الطافی راج کی نئی تیاریاں اور اردو وال


صد حیف۔ کہ ایم کیوایم لندن گروپ کے آسیب نے ابھی تک ہم کراچی والوں کا پیچھا نہیں چھوڑا، کسی نہ کسی بہانے اور رنگ برنگے تماشے کے بل پہ وہ یہاں اپنی پرانی پھڑ پھر سے جمانے کے لئے کسی نہ کسی طرح سے موقع کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ اور ابکے یہ غارتگر اس 9 دسمبر کو یوم شہداء منانے اور اپنے مبینہ شہداء کی قبروں پہ فاتحہ پڑھنے کے اعلان اور اس کی اجازت کے مطالبے کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور مزے دار بات یہ ہے کہ یہ اعلان اور مطالبہ جن ’ 3 ایڈیئٹس‘ نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا ہے یعنی قاسم علی، مصطفیٰ عزیز آبادی اور منظور احمد تو وہ تینوں، برسوں سے لندن سیکریٹیریٹ میں پڑے روٹیاں توڑ رہے ہیں اور خود اس فاتحہ خوانی کے لئے یہاں آنے کا مطلق کوئی ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ سیدھی سی اور صاف سی بات یہ ہے کہ وہ خواہ لاکھ کچھ بھی کہیں، ان کا منشاء و مقصد یہاں اپنے کھوئے ہوئے راج سنگھاسن کی بحالی ہے اور اس کے لئے وہ کسی نہ کسی اچانک واردات کے پلان کو جیب میں ڈال کے ہی آگے بڑھے ہیں اور پورا خدشہ ہے کہ اس روز کسی نہ کسی طور، اپنی ہی گرائی ہوئی کسی لاش کو دفاعی اداروں کے سر منڈھنے کی ان کی پرانی نیٹ پریکٹس پھر بروئے عمل لائی جاسکتی ہے۔ یہ سب کچھ میں اس لئے لکھ رہا ہں کیونکہ گزشتہ کئی ماہ سے الطاف حسین پھر اس پاک وطن اور دفاع وطن پہ شدومد سے تبرا بھیجنے میں جت گیا یے اور لگتا یوں کہ اس بار انکل سام نے پوری طرح سے اس کا ہاتھ تھام لیا ہے اور اس کی کراچی پہ جو گندی نظر ایک زمانے سے ہے اب وہ اسے ایک عملی و سیاسی شکل دینے کے لئے اتاؤلا ہو چلا ہے

ایم کیو ایم کے گھناؤنے عزائم کے بارے میں یہ باتیں میں اس شدید ذاتی خطرے کے اس احساس کے باوجود لکھ رہا ہوں کہ میرے ساتھ یہ خونی گروہ کیا کچھ کرسکتا ہے( 5 برس پہلے اغواء تو کر ہی چکا ہے، کیسے بچ کے آیا یہ داستان پھر کبھی سہی۔ ) لیکن ان جنونیوں و خونیوں کے مقابلے کے لئے خطرناک اسلحے کے مقابل میں کل بھی اپنا قلم لئے کھڑا کراچی کا واحد صحافی تھا کہ جو اسی مقتل میں موجود رہ کے ان کے خلاف اپنے قلمی محاذ پہ ڈٹا ہوا تھا اور شدید دہشت راج میں بھی کئی برس سے ان کو کھل کے بے نقاب کر رہا تھا اور آج بھی میں ایک مستحکم پاکستان کے خواب سجائے اپنی اسی پرانی بے خوف روش پہ قائم اور گامزن ہوں کیونکہ میرا اس بات پہ کامل یقین ہے کہ موت اپنے وقت سے نہ پہلے آئے گی اور نہ بعد میں۔ میں اس شہر کی سیاست میں لفظ مہاجر کے استعمال کا ہرگز قائل نہیں لیکن یہ موقف بھی رکھتا ہوں‌ کہ بہرحال جو فرزند زمیں نہیں ہیں اور جن کی مادری زبان اردو ہے تو ان کی شناخت بہرحال ایک مسئلہ ہے کیونکہ یا تو کسی گروہ کی لسانی شناخت نہ ہو ورنہ پھر اس مسئلے کو معروضی حقائق کی روشنی میں حل کیا جائے اور جب تک اس مسئلے کا کوئی عملی حل نہیں نکل آتا تب تک میں اس لسانی گروہ کو مادری زبان کی نسبت سے آج سے ’اردو وال‘ کا نام دیتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شناخت قابل ہضم بھی ہے کیونکہ ہزارا وال قسم کی اصطلاحات کے استعمال کی وجہ سے اسے مسترد کیا جانا قطعی ممکن نہ ہوگا۔

بات ہو رہی تھی الطافیوں کے نئے عزائم کی، تو یہ واضح رہے کہ وہ اب جلد سے جلد ہی کچھ نہ کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں کیونکہ آفاق احمد کے محدود دائرہ عمل کی لاچاری، فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی موقع پرست لیکن بے بصیرت قیادت اور ان کے حالیہ آپسی جھگڑوں نے الطافیوں کی دانست میں کراچی کی سیاست میں ان کی واپسی کی گنجائش پیدا کردی ہے۔ حالانکہ ابھی 5 ماہ قبل ہی 9 جولائی کو محمود آباد سے صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 114 کےضمنی انتخابات نے تو ان کی نیندیں ہی اڑادی تھیں کیونکہ حلقے کے عوام نے الطاف حسین کی بار بار کی بائیکاٹ کی اپیل پہ کان نہ دھرتے ہوئے فاروق ستار والی ایم کیوایم کے امیدوار کامران ٹیسوری کو اٹھارہ ہزار سے زائد ووٹ ڈال دیے تھے اور الطافی دہشت گرد اپنے اس گرو گھنٹال کی اس قدر ذلت آمیز ذلت کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ پہلے کبھی جس کی ایک کال پہ پورے شہر میں سناٹے اور اسلحے کے زناٹے کا راج ہوجاتا تھا۔ جہاں تک بات ہے شہداء قبرستان میں فاتحہ پڑھنے کی تو یہ درحقیقت نہایت مضحکہ خیز بات ہے کیونکہ جس تنظیم کے بزدل و مفرور قائد نے اپنے ہی چیئرمین اور برسوں کے رفیق یعنی عظیم احمد طارق کے جنازے اور تدفین کے لئے وطن آنے کی ہمت تک نہ کی ہو اور نہ ہی لندن میں قتل کیئے گئے اپنے ایک اور اہم ترین ساتھی عمران فاروق کی میت کو پاکستان لاکے تدفین کے عمل کےلئے بھی کراچی پہنچنے کا بکھیڑا نہ پالا ہو تو وہ اور اس کی تنظیم کس منہ سے اس قسم کے مطالبات کرنے کی اہل رہ گئی ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس نام نہاد شہدا قبرستان میں شاید پانچ یا چھ قبریں ہی شریف اور اچھے افراد کی ہیں وگرنہ تو ایسا ایک سے بڑھ کر ایک نامی گرامی دہشتگرد یہاں ‌مدفون ہے کہ جو جب زندہ تھا تو شہر والوں کے لئے وبال تھا اور شہر میں خوف تشدد اور جبر کی علامت تھا

بلاشبہ گزشت برس الطاف حسین کی 22 اگست کی مردہ باد والے نعروں سے لبریز زہریلی تقریرکے بعد سے اب تک تو ہمارے دفاعی ادارے 16 مہینوں سے الطافیوں کی ہر ایسی کوشش کو کسی نہ کسی طور خوش اسلوبی سے ناکام بناتے چلے آرہے ہیں کہ جس کی وجہ سے لندن والوں کا نقارہ یہاں پھر سے بجنے لگے لیکن اس بار بڑی چالاکی سے انہوں نے فاتحہ پڑھنے کے مذہبی حوالے کو اپنے سیاسی عزائم میں گھسیٹ لیا ہے تو ارباب اختیار اور قومی سلامتی کے اداروں کے لئے اس کا پہلا اور آسان حل تو بیشک یہی ہے کہ ان کے اس مطالبے کو معروضی حقائق کی روشنی میں ان کے منہ پہ ہی ماردیا جائے اور صاف منع کردیا جائے لیکن وہ چونکہ یہ کھیل بھی کھیل رہے ہیں کہ یہ سیاسی معاملہ نہیں صرف انسانی حقوق کا معاملہ ہے تو اس کے لئے یہ شرط عائد کردی جائے کہ پہلے الطاف حسین اور ان کے لندن میں موجود وہ ساتھی پاکستان میں مقدمات میں مطلوب ہیں تو وہ خود کو پاکستانی سفارتخانے کے حوالے کریں‌ تاکہ ان کو وطن لاکے اسلام آباد میں مجاز قانونی اداروں کے حوالے کیا جائے اور اس کے دو روز بعد یہ بتا دیا جائے کہ یہ فاتحہ خوانی کس دن کی جاسکتی ہے

لیکن اگر کسی وجہ سے لندن میں چھپے بیٹھے گرو کی حراست کا معاملہ نہ بھی کیا جاسکے تب بھی اس فاتحہ خوانی کے لئے پریس کانفرنس کرنے والے ان 3 ایڈیئٹس سے قربانی ضرور طلب کی جائے اور پھر فاتحہ خوانی کے لئے عملی انتظام کی صورتگری یوں کی جائے کہ اس کے خواہشمند افراد کو مقرر کی گئی تاریخ سے کم ازکم 3 روز قبل رینجرز آفس میں اپنے اصلی قومی شناختی کارڈ کے ساتھ اپنا ایک دستخط شدہ تحریری حلف نامہ بھی ساتھ ہی دینا ہوگا کہ جس میں الطاف حسین کی ملک دشمن سیاست سے مکمل نفرت اور بیزاری اور اس کی اطاعت کو قطعی مسترد کرنے کا واضح اعلان کیا گیا ہو۔ اس کے بعد حلف نامہ بھر کے جمع کرانے والوں کو رینجرز کے پہرے اور نگرانی اور معیت میں میں مذکورہ قبرستان میں 10۔ 10 کی ٹولیوں میں باری باری اندر بھیجا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سارے عمل کے اعلان کے ساتھ ہی نام نہاد انسانی حقوق کا یہ مصنوعی غبارہ خود ہی پھٹ جائے گا اور اس روز۔ یہ دودھ پینے والے مجنوں‌ قبرستان جا کر فاتحہ خوانی کے بجائے سی ویو کے ہوٹلوں ‌پہ بیٹھے پیزہ تکے اور چکن بریانی اڑاتے نظر آئینگے

یہ بات بھی اچھی طرح سے ذہن نشین کرلی جائے کہ الطاف حسین کو اس شہر میں پوری طرح غیرموثر بنانے کی یہ سب عارضی ترکیبیں ہیں اور وقتی حل ہیں اور بہت زیادہ پائیدار نہیں، اگر الطاف کے بھوت کو واقعی اور ہمیشہ کے لئے دفن کرنا مقصود ہے تو پھر اس شہر کو بہت کچھ ایسا دینا ہوگا کہ وہ خود سے شفقت کرنے والوں کے شکرگزار ہو سکیں اور اس کے لئے کرنا یہ ہوگا کہ بے روزگاری کی آگ میں جلتے نوجوانوں کے لئے روزگار کے کثیر مواقع فراہم کرنے ہوں گے اور تعلیم کے قدردانوں کے اس شہر میں مہنگی ہوتی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کو پھر سے عام آدمی کی دسترس میں لانے کے اقدامات کرنے ہوں گے اور سڑکوں و صحت و صفائی کے معاملات کی درستی کے علاوہ پانی کی کمیابی، اور سستی ٹرانسپورٹ کی نایابی کے مسائل کو حل کرنا ہوگا اور اس کے لئے اس شہر کو ایک ایسا شہکار و خطیر گرینڈ پیکیج دلایا جائے کہ جو صوبائی حکومت کے چنگل میں ہرگز نہ ہو

اس قسم کے خصوصی پیکیج پہ ایماندارانہ عمل درآمد کے لئے یہ لازم ہوگا کہ شہر کے نیک نام و دیانت دار لوگوں پہ مشتمل ایک شہری اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی جائے جسے اس کے امور کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی جائے جو کہ دفاعی ادروں کے ساتھ اشتراک عمل اور مشاورت کی بھی پابند ہو۔ یہاں متعلقہ ارباب حل و عقد اچھی طرح سے میری یہ ایک اور بات بھی سمجھ لیں کہ میرے شہر کے لوگ نہ پاگل ہیں اور نہ ہی جاہل۔ ذرا آگے بڑھ کے، آپ پیار سے ان کے سروں ‌پہ ہاتھ رکھ کے تو دیکھیے۔ یہ پیار کو ترسے ہوئے اہل کراچی اگر دل و جاں‌ فرش راہ نہ کردیں تو پھر انہیں ضرور دوش دینا۔ اور ہاں، یہ بات بھی کہنی ضروری سمجھتا ہوں کہ خدارا اب چلے ہوئے کارتوسوں کو پھر سے نہ آزمائیے کہ یہ لوگ خواہ پی آئی بی میں بیٹھے ہوں یا خیابان سحر میں، یہ سب کے سب گزشتہ 30۔ 35 سال سے مل جل کے ہی یہ جرائم کرتے رہے ہیں اور یہ توقع کرنا کہ ایک ہی آن میں ان کے اندر حقیقی انقلابی روح بیدار ہوجائے گی نری خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں، کیونکہ برسہا برس کے تجربوں اور مشاہدوں پہ مبنی یہ محاورہ قطعی بے حقیقت نہیں کہ ’چور چوری سے جاتا ہے، ہیرا پھیری سے پھر بھی نہیں جاتا‘۔ خود سوچیئے کہ کسی قول دانش کو مسترد کرنا بھی بھلا کہاں ‌کی عقلمندی ہے؟ ‌


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).