پنجاب کی مہارانی موراں سرکار بھی ایک طوائف تھی


یوں تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی زندگی کی کہانی گھوڑے، شراب اور خوبصورت عورتوں کے ارد گرد ہی گھومتی ہے مگر اس کی مشہور زمانہ گھوڑی کے علاوہ ایک عورت بھی ایسی تھی جس کے حصول کے لئے اس کو بڑی قیمت چکانی پڑی تھی۔ یہ قیمت اس کو ایک طرف غیر سکھ عورت سے بیاہ کرنے پر ہری مندر صاحب کےاکال تخت کے زیر عتاب ہونے کی صورت میں تھی تو دوسری طرف ایک کنجری کو مہارانی کا رتبہ دینے پر شرفاء کی ناپسندیدگی کی شکل میں۔ وہ بھی ضد کا پکا تھا جو اس نے ایسا نبھا کیا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ پورے پنجاب کا حکمران رنجیت سنگھ کا اپنے نام کا کوئی سکہ نہیں تھا وہ خالصہ سرکار کا رائج الوقت سکہ نانک شاہی ہی چلایا کرتا تھا البتہ اس نے اپنی محبوبہ کے نام کا سکہ جاری کرکے ایک طوائف کو موراں سرکار کے درجے پر فائز کیا تھا۔

تخت لاہور پر قابض ہونے سے قبل ہی اپنے لڑکپن میں امرتسر کے گردوارہ ہری مندر کی یاترا کے لئے آتے جاتے مکھن پور کے آس پاس نوجوان رنجیت اس حسن کی دیوی کا پجاری بن بیٹھا تھا۔ یہ بات نہیں کہ وہ صرف گھڑ سواری کے علاوہ اپنی رنگت، حسن و جمال، ناک نقشہ اور قد و قامت میں یکتا تھی بلکہ رنجیت سنگھ اس کی ذہانت اور عقل و دانشمندی پر بھی فریفتہ ہوا تھا تھا۔ رنجیت سنگھ کے دربار میں ایک سے ایک خوبصورت عورت موجود تھی مگر موراں کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کو دیکھتے ہی فقیر عزیز الدین جیسا نابغہ روزگار بھی پانی کے حوض میں غوطے لگانے پر مجبور ہوا تھا۔ انگریز افسران کی بیگمات صرف ان کے دربار میں موجود خواتین کو دیکھنے آیا کرتی تھیں کہ اتنی ساری عورتیں ایک ساتھ کیسے اکھٹی رہ پاتی ہیں اور مہاراجہ ان کے ساتھ انصاف کیسے کرتا ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ بھی اپنے مخصوص انداز کی بذلہ سنجی میں یکتا تھا جو ان سےمذاقاً کہا کرتا تھا کہ اس کو انگریزوں کی شراب اور عورت کے معاملے میں کنجوسی سے اتفاق نہیں کیونکہ ان کی شراب کم مقدار میں ہی نشہ دیتی ہے اور وہ ایک ہی عورت کے ساتھ زندگی کیسے گزارتے ہیں۔

لاہور اور امرتسر کے ظالم سماج سے دور موراں کو مکھن پور گاؤں میں رنجیت سنگھ سے ملنے کے لئے آتے ہوئے ہنسالی کی نہر عبور کرنی پڑتی تھی۔ ایک دفعہ آتے ہوئے جب اس کی جوتی پانی میں بہہ گئی اور وہ ننگے پیر ملنے آئی تو رنجیت سنگھ نے یہاں پل بنوایا جو پل کنجری کے نام سے موسوم تھا جس کا نام بھارت سرکار نے بعد میں بدل کر پل موراں رکھ دیا ہے۔ تخت لاہور پر قابض ہونے کے بعد نوجوان مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شادی کے لئے رشتہ بھیجا تو موراں کے باپ اور اس کی برادری نے پس و پیش کیا اور رضامندی کے لئے سخت شرائط رکھیں۔ رنجیت سنگھ نے تمام شرطیں پوری کیں جس میں موراں کی پوری برادری کو امرتسر کے نزدیک شریف پورہ میں آباد کرکے عزت و تکریم دینا بھی شامل تھا۔ عرب قبائل کی طرح رنجیت سنگھ کی بھی یہ خوبی تھی کہ اس نے جہاں ایک طوائف کو اپنا ہمسفر بنالیا تھا وہاں ایک طرف اپنے دشمنوں کی بیٹی سے شادی کی تھی تو دوسری طرف پنجاب کے سب سے با اثر سردار نکئی کی بیٹی اس کے حرم میں تھی تو وہیں اس کے کتے پالنے والے نوکر کی بیٹی بھی اس کے مستقبل کے وارث کی ماں تھی۔

رنجیت سنگھ کی حکومت خالصہ سرکار کہلاتی تھی جو سکھوں کے سب سے با اختیار اکال تخت کے احکامات اور ہدایات کی پابند تھی۔ اکال تخت کے جتھے دار سردار پھولا سنگھ کو بھی مہاراجہ کی ایک مسلمان لڑکی سے تعلقات اور شادی پر سخت اعتراض تھا۔ اکال تخت کی پنچائت کے رنجیت سنگھ کو بلا کر وضاحت طلب کرنے پر اس نے بلا تامل اقرار کیا کہ موراں اس کی محبوب بیوی ہے اس کی سزا چاہے کچھ بھی ہو مگر اس کو وہ چھوڑ نےکے لئے تیار نہیں۔ اکال تخت نے رنجیت سنگھ کو کوڑوں کی سزا سنا دی مگر ہری مندر صاحب میں آئے زائرین کے دباؤ پر رنجیت کو ایک ہی کوڑا مارکر جرمانہ کرنے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔

رنجیت سنگھ کے حرم میں ایسی بھی عورتیں تھیں جن کو اس کے حرم میں شامل ہونے کے باوجود شاہی رتبہ حاصل نہیں تھا لیکن موراں شادی کے بعد سے سرکاری طور پر مہارانی کہلاتی تھیں۔ رنجیت سنگھ کی اولاد بھی دو درجوں میں تقسیم تھی۔ جن کے بارے میں یقین تھا کہ وہ رنجیت سنگھ کا خون ہے شہزادے اور شہزادیاں کہلاتے تھے چاہے ان کی ماؤں کا درجہ کچھ بھی ہو۔ جس اولاد کے خون کے بارے ان کو شک تھا ان کو محل میں رہنے کی اجازت تو تھی مگر وہ شہزادے یا شہزادی نہیں کہلاتے تھے چاہے ان کی مائیں مہارانیاں ہی کیوں نہ ہو اور موراں کے ہاں اولاد ہونے کا کوئی ثبوت نہیں۔

شادی کے بعد موراں لاہور آگئی اور اپنے لئے حویلی اور اس کے ساتھ مسجد بنوا دی جو مسجد طوائف کے نام سے مشہورتھی اس کا بھی نام اب بدل کر مسجد موراں رکھ دیا گیا ہے۔ رنجیت سنگھ کی دیگر بیویوں کے بر عکس کھلے سربغیر پردہ لوگوں کے سامنے آنے کے باوجود مہارانی موراں مذہبی اور روحانی رجحان رکھنے والی عورت تھی جس نے مادی اور دنیاوی عیش و عشرت پر ہمیشہ اپنے من کی شانتی کو ترجیح د ی تھی۔ اس نے اپنے روحانی استاد جان محمد کے کہنے پر عربی اور فارسی کے علوم کا ایک مدرسہ بنوادیا تھا جو اس زمانے میں بہت زیادہ کارآمد اس لئے تھا ہندوستان کے طلبا کو سینکڑوں میل دور فارس یا ایران کا سفر کرکے علوم سیکھنا ہوتا تھا۔ ان کے دروازے ہمیشہ غریبوں اور مساکین کے لئے کھلے ہوتے تھے۔ رنجیت سنگھ کی غریب پروری اور رفاع عامہ کے کاموں میں موراں کا بہت کردار رہا جس کی وجہ سے لوگ اس کو موراں سرکار کے نام سے یاد کرتے تھے۔ موراں کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے نام کا سکہ ہی نہیں بلکہ ماپ تول کےپیمانے اور باٹ یعنی سیر، پاؤ اور گز وغیرہ بھی اس کے نام سے موسوم تھے۔

موراں نے خودکو عام لوگوں اور مہاراجہ کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنایا تھا، شہر میں کسی کی بھی کوئی حاجت ہو وہ موراں کے پاس جاتا اور وہ مہاراجہ سے حاجت روائی کروا دیتی تھی۔ رنجیت سنگھ کے دربار میں بھی سازشیوں اور بد خواہوں کی کمی نہیں تھی جو ہر وقت اپنے مفادات کی نگہداشت کے علاوہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتے تھے جن کی وجہ سے موراں کا دل جلد ہی تخت لاہور سے اچاٹ ہو گیا۔ حرص و ہوس کی دنیا سے غافل موراں نے اپنی شادی کے دس سال بعد پٹھان کوٹ منتقل ہو کر دنیا کے جھمیلوں سے علحیدگی اختیار کی تھی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے موراں کی ہی نشاندہی پر ایک اور مسلمان خاتون گل بانو سے شادی کی جس کے لئے مبینہ طور پر اس کو ننگے پیر لاہور سے امرتسر جانا پڑا تھا اور گل بانو کا باغ آج بھی لاہور میں اس کی یاد دلاتا ہے۔

یہ واقعہ بھی بیشتر نے پڑھ لیا ہوگا یا سن رکھا ہوگا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے لئے جب سرسید احمد خان، سر آغا خان، علامہ اقبال اور دیگر زعما ء چندہ کرتے ہوئے کسی طوائف سے ملے تو اس نے زندگی بھر کی کمائی ان کے ہاتھ میں رکھ دی اور کہا کہ اس کی کمائی سے اگر علی گڑھ کی یونیورسٹی کے بیت الخلاء بھی بن جائیں تو وہ خود کو خوش قسمت سمجھے گی۔ طوائفوں اور بیسواؤں کے ایسے کئی قصوں سے تاریخ بھری پڑی ہے جب انھوں نے شرفاء سے زیادہ انسانیت کی خدمت کی ہے۔

جب دور حاضر کے زعماء لفظ کنجر اپنے سیاسی و مذہبی مخالفین کے لئے گالی کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو علی گڑھ یونیورسٹی کے بیت الخلاء، کل تک پل کنجری کہلانے والا بھارتی پنجاب میں آج کا پل موراں اور لاہور کی کل تک کی مسجد طوائفاں اور آج کی مسجد موراں احتجاج کرتے ہیں کہ ذات سے کنجر ہونے یا پیشے سے طوائف ہونے میں انسان کا اپنا کوئی دخل نہیں ہوتا البتہ اگر کوئی قول و فعل میں بد کردار ہو تو وہ انسانیت کے منہ پر گالی ضرور بن جاتا ہے۔ جس اصطلاح میں اس پیشے کو گالی بنا دیا گیا ہے اس میں وہ شامل نہیں وہ جو اس پیشے میں پیدا ہوئے بلکہ گالی تو وہ ہیں جو اپنے پیٹ کی خاطر دوسروں کی جان و مال کو داؤ پر لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ان کا ایمان ہے۔

صرف کسی محفل میں ناچنے والے ہی کنجر نہیں ہوتے بلکہ اس میں تو وہ بھی شامل ہیں جو کسی کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ صرف جسم بیچنا ہی برائی نہیں بلکہ اپنے ضمیر کا سودا کرنا اس سے بڑی برائی ہے۔ اپنی زندگی بھر کی کمائی کسی مادر علمی کے بیت الخلاء بنانے کے لئے وقف کرنے والی طوائف ایسے شخص سے کہیں بہتر ہے جس نے عالم دین کا حلیہ بنا کر اور مذہب کے نام کو استعمال کرکے لوگوں کے اربوں روپے اکٹھے کیے اور بنکاک میں جاکر ہوٹل کے نام پر وہی کام کیا جس کا طعنہ وہ اپنے مخالفین کو دیتا تھا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan