لبرل کیوں معتوب ہیں؟


دنیا بھر کے لبرل اپنے اپنے ملکوں میں معتوب ہیں۔ ان کے کچھ قدامت پسند ہم وطن ان پر ملک دشمنی کے الزام لگاتے ہیں۔ انڈیا کے لبرل رائٹرز اس وقت خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انڈیا اب تحریر و تقریر کی آزادی کے لیے محفوظ ملک نہیں رہا۔ پاکستان کے لبرل کو کئی القاب سے نوازا جاتا ہے۔ لبرل فاشٹ، لنڈے کے لبرل، دیسی اور جعلی لبرل اور اب خون کے پیاسے لبرل۔ ان پر اسلام دشمنی کا ٹھپہ لگا کر انہیں خاموش کروایا جاتا ہے۔ کچھ پر توہین مذہب کے الزام لگا کر جیل میں ڈالا گیا ہے۔ ماضی میں پاکستانی ریاست بہت سوں کو غدار قرار دے چکی ہے۔ اور ان کو غداری کے الزام میں جیلوں میں ڈال چکی ہے۔ اب تو ریاست مقدموں وغیرہ کے جھنجھٹ میں بھی نہیں پڑتی اور ان کو اٹھا کے لے جاتی ہے اور پھر ان کے خلاف توہین مذہب کا خطرناک پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ کچھ صحافی سچ لکھنے کی پاداش میں قتل ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں لبرل آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔

لبرل کون ہیں اور لبرلزم کی اصطلاح کا کیا مطلب ہے؟ لبرل لاطینی زبان کے لفظ لبر سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے، آزاد، لفظ آزادی بھی اس سے ماخوذ ہے۔ لبرل کو نئے زمانے کے مطابق نئے خیالات اور نئے نظام کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ لبرل خیالات یورپ میں اٹھارویں صدی میں مقبول ہوئے جب وہاں کے لوگوں نے موروثی حکومتوں کے خلاف عوام کی بالا دستی کی جدوجہد شروع کی۔ انسانی غلامی کے خلاف تحرکیں بھی اسی زمانے میں شروع ہوئیں۔ پرانے مروجہ قوانین (جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں) کے خلاف جدوجہد کو لبرل ازم کہا جاتا ہے۔ مشہور لبرل فلاسفرز میں جان لاک، ایڈم سمتھ، ایمینوئیل کانٹ، تھامس پین، تھامس جیفرسن، جان سٹیورٹ مل شامل ہیں۔ موجودہ دور کے امریکی، یہودی دانشور نوم چاؤمسکی پاکستان میں مقبول ہیں، وہ بھی لبرل ہیں۔

لبرلزم ایک سیاسی اصطلاح ہے جو کہ انیسویں صدی سے یورپ اور امریکہ میں استعمال ہو رہی ہے۔ اس کی بنیاد میں انسانی حقوق کی پاسداری، بغیر سنسر کے تحریر و تقریر کی آزادی، چرچ اور سٹیٹ کی علیحدگی کے علاوہ ہر شخص کو پراپرٹی رکھنے کا حق دینا، اوپن مارکیٹ، ریاست کا تجارت میں کم سے کم دخل اور انٹرنیشنل کھلی تجارت شامل ہیں۔ اس کو کلاسیک لبرلزم کہتے ہیں۔ ماڈرن لبرلزم میں ریاست کو تجارت، سوشل ویلفیئر کے پروجیکٹ، مفت علاج معالجہ کی سہولتوں میں زیادہ کردار ادا کرنے کو کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے کچھ کنزرویٹو اپنے آپ کو کلاسیک لبرل کہتے ہیں کہ وہ ان باتوں میں بھی ریاست کے عمل دخل کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ، امریکہ اور باقی ملکوں کا ماڈرن لبرلزم کا فلسفہ ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتا ہے۔ ایک ملک کا لبرل دوسرے ملک کا کنزرویٹو (قدامت پسند ) ہو سکتا ہے۔ لبرل کے لیے لیفٹ اور قدامت پسند کے لیے رائٹ کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہیں۔ لبرل بعض اوقات ترقی پسند بھی کہلاتے ہیں۔

پاکستان کے لبرل کو دو گروپز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک گروپ فری مارکیٹ کے معاشی نظام اور شخصی پرائیویٹ پراپرٹی کے حق میں ہے اور دوسرا مارکسزم کے معاشی نظام کا حامی ہے۔ ان دونوں میں جو قدریں مشترک ہیں اُن کی وجہ سے میں اُن کو لبرل کہوں گی۔ یہ دونوں گروپ شخصی مذہبی آزادی، آزادی رائے، عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کے برابری کے حقوق کے حامی ہیں۔ یہ دونوں سیکولر نظام یعنی مذہب و نسل کے تفرق سے مبرا سیاسی نظام کے حامی ہیں۔ یہ دونوں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ دونوں عوام کی بالا دستی کے حق میں ہیں اور ریاست کے نظام میں فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔ یہ دونوں علاقائی امن اور ہمسایہ ممالک سے دوستی کے قائل ہیں کہ پاکستان اگر اپنے علاقے میں امن سے رہے گا تو اس ملک کا بجٹ دفاع پر کم خرچ ہو گا اور عوام کی بہبود پر زیادہ صرف ہو گا۔ یہ دونوں گروپ اپنے ہم وطن کرسچن، ہندو، سکھوں اور دوسری مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے لیے چوکس رہتے ہیں۔

امریکہ، یورپ اور انڈیا کے لبرل پاکستان میں بہت مقبول ہیں۔ نوم چومسکی، ہاورڈ زن، ارون دھتی رائے کی تحریروں کو پاکستان کے مذہبی حلقے بھی یورپ، امریکہ اور انڈیا کے خلاف اپنے موقف کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے اپنے ملکوں میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف بولتے ہیں۔ یہ اپنے ملکوں کی خارجہ پالیسی پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور جنگوں کے خلاف بولتے ہیں۔یہ اپنے ملکوں کی اقلیتوں کے برابری کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ یہ اپنے ملکوں کے تاریخی مظالم کو بھی اجاگر کرتے ہیں کہ ویسی تاریخ پھر نہ دہرائی جائے۔ جب اپنے ملک کے لبرل عاصمہ جہانگیر، ڈاکٹر پرویز ہود بھائی وٖغیرہ پاکستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کرتے ہیں۔ جب وہ علاقائی امن کے حق میں بولتے ہیں تو نوم چومسکی، ھاورڈ زن اور ارون دھتی رائے کی تعریف کرنے والے ان کو وطن دشمن قرار دیتے ہیں۔

جب امریکہ کا لبرل مائیکل مور ایک چوراہے میں پلے کارڈ لے کر کھڑا ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ ہم سب مسلمان ہیں تو امریکہ کے مسلمانوں سمیت دنیا بھر کے مسلمان اُسے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ مگر جب پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر ایک غریب، ان پڑھ، جاہل کرسچن عورت کو معاف کرنے کی بات کرتا ہے، جب وہ انسان کے بنائے ہوئے قانون میں ترمیم کی بات کرتا ہے تو قتل کے فتوئوں کا سامنا کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے ہی گارڈ کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے۔ پھر اُس کے قاتل کو ولی کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ اور سب سے عجیب بات یہ ہے کہ اس کو ولی کا درجہ دینے والے امریکہ میں بھی موجود ہیں اور اُس کے سالانہ عرس کا اہتمام کرتے ہیں۔

لبرل کی تعریف کے مطابق پاکستان کے پہلے لبرل قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ انہوں نے اپنی 11 اگست 1947 کی تقریر میں صاف صاف الفاظ میں لبرل اقدار کے سب سے نمایاں پہلو، سیکولرزم کو پاکستانی ریاست کی بنیاد بنایا اور پاکستان کے ہر شہری کو برابر حقوق دینے کا وعدہ کیا۔ پاکستان کے لبرل میں شاعراور ادیب بھی شامل ہیں۔ان میں فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، سعادت حسن منٹو اور حبیب جالب شامل ہیں۔ فیض احمد فیض جنرل ایوب کے دور میں چار سال راولپنڈی سازش کیس کے تحت جیل میں رہے۔ پختون لیڈر باچا خان اور ولی خان پر غداری کا ٹھپہ لگایا گیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں جب مذہبی جماعتیں جنرل کے ’’جہاد‘‘میں ہاتھ بٹا رہی تھیں تو اس وقت کے لبرل اس کے ان متوقع نتائج سے خبردار کر رہے تھے جو اب سب پر واضع ہو گئے ہیں۔ اُس وقت اس وجہ سے وہ لبرل غدارِ وطن اور مذہب دشمن کہلائے گئے۔

ہمارے ہاں بہت سے لوگ لبرل اُس کو سمجھتے ہیں جو شراب و عیش کا رسیا ہو اور مذہب سے لاتعلق ہو۔ حالانکہ لبرل اقدار کے حامل راسخ العقیدہ، صوم وصلوٰۃ کے پابند بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ خود بھی اپنے مذہبی عقائد کی پابندی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہ حق دیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے مولوی بھی شامل ہیں۔ مولوی ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لبرل خیالات نہیں رکھ سکتے۔ کچھ لوگ جنرل مشرف کو لبرل کہتے ہیں حالانکہ آمریت کا لبرلزم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے کوئی بھی لبرل کی تعریف پر پوری نہیں اترتی۔ کچھ لوگ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور اُن کے حامیوں کو لبرل کہتے ہیں۔ عمران خان شاید اپنی ذات کی حد تک لبرل ہوں گے مگر وہ پاکستان میں سیکولر، لبرل نظام کے حامی نہیں ہیں لہٰذا اُن کی پارٹی سیاسی طور پر قدامت پرست ہے۔

