کیا عمران خان خیبر پختونخوا میں انتخاب جیت پائیں گے؟


پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خیال میں ان کی پارٹی آئندہ عام انتخابات میں صوبہ خیبر پختونخوا میں کلین سویپ کرے گی۔ وہ سمجھتے ہیں صوبائی حکومت کی “بہترین” کارکردگی کی وجہ سےکوئی بھی پارٹی یا پارٹیوں کا اتحاد پی ٹی آئی کا یہاں مقابلہ نہیں کر سکے گا۔

مگر کیا پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں واقعی دوبارہ حکومت بنا پائے گی؟

خیبر پختونخوا کے رائے دہندگان کےبارے میں پیش گوئی آسان نہیں۔ یہ پاکستان کا واحد ووٹر ہے جو آزادی سے اپنے رائے کا استعمال کرتا ہے, اکثر ہر بار نئے لوگوں کو موقع دیتا ہے اورحکمران جماعت کو مسلسل پھر موقع دینے کے لیے شہرت نہیں رکھتا۔

خیبر پختونخوا کے ووٹر نے 2002 میں ایم ایم اے کو بھاری مینڈیٹ سے نوازا۔ بڑے بڑے سیاستدانوں کے مقابلے میں ایسے نووارد غریب مولویوں اور نوجوانوں کو پہلی بار اسمبلیوں میں بھیجا جن کے پاس اپنی سائیکل بھی نہیں تھی لیکن وہاں ایک نئی ملا اشرافیہ سامنے آئی تو 2008 میں مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کو اس نے بری طرح شکست دی اور ان کی نظریاتی مخالف اور سخت ناقد عوامی نیشنل پارٹی کو اکثریت دلوائی۔ اپنی روایت کے مطابق 2013 میں اس نے اے این پی کو بری طرح نظر انداز کرکے پی ٹی آئی کے نوجوان اور عام سے امیدواروں کو تبدیلی کے نام پر بڑی تعداد میں کامیاب کیا۔

خیبر پختونخوا کے ووٹر کی خصلت اور تاریخ کو دیکھیں تو پی ٹی آئی کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں تاہم تحریک انصاف کے ٹائیگرز کہتے ہیں اس بار سابقہ حکمران جماعت کو بد ترین شکست کی مقامی روایت پی ٹی آئی کے لیے توڑ دی جائے گی۔  پی ٹی آئی نے تعلیم اور صحت میں اچھا کام کیا ہے اور اسے اس کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ اس نے سکولوں میں تعمیر و مرمت اور سامان کی فراہمی میں قابل تعریف کام کیا ہے جبکہ صحت میں بھی صحت انصاف کارڈ کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو براہ راست فائدہ پہنچایا ہے۔ حال ہی میں ہزاروں کنٹریکٹ اساتذہ کو مستقل کرنے کا فیصلہ کرکے اس نے اساتذہ کو خوش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان سب کا اسے فائدہ پہنچے گا۔

تاہم پی ٹی آئی کے منشور اور وعدوں کومدنظر رکھتے ہوۓ اس کی حکومتی کارکرگی مثالی قرار نہیں دی جا سکتی۔ پی ٹی آئی نے دو سال سے زیادہ تو دھرنے اور جلسے جلوسوں میں ضائع کیے۔ خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی ان ابتدائی دو سالوں میں بہت فر وتر رہی۔ پی ٹی آئی نے نوے دن میں تبدیلی لانے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ عرصہ طویل سے طویل تر ہوتا گیا۔ وہ تین چار سال صوبے میں سڑکوں پلوں موٹرویز اور ماس بس سسٹم وغیرہ کو نظرانداز کرتے رہے (کیوں کہ یہ ان کے مسلم لیگ ن حکومت کی ترجیحات میں شامل تھے) جبکہ اب آخری سال کئ منصوبے شروع کر دئیے ہیں۔ انہوں نے لاکھوں اساتذہ کو ایک تعلیمی ایکٹ کے بے ہنگم طریقے سے سامنے لانے کے ذریعے ناراض کر لیا تاہم اس فیصلے کو بعد میں واپس لیا گیا۔ انہوں نے پولیس کو سیاسی دباٶ سے آزاد کرنے کی بات کی مگر ڈیرہ اسمٰعیل خان میں لڑکی کو ننگا گھمانے والےطاقتور افراد کے خلاف کئی روز تک قانون حرکت میں نہ آ سکا بلکہ الٹا مظلوم خاندان کے خلاف جھوٹے رپورٹ درج کیے گئے جبکہ عمران صاحب کئ دنوں تک اس ظلم پر خاموش رہے۔ صوبے میں احتساب کا نظام متعارف کیا گیا لیکن پھر معطل کر دیا گیا۔ انہوں نے مخالفین اور سابقہ حکومتوں پر کرپشن کے الزامات لگائے لیکن ان میں سے کسی کا احتساب نہ کیا۔ ان کے ممبران صوبائی و قومی اسمبلی اور وزراء نے ایک دوسرے پر اور وزیر اعلی پر الزامات لگائے۔ کسی کا احتساب تو نہ ہوا لیکن الٹا پے در پے الزامات لگانے والوں کو ہی پارٹی سے نکالا گیا۔ انہوں نے مولانا سمیع الحق کے مدرسے کو ،جو دنیا بھر میں طالبان کا مرکز گردانا جاتا ہے، کروڑوں کا فنڈ دیا مگر مبصرین کے مطابق دہشت گردی سے شدید متاثر صوبے کے عوام کو اس سے کوئی اچھا پیغام نہیں ملا۔

پی ٹی آئی کی کارکرگی آئندہ انتخابات میں کیا ہو گی اس کاانحصار چند عوامل پر ہے۔

مثلاً یہ کہ کیا عمران خان اکیلے انتخاب لڑیں گے یا کسی بڑی پارٹی کے ساتھ اتحاد کر سکیں گے؟

اگرچہ زیادہ امکان یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی مخالف ساری پارٹیاں اس کے خلاف اتحاد یا باہمی سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیں گی مگر عمران خان اپنی انتخابی کامیابی کے حوالے سے فی الحال اتنے پر اعتماد ہیں کہ ابھی دوسروں سے اتحاد کے لیے انہوں نے کوئی خاص کوشش شروع بھی نہیں کی جبکہ ان کے مخالفین سرگرم عمل ہیں۔

پی ٹی آئی نے جمعیت علماء اسلام سمیع الحق گروپ سے اتحاد کر لیا ہے مگر اس کی کوئی عوامی حمایت نہیں۔ ان سے اتحاد کرکے دراصل وہ مولانا فضل الرحمٰن کو زچ کرنا چاہتے ہیں اور ان کے مقابلے میں دیوبندی مذہبی طبقے کی کچھ حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ دیوبندی مکتبہ فکر کے مدارس کے اساتذہ اور طلباء کی اکثریت مولانا فضل الرحمٰن ہی کے ساتھ ہے۔

انہیں جلد جماعت اسلامی سے اتحاد کی بات کرنی ہوگی اس سے پہلے کہ مولانا فضل الرحمٰن اسے اچک لے اور نہ صرف ایم ایم اے کا حصہ بنا لے بلکہ ساتھ ہی صوبائی حکومت سے بھی استعفٰی دینے پر مجبور کردے۔ موخر الذکر صورت میں آخری سال کے لیے پی ٹی آئی حکومت کے وہ سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے جنہیں تکمیل تک پنچانا پی ٹی آئی کی کامیابی کے لیے لازمی ہے۔

جماعت اسلامی اور تحریک انصاف صوبائی حکومت میں اتحادی ہیں۔ صاف و شفاف جمہوریت، احتساب، طالبان، دہشت گردی اور امریکہ، افغانستان اور ہندوستان وغیرہ پر ان کی آراء میں کوئی فرق نہیں، اس لیے دونوں فطری اتحادی بنتے ہیں۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے اتحاد کا فائدہ عمران خان کو بھی ہوگا۔ لیکن اس سے جماعت اسلامی کو بھی ایم ایم اے کا حصہ ہونے یا اکیلے انتخاب لڑنے کے مقابلے میں شاید زیادہ نشستیں مل سکیں گی۔

سیاست کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں ۔ اس میں صحیح فیصلہ صحیح وقت پر کرنا ضروری ہوتا ہے، سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ برداشت، قربانی اور احترام کا مطاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ انا پرست اور خود پسند بندہ اس میں جلد ہی تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔

پی ٹی آئی ہو یا کوئی دوسری پارٹی، وہ اگر عام لوگوں اور عام پارٹی کارکنان کے مقابلے میں اپنی پارٹی اور حکومت کے سرکردہ افراد کی ہر حالت میں حمایت کو اپنی مستقل عادت بنا لے تو یہ طرزعمل یقیناً ہر جگہ خطرناک سیاسی مضمرات رکھتا ہے تاہم خیبر پختونخوا کا ووٹر تو کمزور کے مقابلے میں کبھی بھی طاقتور کی حمایت کو برداشت نہیں کرتا اور خصوصاً خواتین کے ساتھ کسی قسم کے ناانصافی کے تاثر پر اپنا غصہ انتخابات میں شکست سے دکھا کر ہی رہتا ہے۔

پی ٹی آئی کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس پر بھی ہے کہ آیا حکومت کے آخری برس میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں، وعدے کے مطابق اصلی تبدیلی دکھائی جاتی ہے، بجلی کے زیادہ سے زیادہ چھوٹے منصوبے مکمل کیے جاتے ہیں، احتساب کے نظام کو مکمل طور پر فعال کرکے اپنے پرائے سب کرپٹ افراد کے خلاف ایکشن لیا جاتا ہے، کارکنوں کی رائے کے مطابق پارٹی ٹکٹ جاری کیے جاتے ہیں، عام انتخابات تک اپنی حکومت کو بچا کر اپنی مرضی کی نگران حکومت لائی جاتی ہے، دوسری پارٹیوں سے بقیہ وقت میں اچھے تعلقات کے قیام کی کوشش کی جاتی ہے اور کسی بڑی پارٹی یا پارٹیوں کے گروپ سے اتحاد کے لیے کامیاب مذاکرات کیے جاتے ہیں یا نہیں۔

یہ سارے کام اگر کر لیے جاتے ہیں تو پی ٹی آئی اچھی کارکرگی دکھا سکتی ہے ورنہ اپنی حکومت کے دوران پچھلے بلدیاتی انتخابات میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت سے زیادہ نشستیں اگر جیت لی تھیں تو عام انتخابات میں غیر جانبدار نگران حکومت میں پی ٹی آئی ان سے کیسے جیت پائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).