بھیگا بھیگا سا دسمبر اور کرسمس کہانی


دنیا بھر میں دسمبر کا مہینہ سیلیبریشن کا مہینہ ہے۔ بہت سے لوگوں کی دسمبر کے مہینے سے کچھ اچھی بُری یادیں وابستہ ہوتی ہیں۔ کسی کے مل جانے کی خوشی یا کسی کے بچھڑ جانے کی کسک، اِس مہینے میں بہت یاد آتی ہے۔ شاعروں نے بھی اس مہینے میں مختلف جذبات کا ذکر کیا ہے۔ کسی کا ابرار الحق کا ’’بھیگا بھیگا سا یہ دسمبر ہے، بھیگی بھیگی سی تنہائی ہے‘‘ گنگنانے کو دِل کرتا ہے تو کوئی ’’مہینہ تھا دسمبر کا، سہانی رات منگل کی‘‘ گنگناتا ہے۔

اِس مہینے کو کرسمس سیزن کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ کرسمس کی سیلیبریشن یکم دسمبر سے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ اہلِ مسیحیت کا ایک بنیادی اور اہم مذہبی تہوار ہے۔ دسمبر روایات کا مہینہ بھی ہے۔ اِن روایات کا تعلق مسیحیت سے بھی ہے اور یورپ کی قدیم تہذیب سے بھی۔

تاریخی اندراج میں پہلا کرسمس منائے جانے کا اندراج 336 عیسوی میں ملتا ہے، جو رومی شہنشاہ قسطنطائن کے دَورے حکومت میں منایا گیا (قسطنطائن پہلا رومی شہنشاہ تھا جس نے مسیحت کی سرپرستی کی)۔ چند سال بعد پاپائے اعظیم جولیس اول نے 25 دسمبر کو سرکاری طور پر حضرت عیسیٰ یسوع مسیح کا یومِ ولادت قرار دے دیا۔

یورپ میں ایک مشہور میلہ سردیوں میں منایا جاتا تھا۔ جب مسیحیت یورپ میں پھیلی تو سردی کے اِس موسم میں منایا جانے والا میلہ بھی کرسمس سے منسوب کر دیا گیا۔ آج جو روایات کرسمس سے جڑی ہوئی ہیں اِن کا تعلق یورپ کے قدیم میلے سے بھی ہیں جس میں تحائف کا تبادلہ اور غریبوں میں کھانا تقسیم کرنا سرفہرست ہیں۔

کرسمس سے متعلق ایک روایت کا آغاز نومبر کے چوتھے ہفتے کے آخر میں ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اِس روایت کو ’’بلیک فرائیڈے‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ روایت 1952 میں امریکہ میں شروع ہوئی جس میں خریداری کے لئے مصنوعات پر ڈسکاؤنٹ ہوتا ہے۔ (بلیک فرایئڈے اکاوٴنٹس کی اصطلاح ہے جس میں بلیک یعنی کہ کالا رنگ منافع اور لال رنگ خسارے کی نشاندہی کرتا ہے)۔ امریکہ کے بعد اب تقریباً یورپ کے سبھی ممالک میں بلیک فرایئڈے منایا جاتا ہے بلکہ یہ ایک تہوار کی حیثیت احتیار کر چکا ہے۔ خریدو فرخت پر ڈسکاؤنٹ کرسمس تک جاری رہتا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ ہر کوئی چاہے وہ امیر ہو یا غریب کرسمس کی خوشی میں بھر پور طریقے سے شامل ہو سکے۔

کرسمس کے تعلق سے ایک اَور روایت کرسمس ٹری ہے۔ ہر گھر میں درخت کو سجایا جاتا ہے۔ درخت زندگی و اُمید کی علامت ہیں۔ کرسمس ٹری کی سجاوٹ ستارے، موم بتیاں، بیلز، فرشتے، چرنی، بھیڑوں وغیرہ سے کی جاتی ہے۔ سجاوٹ کے سارے سامان کا تعلق حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے واقعہ سے ہے۔

کرسمس روایات میں سجاوٹ کے علاوہ چرچ سرگرمیاں بھی عروج پر ہوتی ہیں۔ فرشتوں، چرواہوں اور مجوسیوں کے ٹیبلوز اور گیت پیش کیے جاتے ہیں جن کی تیاری دسمبر کے آغاز میں ہی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں خاص مقصد کے تحت بیان کی جاتی ہے۔

اناجیل کے بیان کے مطابق یہ وہ دِن تھے جب رومی شہنشاہ قیصر اگوستس نے مردم شماری کا حکم دیا تو مقدسہ مریم (مقدسہ مریم کنواری حالت میں خدا تعالیٰ کی قدرت سے حاملہ ہوئیں) اور مقدس یوسف اپنے آبائی گاؤں بیت لحم میں اپنے اندارج کے لئے آئے اور یہاں پر حضرت عیسیٰ یسوع المسیح کی پیدائش ہوئی (1)۔

مسیحی روایات کے مطابق جس رات حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے اُس رات بیت لحم (یروشلم) کے میدانوں میں چرواہے اپنی بھیڑوں کی رکھوالی کر رہے تھے۔ اُن پر ایک فرشتہ ظاہر ہوا جس نے اِن غریب چرواہوں کو خوش خبری دی کہ جس مسیحا کا انتظار یہودی قوم ایک عرصے سے کر رہی تھی وہ آج بیت لحم میں پیدا ہوا ہے (2)۔ حضرت عیسیٰ کا کنواری مریم، حضرت داؤد کی نسل اور بیت لحم میں پیدا ہونا قدیم انبیا کرام کی پیش گوئیوں کے مطابق ہے (3)۔ فرشتوں نے چرواہوں کو بتایا کہ اس نومولود مسیحا کو بیت لحم کے ایک اصطبل میں دیکھ سکتے ہیں۔ اُس فرشتے کے ساتھ کئی دوسرے فرشتے بھی خدا کی حمد و ثنا کرتے ہوئے ظاہر ہوئے کہ ’’عالمِ بالا پر خدا کی تمجید ہو اور زمین پر اُن آدمیوں کے لئے جن سے وہ راضی ہے صلح‘‘ (4)۔

حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا ایک اَور واقعہ ہے کہ پورب سے چند مجوسیوں نے آسمان پر ایک عجیب ستارہ دیکھا اور ان کے علم کے مطابق یہودیوں میں ایک اہم شخصیت یعنی کہ ایک بادشاہ نے جنم لیا تھا۔ لہٰذا یہ مجوسی یروشلم میں اس اہم شخصیت کو دیکھنے کے لئے آئے۔ مجوسی سفر کرتے کرتے بیت لحم تک پہنچ اور لوگوں سے پوچھا کہ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے۔ مجوسی اپنے ساتھ اس نومولود برگزیدہ شخصیت کے لئے تحائف بھی لائے جن میں سونا، مر اور لبان شامل تھا (5)۔

ان واقعات کی مناسبت سے ستارے، چرواہے، مجوسی، گفٹ، اصطبل، چرنی اور بھیڑ بکریاں کرسمس سجاوٹ کا حصہ بن گئے۔ حضرت عیسیٰ یسوع المسیح کی پیدائش کی خوش خبری امیر اور غریب دونوں کو ملی اور اب یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ کرسمس کے سیزن میں خیرات عروج کو پہنچ جاتی ہے تاکہ اِس خوشی میں پہلے کرسمس کی طرح ہر کوئی شامل ہو سکے۔

ایک اَور روایت سانٹا کلاز ہے۔ مقدس کلاز چوتھی صدی عیسوی میں موجودہ ترکی میں بشپ تھے، اُن کو بہت سی جائیداد وراثت میں ملی تھی۔ مقدس سانٹا خیرات اور غریب بچوں میں اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر کرسمس سیزن میں تحائف دینے میں مشہور تھے۔ سانٹا کو کرسمس فادر یا کرسمس بابا بھی کہا جاتا ہے۔ اِس کردار سے اَور بھی روایات منسوب ہیں۔

ان روایات کے علاوہ مسیحیت جہاں جہاں بھی پہنچی تو اس میں علاقائی روایات بھی شامل ہوتی گئی۔ اہم بات روایات نہیں بلکہ اُس جذبے اور مقصد کی ہے جو ان روایات میں پنہاں ہے۔ آج کرسمس سیزن جہاں سیلیبریشن ہیں تو وہاں انسانیت سے محبت اور ہمدردی کے رشتے کو بھی مضبوط کرتی ہیں۔ المسیح کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو جو بات سب سے زیادہ نمایاں نظر آئے گی وہ ہے رنگ، نسل، جنس اور مذاہب کی حدود و قیود سے آزاد انسانیت کے ساتھ بھلائی۔ المسیح نے اس دَور کے مذہبی شدت پسندوں کی مخالفت کی اور غربا کی حمایت میں آواز بلند کی۔ ’’مسیحا ‘‘ اُن کالقب ہے جو انسانیت سے محبت، ہمدردی اور ترس کے باعث ہے۔ اِسی لئے کرسمس سیزن میں بھلائی کے کام بھی عروج پر ہوتے ہیں۔

پچھلے سالوں میں پاکستان میں بھی مذاہب سے بالا تر ہو کر بھلائی کے کاموں کا آغاز ہوا جن میں ’’دیوارِ مہربانی ‘‘ کا آغاز مختلف علاقوں میں کیا گیا۔ دنیا کے سبھی مذہب انسانیت سے محبت اور بھلائی کا درس دیتے ہیں۔ ہر معاشرے میں انسانیت سے رحم اور محبت کی مثالیں اور روایت موجود ہیں۔ خدا کرے کہ پاکستان میں آئندہ آنے والے سالوں میں انسان دوست روایات کا آغاز نسل اور مذاہب کی حد و قیود سے آزاد ہو کربڑے پیمانے پر ہو سکے۔

غالب کا شعر یاد آ رہا ہے،

ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

(ریفرنس: الکتاب، 1۔ متی 2: 18۔ 25؛ 2۔ لوقا 2: 8۔ 15؛ 3۔ یسعیاہ 11: 1۔ 9؛ میکاہ 5: 2۔ 5؛ متی 2: 1۔ 9 )۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).