مسلم لیگ ن ماضی میں ایک قدامت پرست پارٹی تھی۔ اس کو اب بھی لبرل نہیں کہا جا سکتا۔ اس وقت نواز شریف کو لبرل گروپز کی اخلاقی حمایت حاصل ہے جس کی بہت سے وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ اس کی حکومت میں فوجی مداخلت کی مخالفت ہے اور عوام کی بالا دستی کی حمایت ہے۔ یہ جماعت ووٹ لیتے وقت عوام سے مذہب کے نام پر اپیل نہیں کرتی بلکہ اُنہیں سہولتیں پہنچانے کے وعدوں پر ووٹ لیتی ہے۔ نواز شریف انڈیا کے ساتھ امن کے حق میں ہیں اور اپنے ملک کے مذہبی اقلیتوں کو برابری کے حقوق دینے کی بات کرتے ہیں۔

پیپلز پارٹی پاکستان کے موجودہ حالات میں صرف ایک حد تک ہی اپنے آپ کو سیکولر اور لبرل کہہ سکتی ہے۔ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹیاں صحیح معنوں میں لبرل کہلائی جا سکتی ہیں۔ مگر اُن کو قومی سطح پر عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہے۔ اپنی تھوڑی سی تعداد کے باوجود وہ عورتوں، اقلیتوں، مزدوروں، کسانوں کے حقوق کے لیے متحرک ہیں۔ پاکستان کی عوامی ورکر پارٹی جس کے لیڈروں میں فانوس گجر، فاروق طارق، عابد حسن منٹو اور عابدہ چوہدری شامل ہیں، اوکاڑہ کے کسانوں، اینٹوں کے بھٹوں کے بانڈڈ لیبر، بلوچی اور سندھی اور دوسرے گم شدہ افراد کے لئے مسلسل جدوجہد کر رہی ہے۔ انجمن مزارعین کے کئی رہنماوں کو ریاست کی طرف سے بے پناہ مقدمات کا سامنا ہے اور وہ کئی دفعہ جیل کاٹتے رہے ہیں۔

پاکستان کی سرزمین لبرل زمین ہے۔ یہاں بابا بلھے شاہ، شاہ عبدالطیف بھٹائی اور رحمان بابا کے مقبول ہونے کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ان کے لبرل خیالات سے متفق ہیں۔ وہ اپنے مسلمان ہونے پر فخر تو محسوس کرتے ہیں مگر تعصب کے خلاف ہیں۔ آپ ان کے مذہبی جذبات ابھار کر انہیں سڑکوں پر تو لے آتے ہیں مگر الیکشن کے وقت وہ انہیں پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں جن کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بلا تفریق تمام شہریوں کے لیے کام کریں گی۔ میرے بچپن کے ہمسائے۔ میرے گائوں کے لوگوں نے اگرچہ یورپ کے لبرل فلاسفرز، جان لاک، جان سٹیورٹ مل، ایڈم سمتھ کو نہیں پڑھا مگر وہ لبرل قدروں کے حامی ہیں۔ میرے محلے میں مصلی، کرسچن، سنی، شیعہ، احمد ی اور وہابی مل جل کر رہتے تھے۔ اُنہوں نے ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں کبھی دخل نہیں دیا تھا۔ مگر ایک دوسرے کے ساتھ محبت کے رشتے کو استوار رکھا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ 70ء کی دہائی میں ہمارے محلے سے اگلی گلی میں ایک مذہبی اقلیت کے دو گھروں اور اُن کی بزنس کی کچھ دن تک ناکہ بندی کی گئی تو اُن کے ہمسائے چھپ چھپ کر انہیں کھانا پہنچاتے رہے۔ وہ ہمسائے اپنے عقیدے کے پکے تھے مگر اُنہں معلوم تھا کہ اُن کا عقیدہ کسی پر ظلم کی اجازت نہیں دیتا۔

مجھے یقین ہے کہ اگر اس وقت ریاست مذہب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا بند کر دے تو کچھ ہی عرصے میں پاکستانیوں کی اکثریت اپنے اصل کو لوٹ جائے گی۔ پھر اُن ملا کو جو نفرت کی بنیاد پر مذہب کی تشریح کرکے اپنی سیاست چمکاتے ہیں کو یہ سیاست ختم کرنا پڑے گی کہ اس کی کوئی سپورٹ نہ ہوگی۔ ریاست کو اپنے ہی شہریوں کے خلاف یہ خطرناک جنگ جلد ہی ختم کرنا ہوگی ورنہ اس کی آگ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور ریاست کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دے گی۔ پھر یہ خدا نخواستہ ریاست کے وجود کو ہی نہ ختم کر دے۔

جب اس جنگ کا خاتمہ ہوگا تو پاکستان کے وہ لبرل، جو اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر عوام کے سامنے حقائق پیش کر رہے ہیں، قوم کے ہیرو ہوں گے۔ بالکل اُسی طرح جیسے اب باچا خان اور ولی خان امن پسند پاکستانیوں کے ہیرو ہیں۔ اُسی طرح جیسے ماضی کے غدار اور دشمنِ دین فیض احمد فیض آج ہمارے ہیرو ہیں۔ آ پ اس بات کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جماعت اسلامی نے جنرل مشرف کے خلاف تحریک میں فیض کے اشعار کو اپنے نعرے بنا لیا۔

ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد

فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi