ٹرمپ اور یروشلم کا متنازعہ فیصلہ


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد بین الاقوامی سطع پراس کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ یورپی ممالک سمیت تمام مسلم ممالک بھی اس فیصلے پر حیران ششدر دکھائی دے رہے ہیں۔ فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے ایک بیان میں ٹرمپ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ اس کے برعکس فلسطینی صدر محمود عباس نے اس فیصلے کو آڑے ہاتھوں لیا بلکہ پیس پراسس کے ختم ہونے کا عندیہ دے کر یہاں تک کہہ دیا کہ اب فلسطینی آزاد ہیں وہ اپنی آزادی کے لیے ہرممکن جہدوجہد کریں۔

یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کر لینا کوئی غیر معموملی واقعہ نہیں۔ اس فیصلہ کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس ایک فیصلے سے فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے غیر قانونی غاصبانہ اور ناجائز قبضے کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہاں اس امر پر نظر کرنی بھی ضروری ہے کہ یہ فیصلہ اچانک نہیں لیا گیا اس فیصلے کے پیچھے مکمل منصوبہ بندی اور ہوم ورک موجود ہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حالات کو اس نہج تک پہنچایا گیا کہ اس فیصلے کے بعد مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک کی طرف سے کوئی ایک مشترکہ لائحہ عمل سامنے نہ آ سکےاور اگر آ بھی جائے تو اس کا کوئی وزن نہ ہو۔ پچھلے کچھ سالوں میں عرب ممالک کے آپسی جھگڑوں کواس قدر ہوا دی گئی کہ ان ممالک کو خونی جنگ کے دھانے پر لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ آج یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کر لینا دراصل پوری امت مسلمہ کہ منہ پر ایک طمانچہ ہے مگر ہماری حالت یہ کہ تمام مسلم ممالک کے حکمران مل کر ایک مشترکہ بیان جاری کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔

جس او آئی سی کو مسلم ممالک کے مابین اتحاد کا مظہر کہا گیا تھا آج اس کی حالت یہ ہے کہ اگر سیکٹری جنرل کی طرف سے کوئی مزاحمتی بیان جاری ہو بھی گیا تو اس کی اہمیت کیا ہو گی ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔ طیب اردگان نے اسلامی کانفرس کا اجلاس بلانے کی سفارش کی۔ اجلاس کے بعد جو بھی اعلامیہ جاری ہو کیا مسلم ممالک کے آپس کے تعلقات ایسے ہیں کے اس اعلامیہ پر کوئی اقدام ہو سکے۔ کیا ترکی نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات پر نظرثانی کا کوئی عندیہ دیا۔ سچ یہ ہے کہ مسلم امہ کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ طیب اردگان ایک طرف امت کی بات کرتے ہیں دوسری طرف اسرائیلی کمپنیز کو ترکی میں بزنس کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ اسلامی ممالک میں اسرائیلی پالیسیوں کے دفاع کی تمام تر ذمہ داری اپنے کے کندھوں پر سجائے اردگان کس منہ سے اسرائیل کے خلاف بات کرتے ہیں یہ سمجھ سے باہر ہے۔

عرب کے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے کہ اگلے ایک ماہ کے اندر سعودی عرب کی طرف سے ایک عرب ملک پر حملہ ہونے والا ہے اور یقین رکھا جائے یہ حملہ ایران، شام، قطر، یا یمن پر نہیں ہو گا بلکہ اس بار جنگ کے لیے کسی اور عرب ملک کی سر زمین کو چن لیا گیا ہے۔

اپنی باتوں کی سچائی ثابت کرنے کے لیے اگر میں اخباری رپورٹس اور عرب ممالک کہ بدلتے حالات کو بطور ثبوت نقل کرنے بیٹھ جاؤں تو شاید ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے اورمجھے یقین ہے کہ وہ بھی کم پڑ جائے گی۔ عرب حکمران اپنی ذاتی انا اور ذاتی تسکین کے لیے لاکھوں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ ذرا غور کیا جائے تو عربوں کے آپسی تنازعات کی نوعیت اتنی شدید بھی نہیں کہ وہ بات چیت سے حل نہ کیے جا سکیں۔ پوری عرب سرزمین کی باگ دوڑ اس وقت ایک شہزادے کہ ہاتھ میں ہے اور وہی شہزادہ حالات کی خرابی کا ذمہ دار بھی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان اس وقت وہ واحد عرب لیڈر ہے جو حالات کو ٹھیک کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ مگر یہاں حالت یہ ہے کہ موصوف کی کور مشاورتی کمیٹی میں حسنی مبارک کی کابینہ کے وہ وزیر بیٹھے ہیں جو اسرائیل دوستی کی وجہ سے تمام عرب میں بدنام تھے۔

مصر کے سابق صدرحسنی مبارک کے سابق وزیر داخلہ اس وقت شہزادہ حضور کے قریبی ایڈوائزرز میں شامل ہیں بلکہ نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق تو سعودی شہزادوں کی گرفتاری اور پھر ان پر تشدد کی ایڈوائس بھی انہی صاحب نے دی تھی۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کے 3 نومبر کےواقعات میں صرف ان شہزادوں کو کرپشن کر چارجز پہ گرفتار کیا گیا جنھوں نے 2015 سےاپنی کمپنیز کے دروازے اسرائیلی بزنس مینوں کے لیے بند کر رکھے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد کے ساتھ تو موصوف کی دوستی زبان زدو عام ہے۔ انہی کی سفارش پر جناب اس سال ستمبر میں اسرائیل کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔

آج سے دو ہفتے قبل حمود عباس سے اپنی ملاقات میں وہ دیدہ دلیری کے ساتھ اسرائیلی موقف کی حمایت کرتے پائے گئے۔ حماس کو دہشت گرد قرار دینا ہو یا الجزیرہ کی بندش کا معاملہ ہو موصوف کے خیالات اسرائیلی وزیراعظم کے بیان کی مکمل سپورٹ میں ہی ظاہر ہوئے۔ شام اور ایران کے ساتھ تو موصوف کی دشمی کی ایک وجہ کسی حد تک سمجھی جا سکتی ہے مگر لبنان قطر اور حماس کے ساتھ دشمنی سمجھ سے بالاتر ہے۔

اسرائیل شام پر میزائل داغے یا غزہ پر بمباری کرے سعودی عرب کی طرف سے کبھی کوئی مزاحمتی بیان نہیں دیکھا گیا ہاں قطر، ایران، شام، حزب اللہ کے لیے سعودی عرب کا ایک سخت بیان ہر ہفتے اخبارات کی زینت بنتا ہے۔

عربوں کےآپسی جھگڑوں نے حالات کو آج اس جگہ پر پہنچا دیا کہ امریکہ نے اپنے قیام سے اب تک کا سب سے متنازعہ فیصلہ بڑی آسانی اور دیدہ دلیری کے ساتھ کر لیا۔ یہ مظاہرے، برطانوی اور دیگر یورپی حکمرانوں کے بیانات اقوام متحدہ کا اجلاس سب سموک سکرین ہی سمجھیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے امریکہ سے بالاآخر وہ کروا ہی لیا جس کے لیے تمام سازشیں رچی جا رہیں تھیں۔

اب کوئی او آئی سی کا اجلاس بلائے یا یونائیٹڈ نیشنز کا اجلاس جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ جو فیصلہ کل ٹرمپ نے لیا اس کی راہ خود مسلم حکمرانوں نے ہموار کی۔
اس وقت جو حالات امّت مسلمہ کو درپیش ہیں ان کا حل صرف اور صرف آپس کا اتحاد ہی ہے مگر یہاں صورتحال یہ ہے کے آگے آنے والے دنوں میں یہ اتحاد بنتا تو نظر نہیں آ رہا ہاں اگر یہی سب کچھ ہوتا رہا تو مزید بکھرنے کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).