سوری۔۔۔ مشٹیک ہو گیا


“چھری پیٹ چاک کرتی ہوئی ناف کے نیچے تک چلی گئی۔ آزار بند کٹ گیا۔چھری مارنے والے کے منہ سے دفعتہً کلمۂ تاسف نکلا۔ ’’چ چ چ چ۔۔۔ مِشٹیک ہو گیا”

کچھ یاد آیا۔ منٹو کے سیاہ حاشیے اب پھر لگ رہے ہیں۔ پر رنگ پہلے سے کہیں چوکھا ہے اور مشٹیک پر مشٹیک کے بعد بھی تاسف کا کوئی رنگ نہیں ہے۔

تلوار ، بھالے اور بلم لیے بلوائی جب تقسیم کی مانگ میں خون بھرنے باہر نکلتے تو شلواریں اتار کر فیصلہ کرتے کہ گھیرے میں آئے ہوے شکار کے ٹکڑے کرنے ہیں یا اسے امان بخشنی ہے۔ ہر جتھہ اپنی جگہ تفتیشی افسر، مجسٹریٹ اور جلاد تھا۔ فیصلے بروقت تھے اور عمل تیز تر تھا۔ زمین پر ایک لکیر کھینچنے کی ایسی قیمت فلک نے کبھی لگتے نہ دیکھی تھی۔ امرتا پریتم اپنی فریاد لیے وارث شاہ کے دربار جا پہنچی

اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول

تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پَھول

اک روئی سی دھی پنجاب دی، تُوں لکھ لکھ مارے بین

اج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن

اُٹھ درد منداں دیا دردیا، اُٹھ ویکھ اپنا پنجاب

اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب

پر وارث شاہ سوتا تھا اور کرشن چندر اور منٹو کے بین سننے کی کسی کو فرصت نہیں تھی۔ وقت گزر گیا کہ وقت ہمیشہ گزر ہی جاتا ہے چاہے ایسے گزرے جیسے شہر مدفون پر گزرتا ہو۔ لاشوں کے اوپر نئی عمارتوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ زمین خون پی کر پودے اگل دیتی ہے۔ نئی نسلیں نیا آموختہ پڑھ کر بڑی ہو جاتی ہیں۔ اور سب سیاہ حاشیوں پر سنہرا پانی چڑھا دیا جاتا ہے۔

بنیاد میں نفرت گھلی تھی۔ انسان کو انسان سے الگ دیکھنا مقصود تھا وہ عقیدے کے نام پر پر ہو یا زبان کے حوالے سے۔ 24 سال گزرے کہ پھر دھوتیوں کے اندر جھانکنے کی ضرورت پڑ گئی۔ س اور ش کے تلفظ پر تلوار کے زاویے سیدھے کیے گئے۔ پنجابی پونزابی ہو گیا اور بنگالی، سالا بنگالی۔ پہلے جہلم، راوی اور چناب کے بیلے تھے اب پدما، جمونا اور میگھنا کے کنارے تھے۔ خون کا رنگ ویسا ہی سرخ تھا اور زمین میں کھینچی گئی لکیر اب بھی اتنی ہی گہری تھی۔ نفرت کے بیج سے ایک اور کیکٹس پھوٹتا تھا۔

اس بیچ ایک اور کہانی لکھی جا رہی تھی۔ اب عقیدہ در عقیدہ ایک اور دفتر کھل رہا تھا۔ 1953 میں لاہور کی سڑکوں پر لہو رنگ اتمام حجت ہوئی۔ 1974 میں اس حجت پر پارلیمان نے ٹھپہ ثبت کر دیا۔ اس سے تسلی نہ ہوئی تو ایک کے بعد ایک اور تحریک بپا کی گئی۔ غالبا ان کا مقصد یہ تھا کہ اب روز حشر منعقد کر کے ایک ہی دفعہ دوزخ کے دروازے کھول دیے جائیں اور اس وقت ہی بند کیے جائیں جب آخری راندہ درگاہ کا وجود بھی پار نہ اتر جائے۔ اس کے علاوہ تو اور کوئی منطق ہمیں سمجھ نہیں آئی۔ عقیدوں کی تقسیم کی کہانی کے ابھی بہت اور باب بھی لکھے جانے تھے۔ حجرہ ہفت بلا کھولنے کے بعد پتہ لگا کہ عفریت تو لشکر کی صورت میں ہے اور ہر عفریت کے نو سر ہیں۔ لڑنے والے کسی ہرکولیس کو کبھی عوام سے لولاس نہیں مل سکا تو جب کبھی ایک سر کہیں کٹ بھی گیا اس کی جگہ دو اگ آئے۔ ایک قدم آگے رکھا تو ہر بار دو قدم پیچھے پھسل گئے۔ ملک سے آسیب کا سایہ کبھی بھی پاک نہ ہو سکا۔ ہر عقیدے نے دوسرے عقیدے کے خلاف عدالت سجا لی۔ ان عدالتوں کی تعزیر کی کتاب بڑی مختصر نکلی کہ اس میں ہر الزام کی صرف ایک سزا درج پائی گئی۔ ” سر تن سے جدا” ۔

سر محضر کہیں کوئی مہر نہیں ہے۔ دیکھنے میں سب ایک سے لگتے ہیں۔ ایک سے اطوار، ایک سی بولی، ایک سا چلن۔ پہلے شلوار اور دھوتی اتارنے کا حکم ملتا تھا اب کرتا اتار کر کمر پر عزا داری کے نشان دیکھے جاتے ہیں۔ شناختی کارڈ پر نام کے تجزیے کیے جاتے ہیں۔ پراس سے بھی عجب یہ ہے کہ کرتا اتارنے اور اتروانے والے دونوں کبھی ایک صف میں بھی نظر آ جاتے ہیں۔ اب غنیم وہ ٹھہرتا ہے جس کی کمر پر نشان بھی نہیں ہے اور نام میں بھی تخصیص کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اس سے مقابلے سے پہلے صفیں سیدھی کر کے اپنے اپنے حاضر اور غائب پیشوا، قطب اور ابدال اور ظہور ہونے والی امامت کے سارے دفتر چھپا دیے جاتے ہیں کہ کہیں اپنی ہی صفیں ان کے بوجھ سے الٹ نہ جائیں۔ پھر نعرے بلند ہوتے ہیں۔ اقرار اور انکار کے الزام کے تیر چلتے ہیں۔ ہر لحظہ عزت، آبرو اور ناموس کے نادیدہ مینارے مزید لرزہ براندام ہوئے جاتے ہیں اور محافظان صور ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ اسے پھونک ہی ڈالیں۔

یہ تماشہ لگتا ہے اور بار بار لگتا ہے۔ ہم جیسے کور چشم سمجھ نہیں پاتے کہ عظیم تر مقصد ہے کیا۔ یار من عاصم بخشی نے اپنے صاحبزادے کی بات بتائی کہ اس کے استفسار پر بتایا کہ مقدمہ یہ ہے کہ ایک گروہ پر الزام ہے کہ وہ عقیدے کے ایک جزو کی عمومی تعریف کو نہیں مانتا۔ صاحبزادے ابھی چھوٹے ہیں، ذہن کشادہ ہے اور گرد پھیلی آلودگی نے ابھی انہیں لپیٹ میں نہیں لیا تو وہ جواب جو ہم نہ دیکھ پائے انہوں نے پا لیا۔ کہنے لگے کوئی نہیں مانتا تو نہ مانے، اس میں جھگڑنے کی کیا بات ہے۔ جواب آسان تو ہے پر مسئلہ یہ ہے کہ رزم میں ڈٹے لوگوں کی اکثریت کو تو سوال کا بھی ٹھیک سے نہیں پتہ تو جواب کیا سمجھیں گے اور شطرنج کی بساط پر مہرے چلانے والے سارے جوابات سے آگاہ ہیں پر ان کی اپنی گدی تب تک ہی سلامت ہے جب تک پیادوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہے اور کانوں میں سیسہ پڑا رہے۔ سامنے کا جواب بھی کوئی دیکھے تو کیسے دیکھے۔ سنے تو کیسے سنے۔

پیر افضل قادری نے خادم رضوی کے درجے بلند کرتے کرتے آسمان مین ایسی تھگلی لگائی کہ ہم میں سے کوئی یہ جسارت کرتا تو معافی مانگنے کے بعد بھی سر گنواتا پر ارباب مذہب کا کرشمہ یہ ہے کہ جس الزام پر عام شخص سولی چڑھتا ہے وہ اس پر اور معتبر ٹھہرتے ہیں کہ دلیل کا منبر بھی ان کا ہے اور تشریح کے مائیکروفون پر بھی انہی کا قبضہ ہے۔ پر اسے چھوڑیے کہ سچ تو یہی ہے کہ زمین پر خدائی فوجدار ہی تو اترے ہیں۔ عقیدے کا کاپی رائٹ ان کی ٹکسال میں ڈھلتا ہے۔ لفظ بھی ان کی جاگیر ہیں اور اصطلاحات بھی۔ عبادت کا طریق بھی یہ ایجاد کرتے ہیں اور سلام کا طریق بھی۔ یہ فیصلہ بھی ان کا ہے کہ کس کو کس نام سے بلایا جا سکتا ہے اور کون سا نام کس پر حرام ہے۔ یہ اختیار ان کا اپنا بنایا ہوا ہے۔ انہیں وقت کے خدا جانیے تو پھر اسے خداداد سمجھیے۔

اب یہ ایک “گھیٹو” بنانے کے متمنی ہیں۔ ایک انسانی باڑہ بنا دیا جائے۔ لوگوں کے گلے میں ان کی دی گئی پہچان کے طوق لٹکا دیے جائیں اور ہر ایک کو ایک سند عطا ہو کہ اس کی رو سے ہر حق انسانی اس پر حرام ٹھہرے۔ باڑے کے مکینوں کی اہلیت ایک ہی ہو اور وہ یہ کہ جہاں باقی سب انسان ہیں تو یہ ذرا کچھ کم انسان ہیں اور اس واسطے ان کے گلے میں طوق ہے اور ہاتھوں میں حلف نامے۔ ان کا فردا ہم نے لکھنا ہے اور اس فردا میں صرف سیاہ حاشیے ہیں۔ کوئی سنہرا لفظ نہیں ہے۔

اب ناکے لگنے والے ہیں۔ سولیاں گڑنے والی ہیں ۔ تحریک کے مجسٹریٹ اب ہر ناکے پر ایمان کے سرٹیفیکیٹ چیک کیا کریں گے۔ وزیر باتدبیر اب خداوندان ارض کی درگاہوں میں تجدید ایمان کریں گے۔ اب میزان ایستادہ کر دیے گئے ہیں۔ جس کا تول پورا نہ پڑا، سولی اس کی منتظر ہے پر کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ ترازو کے پلڑوں کا اپنا وزن برابر ہے بھی کہ نہیں۔ ہم تباہی کے پیغامبروں کی اقتدا میں کھڑے ہیں اور فخریہ کھڑے ہیں۔ دیوار پر کیا لکھا ہے۔ پڑھنے والے پڑھ سکتے ہیں پر وہ تھوڑے ہیں اور خوف نے ہونٹوں پر تالے ڈالے ہوئے ہیں۔ پر یاد رہے کہ تاریخ بے رحم ہے۔ اس کے صفحات پر ہمارے نوحے لکھے جانے کو ہیں۔ یقین رکھیے کہ کچھ صدیوں بعد اس دور کا بوجھ اٹھائی نسلوں کے پاس سوائے اس کے کچھ کہنے کو نہ ہو گا۔ “سوری۔ مشٹیک ہو گیا”

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad