پیپلز پارٹی اور بھٹو صاحب: آئی اے رحمان کے مشاہدات


آئی اے رحمان ممتاز صحافی اور دانش ور ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے ان کی توانا آواز کئی عشروں سے گونج رہی ہے جس کے بانکپن میں مرور زمانہ سے کمی نہیں آئی۔ لکھنے کے ہنر میں طاق، تجزیہ میں مشاق۔ موضوع کیسا بھی دقیق ہو اسے پانی کر دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو بنتے دیکھا اور اس زمانے کا مشاہدہ بھی کیا جب ذوالفقار علی بھٹو کے پاؤں تلے سے زمین کھینچی جارہی تھی۔

بھٹو کے سیاسی اتار چڑھاؤ کی کہانی سننے کے واسطے، شہر لاہور میں جہاں پچاس برس قبل پیپلز پارٹی کی بنیاد اٹھائی گئی تھی، آئی اے رحمان سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا دانش ور نظر نہیں آیا۔ ہم نے چند سوال قائم کئے اور ان کا جواب حاصل کرنے ان کے دوارے پہنچے تو انھوں نے عہد رفتہ کو آواز دی اور نہایت متین لہجے میں اپنا نقطہ نظر بیان کیا جسے ہم پیش کر رہے ہیں۔

٭٭٭   ٭٭٭

پیپلز پارٹی کن حالات میں قائم ہوئی؟

پیپلز پارٹی کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ سیاسی جماعت جو صحیح وقت پر نمودار ہوئی۔ اس وقت لوگ ایسی پارٹی کے منتظر تھے۔ ایوب خان کی آمرانہ حکومت سے عوام عاجز آگئے تھے۔ ان کے دور میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوا۔ گو کہ انھوں نے زرعی اصلاحات کی تھیں لیکن ان سے کسانوں اور بے زمین مزارعوں کو کچھ نہیں ملا اور انھیں لگا کہ ایک طرح سے ان سے دھوکا ہوا ہے۔ 1965 کی جنگ میں امریکا نے پاکستان کی مدد نہیں کی جس پر لوگ ناراض تھے۔ جنگ میں پاکستان کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن قوم کو بتایا گیا کہ ہم جیت گئے ہیں۔ اس جنگ کے دوران مشرقی پاکستان کو سارے معاملے سے بے خبر رکھا گیا۔ یہ تو داخلی عوامل تھے، پیپلز پارٹی کے قیام میں خارجی عوامل بھی کارفرما تھے۔ اس زمانے میں ویت نام کی جنگ میں عوام نے جس بہادری سے سپر پاور امریکا کا مقابلہ کیا اوردوسری جنگ عظیم سے زیادہ بمباری برداشت کی، اس نے ایشیا کو اسی طرح radicalize کیا جیسے یہ خطہ 1905 میں جاپان سے روس کی شکست کے بعد ہوا تھا۔ دونوں موقعوں پر ایشیائی قومی احساس بہت بڑھ گیا تھا۔ ویت نامی حریت پسندوں کی جرات مندانہ اور صبر آزما جدوجہد نے پاکستانی عوام کو بھی بیدار کیا، تو یہ وہ ماحول تھا جس میں پیپلز پارٹی قائم ہوئی۔ جنوری 1965 میں ایوب خان نے صدارتی الیکشن میں دھاندلی سے فاطمہ جناح کے مقابلے میں خود کو صدر منتخب کرایا توصحیح معنوں میں ان کا زوال شروع ہوا، ہر چند کہ پہلے بھی عوام ان سے ناراض تھے لیکن اس الیکشن کے بعد ان کی ناراضی میں زیادہ شدت آگئی۔ اس وقت بھٹو صاحب کنونشن لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے۔ بڑے جوش وخروش سے کام کرتے۔ آستینیں چڑھا کر مخالفین کی خبر لیتے۔

صدارتی الیکشن کے بعد ہندوستان کے ساتھ جنگ نے ایوب کو اور بھی کمزور کیا۔ اس صورت حال کو بھٹو نے exploitکیا اور یہ تاثر دیا کہ جیتی ہوئی جنگ ایوب خان نے مذاکرات کی میز پر ہار دی، یہ بات درست نہیں تھی لیکن عوام کی بہت بڑی تعداد نے اسے قبول کیا۔ بھٹو پارٹی بنانے کے لیے فوری طور پر تیار نہیں تھے لیکن حکومت نے ان کے گرد گھیرا تنگ کیا اور ان پر مقدمات قائم کرکے ڈرانا چاہا تو ان کو اپنا سیاسی پروگرام تھوڑا جلد مرتب کرنا پڑا۔

بھٹو کو اس وقت ایک فائدہ یہ ہوا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن خواہ ان کا تعلق ولی خان کی نیپ سے تھا یا بھاشانی کی نیپ سے، وہ متحرک ہوئے، اسی طرح چھوٹی چھوٹی تحریکیں جو سندھ اور کراچی میں چل رہی تھیں، ان کے کارکن، سب بیکار بیٹھے تھے، ان کو پیپلز پارٹی کی صورت میں جدوجہد کا پلیٹ فارم میسر آگیا اور وہ اس کی طرف آئے۔

ذراا یک مثال دیکھیے۔ لاہور میں پیپلز پارٹی کا بڑا جوشیلا کارکن بھولا تھا جو شاید کونسلر بھی ہو گیا تھا۔ وہ چھولے فروخت کرتا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ بھولے تمھیں کیا سوجھی کہ پیپلز پارٹی میں آگئے؟ کہنے لگا’ ہم تو تھڑے پر آرام سے بیٹھے تھے، کوئی پارٹی ہمیں پوچھتی نہیں تھی، ایوب کے خلاف بھٹو صاحب نے تحریک چلائی اور منڈوا لگایا تو ہم اس میں چلے گئے۔ کام کرنے کے لیے انہیں بہت بڑا گروہ مل گیا۔ بیک وقت، مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس اور عام سادہ لوح دیہاتی اور شہری سب اکٹھے ہوگئے، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی جتنی تیزی سے کوئی جماعت ہمارے ہاں مقبول نہیں ہوئی۔ مسلم لیگ کو مقبول ہونے میں بھی خاصا وقت لگا تھا۔

سنیئر لوگوں میں خورشید حسن میر، شیخ رشید احمد اور محمود علی قصوری اور معراج محمد خان جیسے بڑے نام پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ حنیف رامے حصہ بن گئے۔ دوسری جماعتوں سے لوگ ٹوٹ کر بھٹو کے ساتھ ملنے لگے۔ بھٹو سندھ سے تھے اس لیے سندھی نیشنلسٹ اور جو نیشنلسٹ نہیں بھی تھے وہ بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہو لیے۔ اس طرح ترقی پسند کارکنوں کا بہت بڑا قافلہ بھٹو کے ساتھ مل گیا۔

یہ بات بھی دیکھنے کی ہے کہ پیپلز پارٹی نے باقاعدہ قیام سے پہلے بہت کام کیا۔ فاؤنڈیشن پیپرز تیار کیے جو بہت اچھے تھے۔ ان کا زیادہ تر حصہ جے اے رحیم نے لکھا، ان کے بعد ڈاکٹر مبشر حسن کا حصہ تھا، یہ دونوں پیش پیش تھے۔ اسی میں سے پارٹی کے یہ نعرے نکلے:

جمہوریت ہماری سیاست

سوشلزم ہماری معیشت

اسلام ہمارا دین

طاقت کا سرچشمہ عوام

30 نومبر اور یکم دسمبر 1967 کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پیپلز پارٹی کا پہلا کنونشن ہوا۔ اس میں اچھی خاصی تعداد میں لوگوں نے حصہ لیا۔ اس میں شرکت کے لیے لوگ دور دور سے آئے۔ منتظمین یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ سب معاملات باہم مشاورت اور بحث کے بعد طے ہو رہے ہیں۔ عوام کو لگا کہ جمہوری طریقے سے پارٹی بنائی جا رہی ہے، اس تاثر نے مڈل کلاس دانشور اور انٹیلی جینشیا کو بہت اپیل کیا۔ انھیں امید بندھی کہ اب ہمارے مسائل کا حل نکل سکے گا اور ہم آگے بڑھ سکیں گے۔

پنجاب کو سیاست کا مرکز جانا

بھٹو کو پارٹی میں dynamoکی حیثیت حاصل تھی۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ پارٹی میں اگر dynamo  ہو تو اس کے ساتھ بہت بلب روشن ہوجائیں گے۔ بھٹو کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے لیڈر بھی چمک اٹھے۔ بھٹو نے ایک بڑا کام یہ کیا کہ شہری اور دیہاتی عوام ہر دو سے براہ راست رابطہ کیا۔ کسی لیڈر نے مختلف علاقوں میں ان کے جتنے دورے نہیں کیے۔ گاؤں میں گھنٹوں لوگ ان کا انتظار کرتے۔ ان کا انداز خطابت لوگوں کو اپیل کرتا تھا۔ جن سیاست دانوں کی لوگوں کے دلوں میں ہیبت تھی، ان کا رعب ختم کرنے کے لیے ان کے نام بدلے، کسی کو آلو کہا تو کسی کو چوہا۔ یہ اچھی بات نہیں تھی لیکن لوگوں کو پسند آئی۔

بھٹو سندھی لیڈر تھے لیکن زیادہ تر انھوں نے پنجاب کی سیاست کی۔ ہندوستان سے ہزار سال لڑنے کی بات کرکے انڈیا مخالف جذبات کو اپنے حق میں استعمال کیا۔ ون یونٹ توڑنے کی بات اس لیے نہیں کی کہ پنجاب اس سے ناراض ہوگا، چھوٹے صوبے کے لوگوں نے اس بات کا برا مانا لیکن وہ بس یہی کہتے رہے کہ جب پُل آئے گا تب اس کو پار کریں گے۔

مقتدر حلقوں میں کسی سے بگاڑ پیدا نہیں کیا۔ لاہور میں سوشلسٹ اورجماعت اسلامی آمنے سامنے ہوئے اور مولانا مودودی نے کہا کہ جو سوشلزم کی بات کرے گا اس کی زبان گدی سے کھینچ لوں گا۔ اس پر بھی بھٹو نے مودودی کے خلاف بات نہیں کی۔ فوج کو کچھ نہیں کہا۔ ان کی حکمت عملی تھی کہ کسی کو خفا نہیں کرنا۔ ان کی تنقید کا ہدف ایوب خان اور نواب آف کالا باغ تھے۔ اس وقت وہ بہت زیادہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کررہے تھے۔ ساتھ میں اصل کام پر بھی ان کی توجہ تھی۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ وہ بلند کر رہے تھے، اس سے بہتر نعرہ ہماری سیاسی تاریخ میں سامنے نہیں آیا۔ ان سب باتوں کے پیش نظر پارٹی کا آغاز بہت اچھا تھا۔

پیپلز پارٹی کی جیت کی پیش گوئی

مجھے قوی امید تھی کہ 1970کے الیکشن میں پیپلز پارٹی انتخابات میں مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت حاصل کرے گی۔ الیکشن مہم کے دوران میں نے پنجاب کے مختلف شہروں کا دورہ کیا تو پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا صحیح اندازہ ہوا۔ لوگوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کو ایسے ووٹ پڑیں گے جیسے گُڑ پر مکھیاں گرتی ہیں۔ میں نے اس زمانے میں ’’ آزاد ‘‘ اخبار میں مضمون میں لکھا کہ الیکشن میں تین پارٹیاں ابھر کر سامنے آئیں گی۔ مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب کی عوامی لیگ، مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلز پارٹی اور ولی خان کی نیپ، ان تینوں رہنماؤں کی تصاویر بھی شائع کیں اور کہا کہ الیکشن کے بعد یہ نقشہ بنے گا۔

جنوری 1970 میں فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکا جانا ہوا تو وہاں کے دانشور ممتاز دولتانہ کی حمایت کرتے نظر آئے، عبداللہ ملک اور میں نے ان سے کہا کہ آپ غلط آدمی پر تکیہ کر رہے ہیں، الیکشن میں پیپلز پارٹی کی جیت کا غالب امکان ہے اور مستقبل میں بھٹو سے ہی شراکت اقتدار کے لیے آپ کو ڈیل کرنی ہوگی، لیکن وہ مانے نہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم بھٹو کے حامی نہیں لیکن مغربی پاکستان کے سیاسی میدان میں جو دکھائی دے رہا ہے اس کی بابت آپ کو بتارہے ہیں۔ ہماری رائے بعد ازاں درست ثابت ہوئی اور پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں میدان مار لیا۔ ہمارے ایک دوست نے الیکشن سے پہلے تجزیہ کیا تھا کہ جہاں جہاں ٹرین جاتی ہے پیپلز پارٹی جیت رہی ہے اور پھر ایسا ہی ہوا۔

مشرقی پاکستان کا بحران اور بھٹو

مشرقی پاکستان کے بحران میں بھٹو کا کردار اچھا نہیں تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جو صورت حال چل رہی ہے اس میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اب کوئی روک نہیں سکتا، اس لیے وہ کوشش کرکے کیوں اپنا سیاسی مستقبل خراب کریں۔ اس لیے انھوں نے کہا کہ الگ ہوتا ہے تو ہولے، کم سے کم میرا حصہ محفوظ ہونا چاہیے۔ لاہور میں انھوں نے پارٹی کے منتخب نمائندوں کو بلایا اور ان سے کہا کہ شیخ مجیب الرحمٰن مجھے حکومت میں سنیئر وزیر اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کو تیار ہے۔ اس پر شیخ رشید نے کہا کہ ہم کو عوامی لیگ کے ساتھ مل کر جاگیر داری نظام کو ختم کردینا چاہیے۔ کسی نے کہا کہ مجیب سے اتحاد کو ہم نہیں مانتے۔ اس پر بھٹو کو لگا کہ مجیب سے صلح کی صورت میں ان کی پارٹی ٹوٹ جائے گی اس لیے انھوں نے دھمکی دی کہ ان کی پارٹی کا کوئی رکن اگر اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکا گیا تو وہ اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ کئی لوگ مجیب سے رابطے میں تھے۔ کچھ ڈانواں ڈول تھے اور کچھ مخالف۔ بھٹو نے اس وقت جو پالیسی اختیار کی اس سے بہترپالیسی وہ اختیار کرسکتے تھے۔ ڈھاکا میں بیٹھ کر کہتے، میں آپ کی باتیں مانتا ہوں، آؤ، فوج سے الگ الگ بات کرنے کے بجائے مل کر بات کرتے ہیں۔ یہ بات چھوٹے لیڈروں نے کی، ولی خان اور غوث بخش بزنجو وہیں تھے۔ بھٹو کا کردار زیادہ اس وقت خراب ہوا جب حکومت نے عوامی لیگ کے امیدواروں کو نااہل کیا اور پیپلز پارٹی نے ضمنی الیکشن میں امیدوار کھڑے کئے۔ یہ عمل ٹھیک نہیں تھا۔ فوجی آپریشن کی حمایت کرنا سیاسی بلنڈر تھا، بھئی، جب آپ صحیح بات نہیں کہہ سکتے تو چپ رہو۔ میں ان لوگوں سے نہیں جو کہتے ہیں مشرقی پاکستان بھٹو کی وجہ سے الگ ہوا وہ بہت پہلے الگ ہوگیا تھا۔

بھٹو کی ناکامی کی وجوہات

بھٹو جس سیڑھی کے ذریعے اوپر آئے اسے لات مار کر انھوں نے پرے پھینک دیا۔ ترقی پسند اور سوشلسٹ فکر رکھنے والے ایک ایک کرکے پارٹی چھوڑنے لگے۔ خورشید حسن میر اور محمود علی قصوری چلے گئے۔ جے اے رحیم کے ساتھ جو ناروا سلوک ہوا اس کے بعد وہ پارٹی میں کیسے رہ سکتے تھے۔ حنیف رامے بھی چھوڑ گئے۔ اس کے بعد جاگیردار اور وڈیرے ان کے ساتھ رہ گئے۔ 1977 کے الیکشن میں ان لوگوں کو ٹکٹ دیے جنھیں 70ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے ہرایا تھا۔ اس کا جواز یہ دیا گیا کہ جاگیردار تو ختم ہوجانے والے لوگ ہیں، انھیں آسانی سے نکالا جا سکتا ہے، یہ ترقی پسند اور سوشلسٹ تو تنگ کرتے ہیں۔

ترقی پسند سمجھتے تھے کہ بھٹو پکے سوشلسٹ تھے، اس لیے ایک سوشلسٹ پارٹی بنا دیں گے، جبکہ وہ سوشلسٹ نہیں تھے۔ ان کے ذہن میں سکینڈے نیوین ممالک جیسی ڈیموکریسی جس میں ویلفئیر سٹیٹ ہوتی ہے، کا تصور تھا۔ انہوں نے دو دفعہ زرعی اصلاحات کیں لیکن ترقی پسند اس سے بھی مطمئن نہیں ہوئے۔ اس بات سے کہ بھٹو نے لیفٹ کو دھوکا دیا، میں متفق نہیں. انھیں سمجھنا چاہیے تھا کہ وہ جمہوری فیز سے آگے نہیں جائیں گے، اس لیے ان پر زور دینا کہ وہ کیمونسٹ پارٹی کے طور پر کام کریں یہ سب غلط تھا۔ انھیں چاہیے تھا کہ سمجھتے کہ ملک میں جمہوریت نے ابھی جڑ پکڑی ہے، اس لیے اسے مضبوط کرو اور جاگیرداروں کے رحم وکرم پر نہ چھوڑو۔ ایک طرف تو ترقی پسند ناراض تھے تو ادھر پنجاب میں مزدور، لوئر مڈل کلاس کے لوگ بھی حکومتی پالیسیوں کے باعث پیپلز پارٹی سے دور ہو گئے۔ نیشنلائزیشن پر بھی اعتراض ہوئے لیکن اس سے متاثر ہونے والے تھوڑے تھے اور ان کا ووٹ بینک نہیں تھا، مزدوروں کے ووٹ تھے۔ یہ لوگ پارٹی کی اصل طاقت تھے۔ پیپلز پارٹی کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھانے کے لیے مذہبی جماعتیں آگے آئیں۔ بھٹو نے اپنی پِچ چھوڑ دی، اس کے بعد الیکشن کا اعلان کیا گیا تو سارا انحصار اور اعتماد بیوروکریٹس پر کیا گیا، ان کی مدد سے دھاندلی کے ذریعے الیکشن جیتنا چاہا۔ پی این اے کے پیچھے امریکا ہوگا لیکن دھاندلی تو ہوئی، جس کی ضرورت نہیں تھی لیکن جب آپ معاملات بیوروکریٹس کے ہاتھ میں دے دیں گے تو وہ یہی کرے گا۔ بھٹو نے اپنی مقبولیت کے اسباب خود ختم کئے۔ پارٹی کے نام پر آنے والے بھٹو کا فلسفہ یہ تھا کہ ترقی پذیر ممالک میں پارٹی کی کوئی حیثیت نہیں ہے لوگ خوف کے ذریعے سے کنٹرول کئے جاسکتے ہیں۔ ہندوستان سے جنگی قیدی لے کر آئے جو فوج پر احسان تھا لیکن ساتھ ہی ان کا بجٹ کم کرنا شروع کیا تو فوج سے بہت لوگوں نے استعفے دے دیے تو عزیز احمد کو منانے کے لیے بھیجا۔ فیڈرل سکیورٹی فورس کے قیام سے بھی فوج خوش نہیں ہوئی۔

بھٹو نے ہندوستان کے بارے میں جنگی جنون پھیلایا۔ شاہ فیصل کے ساتھ مل کر اسلامی بلاک بنانا چاہتے تھے۔ افغانستان میں مداخلت کر کے وہاں حکومت گرانا چاہتے تھے، ان کے دور میں حکمت یار وغیرہ کو پاکستان بلایا گیا۔ اپوزیشن کے ساتھ ان کا رویہ بہت ظالمانہ تھا۔ اس کی تذلیل کرتے تھے۔ حکومت سنبھالتے ہی انھوں نے اپوزیشن کو ختم کرنا شروع کیا، اس بات کو بھول گئے جو حکومت اپوزیشن کو ختم کرتی ہے، وہ اصل میں اپنی پارٹی کو ختم کردیتی ہے۔ مذہبی طبقے کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ بلوچستان میں آپریشن کیا جو بہت غلط بات تھی۔ وہ کچھ مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن ناکام رہے لیکن اس سے ان مقاصد کو نقصان پہنچا۔ جیسے نیشنلائزیشن تھی۔ کراچی میں مزدوروں پر گولی چلی۔ ٹریڈ یونین کو ہینڈل نہ کر سکے، کسان کمیٹی بننے نہیں دی۔ بھٹو نے اچھے کام بھی کئے۔ مختلف شعبوں میں اصلاحات کیں۔ آئین دیا۔ تنخواہوں میں اضافہ ہوا۔ پاسپورٹ کا حصول آسان بنایا۔ سٹیل مل لگائی۔ معاشی شعبے میں کئی ایسے کام کئے جن کے ثمرات ضیا دور میں سامنے آئے۔

یقین تھا، بھٹو کو پھانسی ہوگی

ضیاء الحق کو آرمی چیف بنانے سے پہلے امریکی ماہرین بلائے اور آرمی کے ممکنہ سربراہوں پر بات چیت ہوئی تو انھوں نے ضیا کی مخالفت کی، بھٹو نے سمجھا کہ امریکی اس کے خلاف ہیں تو اسی کو بناتے ہیں۔ ضیا کاسہ لیسی بھی بہت کرتا تھا۔ وزیر اعظم کے لیے دروازہ کھولتا، کرسی لا کر دیتا۔ ملتان میں جب کور کمانڈر تھا تو جو افسر بھٹو کا استقبال کرنے نہیں آئے ان سے جواب طلب کر لیا۔ بھٹو کو گرفتار کیا گیا تو میرا یقین تھا کہ وہ نہیں بچیں گے۔ جیل سے رہائی کے بعد وہ ایک بار رہا ہوئے تو بہت بڑا جلوس نکلا، جس میں شاہ احمد نورانی کی پگڑی اچھالی گئی، اس وقت مجھے لگا کہ فوج اب انھیں معاف نہیں کرے گی۔

دوسرے یہ معلوم ہوا کہ بھٹو کے بارے میں جو فائلیں فوج نے تیار کر رکھی تھیں، سب جمع کرکے مولوی مشتاق کے سامنے رکھی گئیں تو کہا کہ بتائیں کون سا کیس ہے، جس میں ہم بھٹو کو پھانس سکتے ہیں تو اس نے بتایا کہ احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کا کیس ٹھیک رہے گا۔ اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں ان کو اس بینچ کا سربراہ بنا دیا گیا، جس نے بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت کرنی تھی۔ وعدہ معاف گواہوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا اس بارے میں بھی مجھے علم تھا۔ ان ساری باتوں کی وجہ سے میں سمجھتا تھا کہ بھٹو کو پھانسی دی جائے گی۔ مظہر علی خان صاحب سے بہت بحث ہوتی تھی، وہ کہتے کہ پھانسی نہیں دیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ دنیا فوجی حکومت کے خلاف ہوجائے گی، ملک میں لوگ ناراض ہوں گے، انصاف کا تقاضا بھی نہیں۔ ان دلائل کے جواب میں، میں نے کہا کہ مظہر صاحب آپ لکھ لیں، ضیا الحق، بھٹو کو پھانسی دے کر ہی چھوڑے گا۔

اشاعت مکرر: Dec 1, 2019


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).