عقیدے کی جانچ پڑتال کا موثر طریقہ


اہل اقتدار اور اہل مذہب کو ایک مسئلہ ہمیشہ بہت پریشان کرتا رہا ہے؛ اہل اقتدار کو فکر ہوتی ہے کہ ان کے دربار میں کوئی ایسا شخص نہ گھس آئے جس کی وفاداری مشکوک ہو۔ اہل مذہب کو تشویش ہوتی ہے کہ ان کی صفوں میں کوئی بدعقیدہ فرد جگہ نہ بنا لے۔ دونوں نے وفاداری اور صحت عقائد کی جانچ پرکھ کے لیے کچھ پیمانے وضع کر رکھے تھے جو اکثر و بیشتر کافی ظالمانہ تھے۔

معلومہ تاریخ میں صحت عقائد کا مسئلہ مسیحی یورپ میں پید ا ہوا۔ جب مسیحی فوجوں نے سپین میں مسلمانوں کے اقتدار کی آخری نشانی غرناطہ پر قبضہ کر لیا تو مسلمانوں اور یہودیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ یا تو مسیحی مذہب قبول کرکے بپتسمہ لے لیں یا ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ بہت سے ملک چھوڑ کر چلے گئے، جو باقی رہ گئے انھوں نے مذہب تبدیل کر لیا۔ لیکن اس کےباوجود اہل کلیسا کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ لوگ صدق دل سے مسیحی ہوئے ہیں، اس لیے انھیں مختلف امتحانات سے گزارا جاتا تھا۔

ابھی اس واقعہ کو لگ بھگ پچیس برس ہی گزرے تھے کہ مسیحی دنیا کو ایک اور عظیم انتشار کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمنی کے ایک پادری مارٹن لوتھر نے ۱۵۱۷ میں پاپائے روم کی آسمانی اتھارٹی کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ بڑی تعداد میں اس گمراہی کا شکار ہونے لگے۔ اب لازم ہو گیا تھا کہ لوگوں کے عقائد کی جانچ پڑتال زیادہ سختی سے کی جائے تاکہ ان میں بدعت اور گمرہی کا کوئی شائبہ باقی نہ رہے۔ اس کے نتیجے میں یورپ میں احتساب عقائد کی عدالتیں قائم ہونا شروع ہوئیں۔ اگر کسی پر شبہ ہو جاتا، یا بدعقیدگی کا الزام عائد ہو جاتا تو اس کی تفتیش بہت سختی سے کی جاتی تھی۔ اس کے غیر تسلی بخش جوابات کے نتیجے میں اسے از رہ ہمدردی زندہ جلا دیا جاتا تھا تاکہ اس ادنی سی تکلیف کے بدلے اس کی روح جہنم کی ابدی آگ سے بچ جائے۔

انھی مذہبی جنگوں کے زمانے کا ایک واقعہ ہے جو کافی سبق آموز ہے۔ فرانس کے بادشاہ نےایک ایسے شہر پر حملہ کیا جس کی زیادہ تر آبادی مارٹن لوتھر کے ماننے والوں پر مشتمل تھی۔ جب شہر کی فتح قریب آن پہنچی اور فوجیں شہر میں داخل ہونے والی تھیں، بادشاہ نے محتسب عقاید کو طلب کرکے پوچھا کہ شہری آبادی کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ محتسب صاحب نہ صرف بہت زیادہ خدا ترس واقع ہوئے تھے بلکہ وقت کی قدر و قیمت سے بھی کماحقہ آگاہ تھےاس لیے اسے گوارا نہیں تھا کہ بدعقیدہ  اور صحیح عقیدہ لوگوں کو علیحدہ علیحدہ کرنے میں وقت ضائع کیا جائے۔ چنانچہ اس نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ سب لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دو، خدا اپنے پیاروں کو خود ہی چھانٹ کر علیحدہ کر لے گا۔

یہ مسیحی لوگ تو بہت ظالم تھے لیکن ہم بہت رحمدل لوگ ہیں جو اقلیتوں کے ساتھ عادلانہ سلوک کی شہرت رکھتے ہیں۔  تاہم پاکستان کی ملت اسلامیہ کو ایک پیچیدہ مسئلے کا سامنا ہے۔ آخر قادیانیوں کا الگ تشخص کسی طرح قائم کیا جائے؟ عظیم جمہوری رہنما، قائد عوام، جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید نے آئین پاکستان میں ترمیم کرکے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا اور اپنی دانست میں نوے سالہ پرانا مسئلہ حل کر دیا۔ اس میں انھیں قائد اہل سنت، حضرت مولانا شاہ احمد نورانی اور قائد اہل دیوبند حضرت مولانا مفتی محمود کی مکمل تائید حاصل تھی۔  اس کے باوجود حیرت ہوتی ہے کہ ان عظیم مذہبی رہنماؤں نے قادیانیوں کے نام الگ ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کا مطالبہ کیوں نہ کیا۔ یہ سعادت امیر المومنین حضرت ضیاالحق کے نصیب میں لکھی تھی۔ انھوں نے نہ صرف جداگانہ انتخاب کروائے بلکہ قادیانیوں پر یہ پابندی بھی لگائی کہ وہ شعائر اسلام کو اختیار نہیں کر سکتے۔ وہ اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے، نماز اور جمعہ ادا نہیں کر سکتےاور کلمہ نہیں پڑھ سکتے۔

ان تمام پابندیوں کے بعد بھی شکوک و شبہات کی فضا قائم رہی۔ طبلے والی سرکار نے کچھ مزید پابندیوں کا اضافہ کیا لیکن اہل ایمان ہیں کہ ان کی تشفی نہیں ہو پاتی۔ قادیانیوں کے سر پر سینگ تو ہوتے نہیں جو عام مسلمانوں سے انھیں علیحدہ شناخت کر لیا جائے۔ یہ خطرہ ہمیشہ رہتا ہے کہ وہ بطور مسلمان اپنا نام انتخابی فہرستوں میں درج کروا سکتے ہیں۔ اس کے ازالے کے لیے الیکشن کے ضوابط میں یہ تبدیلی کی گئی ہے کہ اگر کسی شخص پر قادیانی ہونے کا الزام عائد کیا جائے تو اسے حلف اٹھانے کو کہا جائے گا۔ اور اگر وہ حلف نہ اٹھائے تو اسے غیر مسلم شمار کیا جائے گا۔

اندیشہ ہے کہ  محض حلف سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا کیونکہ ہمارے معاشرے میں لوگ بہت آسانی سے جھوٹا حلف لے لیتے ہیں۔ میری رائے میں اس تمام تر قانون سازی میں ایک خلا ہے جس کو جب تک پر نہیں کیا جائے گا اس خطرے کا کماحقہ ازالہ نہیں ہو سکے گا۔

اس مسئلے کے حل کے لیے میرے ذہن میں چند تجاویز ہیں جن کو رو بہ عمل لاکر اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جا سکتا ہے۔

1۔ آئین پاکستان میں ایک نئی دفعہ کا اضافہ  کرکے قادیانیوں کے ختنہ کرانے پر پابندی عائد کی جائے۔

شعائر اسلام میں ختنہ کی جو اہمیت ہے اس سے ہر مسلمان بخوبی آگاہ ہے۔ کلمہ پڑھ کر ایک فرد اسلام میں داخل ہوتا ہے اور فوراً ختنہ کروا کر اس پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ جب تقسیم ہند میں فسادات ہوئے تھے تو مسلم اور غیر مسلم کی پہچان اسی نشانی سے کی جاتی تھی۔ واضح رہے کہ امیر المومنین حضرت ضیاالحق نے قائد عوام کی پھانسی کے بعد ان کی مسلمانی چیک کرنے کے لیے یہی طریقہ استعمال کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس ملک میں بسنے والی اقلیتوں میں ہندو، مسیحی اور سکھ تو پہلے ہی ختنہ نہیں کراتے۔

2۔ حفاظت ختنہ کے لیے ایک وزارت قائم کی جائے جس پر مذہبی علم رکھنے والے شخص کو وزیر مقرر کیا جائے۔ اس وزارت کے ماتحت ایک ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جائے، جس کے تحت ہر یونین کونسل اور گاؤں میں ختنہ انسپکٹر کی اسامی پیدا کی جائے اور ان اسامیوں پر مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کو فائز کیا جائے۔

3۔ ملک میں ختنہ کرنے والے ڈاکٹروں اور جراحوں کی رجسٹریشن کی جائے۔ کسی انسپکٹر کے سرٹیفکیٹ کے  بغیر کسی کا ختنہ نہ کیا جائے۔

4۔ اگر کوئی سرجن یا نائی کسی قادیانی کا ختنہ کرنے کے  فعل حرام کا مرتکب پایا جائے تو اس پر توہین مذہب کا مقدمہ قائم کیا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔

ان چند اقدامات سے امید ہے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا۔ اگر کسی شخص پر کوئی یہ الزام عائد کرے کہ یہ قادیانی ہے تو اس سادہ اور بےضرر علامت سے فوراً چیک کیا جا سکتا ہے کہ یہ مسلمان ہے یا نہیں۔ نہ ہمیں مسیحیوں کے مانند کسی کو آگ میں جلانا پڑے گا، نہ اسے خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور کرنا ہو گا۔ اگر کوئی شخص شناخت کرانے سے انکار کرے تو اسے غیر مسلم تصور کیا جائے۔ ایک اشکال البتہ  یہ ہو سکتا ہے کہ جو قادیانی ختنہ کروا چکے ہیں ان کا کیا کیا جائے۔ اس کے لیے ڈاکٹروں پر مشتمل ایک طبی بورڈ بنایا جائے جو یہ جائزہ لے کہ پلاسٹک سرجری کے ذریعے کس طرح ان کو دوبارہ غیر مختون بنایا جا سکتا ہے۔ جدید طب اتنی ترقی کر چکی ہے کہ یہ زیادہ مشکل کام نہیں ہو گا۔ آئندہ انتخابات کے انعقاد سے پہلے اس طرح یہ مسئلہ حتمی طور پر حل ہو جائے گا، بصورت دیگر اتنی دیر تک انتخابات کو ملتوی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہو گا۔ انتخابات کو بہر حال ایمان پر ترجیح حاصل نہیں۔

پہلی تاریخ اشاعت: Nov 27, 2017


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).