، ترقیوں جیسے عناصر کو بیرونی حصے تک محدود کیا تو اندرونی حصوں میں پرورش پانے والے اس کی دسترس سے دور رہے۔ صنفی اعتبار سے عورتیں اندرونی حدود اور مرد بیرونی حدود پر براجمان ہوئے اور یوں مواقع تعلیم، دولت، شعور، شعبہ جات جیسے عناصر پر مردوں اور عورتوں کے درمیان دوری بڑھتی گئی۔

حقوق نسواں جیسے تحریکوں نے اس فاصلے کو مٹانے کی کوشش کی تو پدرانہ نظام تو کہیں اس سے خطرہ محسوس ہوا اور افراد کو تربیتی طور پر ایسا بنانے کی کوشش میں لگایا گیا کہ پدرانہ نظام قائم رہ سکے۔

پدرانہ نظام ایسے نظام کا نام ہے۔ جسمیں مردوں کی حاکمیت اور برتری ہر حوالے سے عورتوں پر قائم رکھی جا سکے۔ اب اس پدرانہ نظام کی حاکمیت کے لئے مردو عورت دونو ں کی ہر ادارے نے اپنے اپنے اندازسے تربیت کی۔

خاندانی ادارے سے شروع کرتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کا حقدار لڑکوں کو ہونا چاہیے۔ کیونکہ لڑکیوں نے تو بیاہ کر اگلے گھر چلے جانا ہے۔ سکالر شپ پہ لڑکا تو باہر پڑھنے جا سکتاہے لڑکی کے لئے باہر کی دنیا خطرہ ہے۔ جائیداد میں حصہ کیا دیناکہ جب لڑکی کو جہیز تو دے ہی رہے ہیں۔

اب اس طرح کے تفرقات کو مٹانے کے لئے اگر کسی نے آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو کہا گیا معاشرے کو کیا منہ دکھائیں گے۔ مان لیں کسی بھائی نے بہن کی ڈھال بننے کی کوشش کی تو کہا گیا نہیں خاندان والے باتیں بنائیں گے۔ ماں نے کہا بیٹی اپنے سارے شوق اگلے گھر جا کر پورے کر لینا یہاں نظر یں جھکا کر باپ بھائی کی عزت کی محافظ بنی رہو۔ کسی نے بہن کو چھیڑدیا تو بھائی کو طعنہ ملا تمہاری عزت پر حملہ کیا گیا ہے۔ عورت کو عزت کا مظہر معاشرے نے بنایا۔ بیٹے نے اپنی بیوی کی گھریلو امور میں مدد کرنے کی کوشش کی یا گھریلو فیصلوں میں اس کو شامل کرنے کی کوشش کی تو سُننے کو ملا زن مرید ہے۔ بھاوج نند ساس بہو کی لڑائی میں مرد کہیں نظر نہیں آیا۔ عورت پر ہاتھ اٹھانے والا مرد کہلایا۔

اب ہم عمر دوستوں کے ادارے کو دیکھیں، لڑکی کو نہ چھیڑنے والا، سگریٹ کے کش لگا کر لڑکی کو ہاتھ نہ لگانے والا، سیٹی نہ بجانے والا نامرد کہلائے گا۔ ”ارے بزدل چوڑیاں پہن لو بہن سے لیکر، میرے ساتھ کئی لڑکیا ں سیٹ ہیں اور مردوں کا کیا ہے۔ مرد تو ایسا کرتے رہتے ہیں“ کی گنجائش معاشرے نے مردوں کے لئے نکالیں۔ ماں بیٹی سے کہتے ہوئے پائی گئی تمہارے ابا تو اس سے بھی زیادہ سخت تھے۔ اب اگلے گھر سے تمہارا جنازہ ہی آنا چاہے۔ تعلیم کے شعبے میں تربیت تو رہی نہیں پھر لڑکوں کو گلہ رہا کہ مرد اساتذہ لڑکیوں پر نمبروں کا نظر کرم زیادہ کرتے ہیں۔

مرد اساتذہ کو بھی معاشرے کی طرف سے گنجائش ملی کہ اپنی حاکمیت کو نمبروں کے لالچ میں بدل کر لڑکیوں سے من چاہی فرمائشیں کر لیں اور لڑکوں کو نا لائقی پر رگڑ دیں۔ ہم نے سُنا طوائف بری ہوتی ہے۔ مگر معاشرے نے اس کے پاس جانے والے مردوں کو شرفاء کے درجے سے نہ اتارا۔ سٹیج ڈانسر تو رنڈی تھی مگر اس کا ننگا ناچ دیکھنے والے کے لئے مر دانگی کا سر ٹیفکیٹ برقرار رکھا گیا۔ جن مردوں نے عورتو ں کی عزت کرنے کی کوشش کی اُن پر اُن عورتوں کے ساتھ چکر بازی کے الزامات دھرے گئے۔ لڑکا لڑکی میں دوستی نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا مگر بچہ بازی کی گنجائش موجود تھی۔

پدرانہ نظام میں مردوں نے کبھی تنقیہ نفس (صفائی) کی اجازت طلب کی تو کہا گیا ”نہیں مرد نہیں روتے ہیں، ارے تم تو مرد ہو کمانا تمہارا کام ہے، ارے عورت کی کمائی کھاتے ہو بے غیرت یا پھر مجھے نہیں معلوم جہاں سے مرضی روپے لا ؤ مگر میرا خرچہ پورا کرو“ جیسے کئی خطابات۔ معاشرتی اداروں نے کھبی صنفی تربیت میں اعتدال برتنے کی کوشش نہیں کی کبھی لڑکوں کو نہیں سکھایا کہ عزت ہر عورت کی ہے چاہے تمہاری بہن ہو یا کسی دوسرے کی۔ نہیں سکھایا کہ ہمیں فخر ہے کہ تم اپنی بہنوں کے لئے معاشرے کے سامنے ڈھال بنے، ساس نے کھبی بیٹے کا ماتھا نہیں چوما کہ تم نے اپنی بیوی کی عزت کرکے میری تربیت کی لاج رکھی ہے۔ بیٹیوں کو کھبی نہیں سکھایا کہ دنیا میں ترقی کرنے کا حق تمہیں بھی اتنا ہی ہے جتنا مردوں کو، بیٹوں کو نہیں سکھا یا کہ تمہاری عزت بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی بیٹیوں کی اور نہ ہی معاشرتی گنجائشوں پر قدغن لگائی۔

معاشرے نے نہیں سکھایا کہ ہم مرداور عورت ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہیں مگر ہر فرق ہمیں ایک دوسرے سے کم تر نہیں بناتا۔ نہیں سکھایا کہ ہر شخص میں خوبیاں خامیاں ہوتی ہیں ایک دوسرے کی خوبیوں کو اُجاگر اور خامیوں پر پردہ ڈال کر خوبصورت تعلقات کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ نہیں سکھایا کہ عزت ہی وہ واحد راستہ ہوگا جو صنفی فاصلے کو مٹاپائے گا۔ ایسے میں صرف مردوں کو برابھلا کہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ معاشرے میں بہت سے مرد ہیں جو عورتوں کی عزت کرتے ہیں اور بہت سی عورتیں ہیں جو عورتوں سے نفرت کرتی ہیں، ایسے میں صرف مردوں کو مورد الزام ٹھہرانا نا انصافی ہوگی۔ التجا ہے نفرت نظام سے کیجیے صنف سے نہیں۔ باہمی احترام کو فرغ دینے سے ہی صنفی فاصلہ مٹے گا اور مظبوط اور اعتدال پسند معاشرہ وجود میں آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).