اے قبلہ اول ابھی تیرے لیے ہم نے نہیں لڑنا


پشاور میں جمرود روڈ ہے اسے یونیورسٹی روڈ بھی کہتے ہیں۔ یہاں دو بس سٹاپ ہیں ایک کو ارباب روڈ سٹاپ کہتے ہیں دوسرا ابدرہ روڈ سٹاپ کہلاتا۔ ان دو سٹاپ کے درمیان پشاور میں انیس سو ستر میں جدید ترین فلیٹس تعمیر ہوئے۔ یہ جابر فلیٹس اور سیال فلیٹس کہلاتے ہیں۔ سیال فلیٹس کے سامنے کویت ہاسپیٹل ہے۔

کویت ہاسپٹل میں ایمن الظہواری ڈاکٹر کے طور پر نوکری کرتے رہے۔ ارباب روڈ کے پاس ہی وہ مسجد ہے جہاں شیخ عبداللہ عزام جمعہ پڑھایا کرتے تھے۔ شیخ ہی تھے جو اسامہ بن لادن کو افغان جہاد کے لیے پاکستان لائے۔ ارباب روڈ کے اندر جائیں توپانچ منٹ کی واک پر پروفیسر برہان الدین ربانی کا گھر آج بھی موجود ہے۔ سیال فلیٹ کے پیچھے بالکل پہلا گھر مولوی یونس خالص کا دفتر ہوتا تھا۔ گلبدین حکمت یار کا گھر یہاں سے بمشکل ڈیڑھ دو کلومیٹر دور تھا جبکہ صبغت اللہ مجددی کا وائٹ پیلس تقریبا ایک کلومیٹر دور تھا۔

جابر فلیٹس کے سامنے ہی مولانا عبدالباقی کا گھر تھا۔ مولانا سدا بہار وزیر رہے ان کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا۔ الیکشن وہ کوہستان سے لڑا کرتے تھے۔ سنہ اسی کی دہائی میں گلگت بلتستان میں جو شیعہ سنی فسادات ہوئے ان کے حوالے سے مولانا کا بہت ذکر خیر ہوتا رہا۔ فلیٹوں کے یہ دو کمپاؤنڈ وہ علاقے ہیں جہاں زندگی کے ابتدائی تیس سال گزرے۔

یہاں رہنے والے خواہ مخواہ بہت کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھتے رہے۔ استاد سیاف کے ایک کمانڈر ہمارے ساتھ والے فلیٹ میں رہتے تھے۔ ایک گھر چھوڑ کر ایک عرب مجاہد رہتے تھے۔ جمعہ پڑھنے شیخ عبداللہ عزام کی مسجد جاتے تھے۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ وہ بارہ ساڑے بارہ بجے نماز پڑھا دیتے تھے۔ ہمارا فرض ادا ہو جاتا قسما قسم کے مجاہدین کا دیدار بھی ہو جاتا۔ تراویح پڑھنے کویت ہسپتال جاتے تھے۔ وہاں ایک الگ قسم کی اٹریکشن تھی آٹھ تراویح جو چار سے پانچ گھنٹوں میں بھی ختم نہیں ہو پاتی تھیں۔ تراویح کے بعد ایک وتر بھی پڑھایا جاتا تھا حیرت ہوتی تھی کہ ہم کیوں تین پڑھتے ہیں۔ اٹریکشن یہ ہوتی تھی کہ دوران تراویح عرب مجاہد قرات سن کر زار و قطار رویا کرتے تھے۔

ہم لوگ کرکٹ کھیلتے تھے، ہم نمازیں پڑھتے آمنے سامنے ہو جاتے تھے۔ راہ جاتے ایک دوسرے کو سلام کر دیتے تھے۔ تندور پر روٹیاں لینے جاتے تو ایک دوسرے کو لا دیتے تھے۔ تو ایک جان پہچان بن گئی تھی۔ مجاہد جب بیٹھ کر ٹینک اڑانے والے بموں کے ڈیزائن بناتے۔ ہم لوگ پاس ہی مسجد میں بیٹھے اپنی گپیں مار رہے ہوتے۔

بہت تفصیل سے وہ انقلابی منصوبے زبانی یاد ہو گئے جن میں کسی حکومت کو الٹانے کے طریقے بیان کیا کرتے تھے یہی مجاہدین۔ افغانستان میں جہادی کارروائیوں کی ویڈیو بھی دیکھ کر ایمان تازہ کراتے رہتے تھے۔ ایک بار گلبدین کے کیمپ میں ہمیں بڑے فخر سے ایک تازہ کارروائی کی ویڈیو دکھانے کو ایک ایسے سے ہی واقف نے دعوت دی۔

بڑے اہتمام سے جو ویڈیو ہمیں دکھائی گئی وہ غلط تھی۔ دو افغان بہت اہتمام سے ایک خندق میں آگے پیچھے لیٹ کر روسی قافلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ پھر قافلہ ابھی دور ہی ہوتا ہے کہ پیچھے والاجذباتی افغان فائر کر دیتا ہے۔ یہ فائر سیدھا آگے والی کی تشریف کو چھیلتا ہوا کہیں کو نکلتا ہے۔ اب جسے گولی لگی ہے وہ خادم رضوی والا پین دی سری قسم کا کچھ کہتا ہوا نیچے لڑھکتا جاتا ہے۔ ہم دوست ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ مجاہد پہلے غصہ کرتے ہیں، پھر ہنستے ہیں، پھر ہمیں نکال دیتے ہیں۔

جب مشہورمعروف جلال آباد حملہ کیا گیا تو جس طرح سارا دن ایمبولینس سائرن بجاتی زخمیوں کو لایا کرتی تھیں۔ وہ سب ہم اپنے گھروں میں بیٹھ کر چند گز کے فاصلے سے دیکھا کرتے تھے۔ وہ واقف مجاہد مل جاتے تو اس سے پوچھ بھی لیتے کہ یہ جو زخمی ہیں یہ مخالف فوج سے لڑتے ہوئے زخمی ہوئے ہیں یا پھر اس ویڈیو کی طرح ہاتھ سیدھا کرتے ہو گئے ہیں۔

ایک بات جو اب یاد آ رہی وہ جملے ہیں جو یہ مجاہد اپنی فتح اور شکست پر بولا کرتے تھے۔ جب شکست ہوتی تو مسلسل دہرایا والا جملہ یہ تھا کہ فتح اور کامیابی کی فکر ہمارا کام نہیں۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے۔ یہ ڈائیلاگ جب ایک کالعدم تنظیم کے بڑے چھوٹوں سے سنا تو انہیں کہا کہ لگتا تم سب نے پھڑے جانا اب جلدی۔ اللہ کا شکر ہے ہماری منحوس بات ٹھیک ثابت ہوئی، سب ہی اندر ہیں۔ امید ہے خیریت سے ہی ہوں گے۔

افغان جہاد کے ہم خاموش تماشائی رہے ہیں وہ بھی خواہ مخواہ۔ ویسے آپس کی بات ہے ایک بار بارہ سال کی عمر میں گھر سے بھاگ کر کابل تک بھی پہنچ گئے تھے۔ پھر خالصہ سرداروں کی طرح کابل فتح کیے بغیر لوٹ آئے۔ کہنا بس اتنا ہے کہ منہ نہ کھلوائیں۔ بہت پارسا نیک لوگ سچے دل سے اس راہ میں نکلے دیکھ رکھے ہیں۔ وہ بھی اتنے قریب سے ہی دیکھے ہیں جنہوں نے ڈالر جہاد میں آڑھت ہی کی کہ یہی ان کا مقصد تھا۔

بطور اس جہاد کے تماشائی کچھ کہنا ہے۔ پشتو کی ایک مثل ہے کہ ”تماشبین دہ نخے منز وولی“ یعنی تماشبین ہمیشہ ٹھیک نشانہ لگاتا ہے۔ جبکہ نشانہ لگانے والا تیر انداز ٹارگٹ کو ادھر ادھر ہٹ کرتا رہتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کر لیا ہے۔ اس ڈونلڈ ڈک میں ذرا انسانیت ہوتی تو یہ سادہ سا اعلان کرتا کہ بیت المقدس میں اسرائل و فلسطین کا امریکی سفارتخانہ ہو گا۔ امریکی کانگریس کی قرارداد پچانوے میں ہی آ گئی تھی کہ امریکی سفارتخانہ بیت المقدس میں بنایا جائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی پر عمل کیا ہے ذرا سا ڈپلومیٹک ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جلتی پر پیٹرول ڈال دیا ہے۔

مسلمانوں کےجذبات سے کھیلا ہے ظالم نے۔ پر خالی جذبات سے ہوتا بھی کیا ہے۔ ان کا کیا مول لگتا ہے۔ ہم افغانستان میں جہاد دیکھ چکے ہیں، کشمیر میں بھگت چکے، القاعدہ دیکھی، داعش دیکھی۔ ان سب نے رج رج کے مسلمان کٹوائے ہیں۔

اے قبلہ اول ابھی تیرے لیے ہم نے نہیں لڑنا۔ ہمیں کمزور جان کر لڑائی پر اکسایا جا رہا ہے۔ لڑائی ملتوی کر کے سب کو حیران پریشان نہ کر دیں۔ کھانی تو کٹ ہی ہے اب بھی لڑ کے۔ اگر لڑنا ہی ہے تو پھر تب لڑیں جب اتنی طاقت پا لیں کہ خود تسلی سے سب کو پھینٹ سکیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi