مائیکل فلن کا جھوٹا بیان دینے کا اعتراف


Michael Flynn

مائیکل فلن نے رواں سال فروری میں استعفیٰ دیا تھا

امریکہ کے قومی سلامتی کے سابق مشیر مائیکل فلن نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نےامریکہ کے صدارتی انتخاب سے قبل روسی سفیر سے ملاقات کے بارے میں ایف بی آئی کو غلط بیان دیا تھا۔

مائیکل فلن پر یہ الزام امریکہ کے صدارتی انتخاب میں روس کی مبینہ مداخلت کی تحقیقات کے دوران خصوصی کونسل روبرٹ مولر نے عائد کیے ہیں۔

فلن امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ ترین اہلکار ہیں جن پر اس معاملے میں فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔ انھوں نے انکوائری میں تعاون کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔

مائیکل فلن کی جانب سے استغاثہ کو دیے گئے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم کے اعلیٰ ترین اہلکار تحقیقات کی سمت متعین کرنے میں مولر کی مدد کر رہے ہیں۔

مائیکل فلن استثنیٰ کے عوض گواہی دینے کو راضی

’ٹرمپ کو جنرل فلن کے معاملے کا کئی ہفتوں سے پتا تھا‘

صدر ٹرمپ نے اپنے خلاف تحقیقات کی تصدیق کردی

امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ سینیئر ترین اہلکاروں میں اب سب سے زیادہ توجہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر اور اُن کے داماد جیرڈ کشنر پر ہے۔

عدالت میں کیا ہوا؟

واشنگٹن ڈی سی میں وفاقی عدالت میں پیش ہوتے وقت مائیکل فلین نے تسلیم کیا کہ انھوں نے ‘جھوٹا، دھوکا دہی پر مبنی جعلی بیان دیا تھا۔’

کمرہِ عدالت میں موجود اے ایف پی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ ججوں نے ان کے اعترافِ جرم کو قبول کیا اور کہا کہ انھیں مقدمے کا سامنے نہیں کرنا پڑے گا۔

اس کے بعد فلن نے اپنا ایک بیان جاری کیا، جس میں انھوں نے کہا کہ ‘میں تسلیم کرتا ہوں کہ عدالت میں آج میں نے جو کچھ کیا وہ غلط ہے اور خدا پر ایمان رکھتے ہوئے میں چیزوں کو صحیح کرنا چاہتا ہوں۔’

انھوں نے کہا کہ اُن کا اعترافِ جرم اور تعاون کا معاہدہ ‘ایسا اقدام ہے جو اُن کے خاندان اور ملک کے بہترین مفاد کے لیے کیے گئے اقدام کی عکاسی کرتا ہے۔

‘اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل کو چھ ماہ سے زیادہ کی قید ہو۔

ادھروائٹ ہاوس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘مائیکل فلن کے اعتراف یا ان پر فرد جرم میں فلن کے علاوہ کوئی اور شامل نہیں ہے۔’دوسری جانب صدر کی نامہ نگاروں سے ہونے والی ملاقات کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔

’ٹرمپ کو جنرل فلن کے معاملے کا کئی ہفتوں سے پتا تھا‘

‘ٹرمپ فلن کے روس سے تعلق کی تفتیش کا خاتمہ چاہتے تھے‘

روسی مداخلت کی تحقیقات: فلِن سے دستاویزات کا مطالبہ

جب ایف بی آئی کے اہلکاروں کے حلقے میں مائیکل فلن عدالت سے نکل رہے تھے تو باہر کھڑے مظاہرین نے ‘مجرم، اور ‘ایسے قید کرو’ کے نعرے لگائے۔

الزامات کیا ہیں؟

ٹرمپ کی حلف برداری سے پہلے روس کے سفیر سے ملاقات کے بارے میں ایف بی آئی کی پوچھ گچھ پر انھوں نے وائٹ ہاؤس کو صحیح معلومات نہ دیں اوراسی بنا پر مائیکل فلئن سے زبردستی استعفیٰ لے لیا گیا۔

اور ایک ہفتے قبل امریکی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں آئیں کہ اُن کی قانونی ٹیم نے صدر کے وکیل کو کہا کہ وہ اب اس مقدمے پر زیادہ بات چیت نہیں کر رہے ہیں، جس سے یہ تاثر ملا کہ فلن نے اب استغاثہ سے تعاون کرنا شروع کر دیا ہے۔

Former U.S. National Security Adviser Michael Flynn departs U.S. District Court- December 1, 2017.

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ انھوں نے تحقیقات کرنے والوں کو سچ سے آگاہ کیوں نہیں کیا لیکن کسی بھی دوسرے امریکی شہری کی طرح مسٹر فلن کے لیے امریکی حکومت کو بتائے بغیر ذاتی حیثیت میں خارجہ اُمور سے متعلق کوئی بھی کام کرنا غیر قانونی ہے۔

صدر ٹرمپ کے لیے یہ کتنا نقصان دہ ہے؟

بی بی سی کے نامہ نگار اینتھونی زرچر کے مطابق مائیکل فلن کو دسمبر 2016 میں روسی سفیر سے ملاقات کرنے پر قومی سلامتی کے مشیر کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ ابھی وہ مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہ فلن کے لیے تو بری خبر ہے لیکن اُس سے بھی زیادہ بری خبر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ہے جنھوں نے کئی بار ایف بی آئی کے سابق سربراہ جیمز کومی کو کہا کہ وہ مائیکل فلن کے خلاف انکوائری سے لاتعلق رہیں۔

فلن نے روبررٹ مولر ٹیم کو بتایا کہ انھوں نے روسی سفیر سے ملاقات سے قبل صدر ٹرمپ کے عبوری دور کی ٹیم کو آگاہ کیا تھا اور انھیں اس بارے میں ہدایات بھی دی گئی تھیں۔ صدر ٹرمپ نے کئی بار کہا ہے کہ مائیکل فلن نے احکامات کے خلاف خود یہ ملاقات کی تھی۔

نامہ نگار کے مطابق اگر سابق قومی سلامتی کے مشیر کے پاس اپنے اس بیان کے بارے میں شواہد موجود ہیں تو یہ ایک وسیع پیمانے پر ہونے والی تحقیقات کے لیے ایک دھماکہ خیز خبر ہو گی۔

یہ بات تو واضع ہے کہ بڑے پیمانے پر خصوصی تحقیقات ہو رہی ہیں اور مسٹر مولر کے جال میں ایک بڑی مچھلی پھنس چکی ہے۔

روس کے بارے میں کیا پتہ چلا؟

پلی بارگین کے طور پر مسٹر فلن نے ‘جرائم کے بیان’ پر دستخط کیے ہیں۔ جس میں صدر دسمبر2016 کے آخر سے لے کر 20 جنوری کو صدارتی حلف تک کی ٹائم لائن شامل ہے۔

Court document

سرکاری استغاثہ کے مطابق مبینہ طور پر یہ ہوا

  • 22 دسمبر 2016: ٹرمپ کی عبوری دور کی ٹیم کے ’اہم ترین‘ اہلکار نے مائیکل فلن کو روس سمیت دوسرے ممالک کی حکومتوں سے اسرائیلی آبادکاری کے بارے میں سلامتی کونسل موخر ہونے والی وٹنگ کے بارے میں بات کرنے کے لیے کہا۔
  • 22-23 دسمبر 2016: مسٹر فلن نے روسی سفیر پر زور دیا کہ قرارداد کے خلاف یا تاخیر کے بارے میں زور دیا اور اگلے دن روسی سفیر نے کہا کہ روس اس قرارداد کے خلاف ووٹ نہیں دے گا۔
  • 28 دسمبر 2016: صدر اوباما کی جانب سے امریکہ صدارتی انتخاب میں مداخلت کرنے پر روس کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا گیا اور اس پر روسی سفیر نے مائیکل فلن سے رابطہ کیا۔
  • 29 دسمبر 2016: مائیکل فلن نے ٹرمپ کی عبوری ٹیم کے ’سینیئر اہلکار‘ سے فلوریڈا میں رابطہ کیا تاکہ اس کے ردعمل دیا جا سکے۔ انھوں نے ’فوری طور پر‘ روسی کے سفیر کو فون کیا اور کہا کہ اس معاملے کو زیادہ بڑھاوا نہ دیا جائے اور پھر دوبارہ سینیئر اہلکار کو آگاہ کیا۔
  • 30 دسمبر 2016: روس کے صدر ولادی میر پوتن نے اعلان کیا کہ ان پابندیوں کا فوری طور پر جواب نہیں دیا جائے گا۔
  • 31 دسمبر 2016: روسی سفیر نے فلن کو روس کے موقف کے بارے میں آگاہ کیا اور مائیکل فلن نے ٹرمپ ٹیم کو اس بارے میں اطلاع دی۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp