میں مَردوں کو نوٹس نہیں کرتی


مرد کوئی کسی اور مریخ پر رہنے والی مخلوق نہیں، یہ ہمارے گھر کے افراد ہیں۔ ان میں سے کچھ کے کسی عمل سے اور کچھ کے کسی عمل سے ہمیں اعتراض ہو سکتا ہے لیکن فطرت نے صنف نازک کے لیے ان کے جو احساسات اور جذ بات رکھے ہیں وہ ظاہر ہے کہ خواتین سے زیا دہ ہیں مرد فطری طور پر عورت پرست ہے۔ اس با ت کو اسی طرح خوش دلی سے قبل کر لینا چاہیے جس طرح ہم اپنے گھر کے مردوں کی بہت سی باتوں کو برداشت کرنے کی عادت ڈال لیتے ہیں۔ مضمون میں عورت کے ٹھرکی پنے کا بھی سرسری ذکر کیا گیا ہے لیکن فوکس مرد ہی ہیں۔ یہ مردوں کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے اس مضمون پر بہت زیادہ واویلا نہیں کیا۔ ظاہر ہے مضمون میں جو کچھ بھی کہا گیا، ذاتی مشاہدے کی بنیا د پر کہا گیا ورنہ یہ تشخیص اور تحقیق سراسر غلط قرار پاتی۔ عورت کی طرف میلان رکھنا ایک خوب صورت مردانہ فطرت ہے سوچو جو اگر کائنات کے سارے مرد عورت سے بے زاری کا تا ثر دیں، تو ہمارے لیے زندگی کس قدر بے معنی ہو جائے گی، جو ہے جیسا ہے کی بنیا د پر قبول کریں۔ ٹھرکی کہہ کر فطرت کی جانب سے ملنے والی اس نعمت کو معتوب مت کریں جو ہما رے لیے بھی ایک خوش گوار احساس ہے۔ میری ایک بے تکلف دوست نے اپنے میاں کے بارے میں ریمارکس دیے کہ وہ لڑکیوں کو دیکھتے ہیں، میں نے جواب دیا اس وقت سے ڈرو جب وہ لڑکیوں کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں۔

انسان کا احترام لازم ہے، مرد کے لیے عورت کا اور عورت کے لیے مرد کا۔ خواتین مردوں سے عورت کے احترام کی توقع رکھتی ہیں اور خود کو ہر قسم کی پابندی سے مبرا سمجھتی ہیں۔ بے شک عورت اور مرد دونوں یکساں طور پر معتبر ہیں، لیکن یہ حقیقت ماننے میں کیا حرج ہے کہ مرد عورت سے زیادہ بہادر اور مضبوط اعصاب کا مالک ہے۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ اگر بچہ ڈوب رہا ہو تو عورت کنارے پر کھڑی ہو کر صرف شور مچاتی ہے اور مرد تیراک نہ ہو نے کے باوجود اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہو ئے چھلانگ لگا دیتا ہے۔ ہمارے ہاں باشعور مرد عورت کے حق میں آواز بلند کرتے رہتے ہیں لیکن ہم خواتین کا عورت پن ختم ہو نے ہی میں نہیں آتا۔ جس طرح کسی مرد کو عورت کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اسی طرح کسی خاتون کو بھی حق نہیں کہ وہ محض مفروضے کی بنیا د پر ان کے مرتبے کو زک پہنچائیں۔ مجھے اس مضمون سے تکلیف پہنچی کیوں کہ شاید میرے مشاہدے میں بڑے باوقار مرد آئے۔ یا پھر میں نے اتنے غور سے کسی کو جج نہیں کیا۔

ٹھیک ہے کہ عورت اپنے بچوں کے لیے رات دن جاگتی ہے، مصیبت اٹھاتی ہے لیکن ایک باپ بھی ذلتیں اور مصائب برداشت کرتا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ اس کے سمندر سینے میں سب کچھ ڈوب جا تا ہے، باہر سے وہ ایک دم پرسکون نظر آتا ہے، اور یہ سکون اس کے دل کو لے ڈوبتا ہے۔ جیلوں، پاگل خانوں، ہسپتالوں، آفس، فیکٹریوں، سڑکوں، پردیس میں، کھمبوں پر، خلاؤں میں، ہواؤں میں، سمندر کی خوف ناک موجوں میں، ریڑھی لگا کر آواز لگاتے، پہرہ دیتے ہوئے، سامان ڈھوتے ہوئے، کانوں میں، گٹروں میں، سخت دھوپ میں، ٹھنڈ میں، اور سرد خانوں میں نوّے فی صد مرد ہیں۔ حادثات میں مرنے والوں میں مردوں کی تعدادعورتوں کی نسبت زیادہ ہے پھر بھی ہم کسی نہ کسی حوالے سے مردوں کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ عورت، مرد کی تخصیص سے جدا دونوں انسان ہیں اور دونوں پر فرض ہے کہ ایک دوسرے کے مرتبے کو سمجھیں اور چھوٹی موٹی غلطیوں اور فطری تقاضوں کے چند بے ضرر عیوب جو اوئی اللہ ٹائپ عورت کی نظر میں ٹھرک پن کے زمرے میں آتے ہیں انہیں در گزر کریں۔ جو اگر آپ ان کے کرب محسوس کریں تو ان کی گستاخیوں کو یہ سوچ کر معاف کر دیا کریں کہ لمحہ بھر کی آنکھوں کی ٹھنڈک یا کسی امید پر پل بھر کی خوشی نے ان کی تھکان بھلا دی ہے تو آپ کا کیا جاتا ہے۔

پچھلے دنوں مردوں کے ٹھر کی پن کے حوالے سے ایک تحریر پڑی جس میں اپنے مشاہدے کے ذریعے مردوں کی مختلف قسم کی ٹھرک کو واضح کیا گیا تھا، تحریر کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ مردوں کی ہر قسم عورت کے بارے میں ایک ہی انداز سے سوچتی ہے، اس تحریر میں مردوں کی عورت کی طرف فطری جھکاؤ اور جنسِ مخالف کی طرف فطری کشش کو ٹھرک سے تعبیر کیا گیا ہے، حتیٰ کہ انہوں نے ان بے ضرر مردوں کو بھی نہیں بخشا جن کی سنگت عورت کو اپنی سہیلی کی مانند محسوس ہوتی ہے اور وہ بڑے سکون سے ہر بات کر سکتی ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتی کہ مردوں کو حاکم تصور کر لیں، لیکن جس طرح ایک پڑھا لکھا با شعور مرد، عورت کی حیثیت اور اہمیت کو سمجھتا ہے اور اسے معاشرے میں احترام دینے کے لیے آواز بلند کرتا ہے، ہمیں بھی مرد کی عظمت، اس کی فطرت اور اہمیت کو سمجھ کر اسے بھی احترام اور عزت دینا ہو گی، اور اس کی کچھ کوتاہیوں کو در گزر کرنا ہو گا۔

یہ دنیا ہما را خاندان ہے اور اس میں رہنے والے ہمارے گھر کے افراد کی طرح مختلف عادات و مزاج رکھتے ہیں، ہم انہیں بھی اپنے خاندان کے افراد کی طرح سمجھیں ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر سر زنش اور ان کے پختہ مزاج اور عادات کو قبول کر نے میں کوئی حرج نہیں، جس طرح کسی ظالم اور بے وفا عورت کی مثال ہر عورت پر صادق نہیں آتی اسی طرح ہر مرد آپ کی عزت کے درپے نہیں ہو تا، عزت کوئی سر پر رکھا ہوا تاج نہیں جسے کوئی اچک کر لے جائے، یہاں ہم شہری ماحول کے عام پڑھے لکھے مرد اور عورت کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

معاشرے میں عزت اور نام کمانے والی خواتین کو عورتوں کی نسبت مردوں سے زیادہ عزت ملی۔ مردوں سے ہی انہیں سیکھنے کو ملا۔ مردوں سے ہی اعتماد حاصل ہوا، مردوں سے ہی سیکھا کہ کسی کی مدد کر کے بھول جا نا چاہیے۔ مردوں سے ہی عاجزی سیکھی، مردوں کی وجہ سے ہی اپنی ذات کو اپنی وجہ سے دوسروں کی نظر میں اہم بنانے کا گر آتا ہے۔ یہ خواتین مردوں کی سنگت میں خوش رہتی ہیں، عورتوں میں ان کا سانس گھٹتا ہے۔ کیوں کہ ان کی باتیں کپڑوں جوتوں نئے فیشن سے شروع ہو کر جلد کو جاذبِ نظر بنانے کی کریموں اور ٹوٹکوں پر ختم ہو جا تی ہیں۔ ہاں مگر وہ خواتین جنہیں مطالعے کی عادت ہے ذرا مختلف ہو تی ہیں۔

عورتوں کو امیر ہونے سے زیادہ امیر نظر آنے کا شوق ہوتا ہے۔ وہ اپنے باپ بھائی کے عہدے یا اختیار کا حوالہ دے کر اپنی عزت کروانے کی خواہش مند ہوتی ہیں، ہر کام اپنے حالت اور حیثیت دیکھ کر نہیں بلکہ دوسروں کی نظر میں اپنی عزت بڑھانے کے لیے کرتی ہیں۔

مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے کشش ہی انہیں با ضابطہ طور پر مرد یا عورت ڈکلیر کرتی ہے، اور ہماری بعض شرمیلی خواتین کی حالت اس وقت دیدنی ہو تی ہے جب وہ مرد سے بات کر رہی ہوتی ہیں۔ اور ایسی ہی خواتین کو مرد ٹھرکی نظر آتے ہیں۔ میں اپنے بھائی کے لیے لڑکی تلاش کر رہی تھی، ایک لڑکی مجھے پسند آئی ہم رشتہ لے کر گئے۔ بھائی ساتھ تھا۔ میں نے یوں ہی پوچھ لیا تمہیں کون سی فی میل ایکٹرز پسند ہے، جواب ملا صبا پرویز، اور میل ایکٹرز؟ میں نے پوچھا۔ میں مردوں کو نوٹس نہیں کرتی اس نے آنچل کا پلو موڑتے ہوئے کہا۔

مردوں کا احترام کیجیے، ان کی فطری بے ضرر گھوریوں کو نظر انداز کیجیے، آخر وہ بھی تو آپ کی بار بار ان کی طرف اٹھنے والی نظروں کو نظر انداز کر رہے ہیں، یہ گھوریوں کا سلسلہ اجنبیت ختم ہونے پر ختم ہو جا تا ہے۔ ہم یہاں مردوں کی گھٹیا حرکتوں کو سپورٹ نہیں کر رہے بلکہ مردوں کی ٹھرک کی اقسام اور ان کی شدّت کی تحقیق کرنے والی قابلِ احترام دوست کی توجہ مرد کے مرتبے اور اہمیت کی جانب دلانا مقصود ہے۔ سارے مردوں کو ایک لائن میں کھڑا کرنے پر ہماری یہ ایک احتجاجی تحریر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).