ڈیلاس کی اسکرین پر فرنگی ۔۔۔ اور من میں سکھر کی فلم چل گئی


ہمارے یہاں‌ ڈیلاس میں ایک دیسی سینما ہے جس کا نام فن ایشیا ہے۔ فن ایشیا کے زیر نگرانی شادی ہال ہیں، تھیٹر ہیں، لوکل ریڈیو شو ہے اور ایک شاپنگ پلازہ بھی۔ آج میری امی چاہتی تھیں‌ کہ میں‌ ان کے لیے ٹی وی پر مووی لگا دوں‌ کیونکہ انٹرنیٹ نہیں‌ چل رہا تھا۔ انہوں‌ نے کہا کہ نئی مووی فرنگی دیکھنی ہے اور وہ تو ابھی تک ٹی وی پر آئی بھی نہیں‌ ہے تو ہم وہ مووی دیکھنے فن ایشیا کے تھیٹر گئے۔ پیر سے جمعرات تک ایک ٹکٹ خریدیں تو ایک ٹکٹ فری ہوتا ہے۔ میں اور امی سارے تھیٹر میں‌ دو ہی لوگ تھے کیونکہ زیادہ تر لوگ ویک اینڈ پر مووی دیکھنے آتے ہیں۔ ہم نے سموسے اور پکوڑے خریدے اور پیپسی خریدی اور اپنی سیٹوں‌ پر بیٹھ گئے۔ معلوم نہیں‌ کیسے میرے ذہن میں‌ ہماری زندگی کی تمام جدوجہد گھوم گئی کہ کس طرح‌ ہم بہت سارے مشکل وقت سے گزرے اور آج زندگی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

جب میں‌ چھوٹا بچہ تھا تو میرے والد مرزا صاحب نئی ایجادات کو اپنانے والے آدمی تھے۔ ان کے پاس 27 انچ کا کلر ٹی وی تھا جو اس زمانے میں‌ بہت بڑی اسکرین والا ٹی وی سمجھا جاتا تھا، اور فرج، ریڈیو، ایر کنڈیشنر، ٹیلی فون سب چیزیں تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ سکھر میں‌ سارے محلے کے لوگ جمع ہو کر ہمارے ڈرائنگ روم میں‌ ٹی وی دیکھتے تھے کیونکہ وہاں‌ اور کسی کے گھر میں‌ ٹی وی نہیں‌ ہوتا تھا۔ وہ فنون لطیفہ کے شائق تھے۔ چونکہ وہ ایک ہندوستانی آدمی تھے اور ان کی کافی فیملی اب بھی انڈیا میں‌ رہتی ہے اس لیے وہ انڈیا آتے جاتے رہتے تھے۔ جب وہاں فلم ”کبھی کبھی“ نکلی تھی تو انہوں‌ نے تین شو کے ٹکٹ خرید کر وہ فلم ایک ہی دن میں‌ تین مرتبہ دیکھی تھی۔ ان کا پسندیدہ گانا جو وہ کافی سنتے رہتے تھے وہ یہ تھا، ”ہم تمہیں چاہتے ہیں‌ ایسے، مرنے والا کوئی زندگی چاہتا ہو جیسے۔ “ وہ منی بیگم کے گانے بھی شوق سے سنتے تھے۔

ان دنوں‌ ابھی وی سی آر نہیں‌ نکلا تھا اور لوگ سینما میں‌ فلمیں‌ دیکھنے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہماری امی اور ہماری ماسی کی بہو اپنے ڈھیر سارے بچے لے کر کولر میں شربت بھر کر فلم دیکھنے گئے۔ وہ ہمیشہ کہتی تھیں‌ کہ بچوں‌ کو نہیں‌ لے جانا ہے کیونکہ یہ سو جاتے ہیں۔ ہم بہت وعدہ کرتے کہ نہیں سوئیں گے لیکن گرم سکھر میں‌ ٹھنڈے تھیٹر میں‌ اندھیرے میں‌ کب آنکھ لگ جاتی تھی پتا بھی نہیں‌ چلتا تھا۔ شاید ”یہ زمانہ اور ہے“ اور ”کوئل“ وہ آخری فلمیں‌ تھیں‌ جو ہم نے سینما میں‌ جاکر دیکھی ہوں گی۔

جب میں پانچ سال کا ہوا تو ہمارے والد کی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں‌ وفات ہوگئی۔ جب میں‌ کوئی نو یا دس سال کا تھا تو امی نے دوسری شادی کرلی تھی۔ ہمارے سوتیلے ابو جماعت اسلامی کے امیر تھے اس لیے وی سی آر تو دور کی بات، عام ٹی وی کو بھی عریانی فحاشی بڑھانے کے آلات کہا جاتا تھا۔ جب وی سی آر نئے نکلے تو ہمارے ایک دوست نے پچھتر ہزار روپیہ خرچ کرکے وی سی آر خریدا جو اس زمانے میں‌ کافی رقم ہوتی تھی لیکن ان کا وی سی آر ضبط کرلیا گیا اور ان کو تین دن جیل بھی کاٹنی پڑی۔

وہ اپنے گھر ہمیں‌ بلاتے تھے، ان کی امی بہت مزیدار کچوریاں‌ پکاتی تھیں‌ اور ہم سب ملکر انڈین موویاں دیکھتے تھے۔ ان دنوں‌ وی سی آر کرائے پر بھی ملنے لگے تھے جب ساری رات جاگ کر پانچ موویز دیکھتے تھے کیونکہ صبح سی آر واپس چلا جاتا تھا۔ صبح یاد بھی نہیں رہتا تھا کہ کس مووی میں‌ کیا ہوا۔ ہم لوگ ایک دہری زندگی گذار رہے تھے۔ ایک طرف لوگوں کی فکر کہ جماعت اسلامی والوں‌ کی فیملی موویز دیکھ رہی ہے اور دوسری طرف اپنے سوتیلے ابو کا بھی ڈر کہ وہ غصہ ہوں گے تو اس لیے ہم چھپ چھپ کر فلمیں دیکھتے تھے۔ خاص طور پر اگر ابو کہیں‌ شہر سے باہر گئے ہوں‌ تو امی وی سی آر منگوا لیتی تھیں۔

وہ ایک مہنگی تفریح ہوتی تھی۔ بہت زیادہ آمدن نہیں تھی، پھر امی میری اور میری بہن کی پراؤیٹ ٹیوشن پر اپنے بجٹ کا بڑا حصہ خرچ کردیتی تھیں۔ ان کی نظر میں‌ تعلیم کی بہت اہمیت تھی اور وہ سمجھتی تھیں‌ کہ پڑھ لکھ کر ہم اپنے حالات سدھار سکیں‌ گے۔ ان کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ان کی کم عمری میں‌ شادی ہوئی اور کافی سارے بچے بھی اور پھر 24 سال کی عمر میں‌ پہلے شوہر کی وفات ہوگئی جس کے بعد وہ اپنا اور اپنے بچوں‌ کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھیں۔ اسی لیے انہوں نے ہمیشہ مجھے اور میری بہنوں‌ کو یہی سمجھایا کہ زندگی میں‌ تعلیم حاصل کرنا اور اپنے پیروں‌ پر کھڑا ہونا سب سے اہم ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ میری امی نے کبھی مجھے میری بہنوں‌ سے زیادہ توجہ یا اہمیت نہیں دی۔ انہوں نے ہمیشہ میری اور میری بہنوں‌ کی ہمت افزائی کی تاکہ زندگی میں‌ اگر ان کے شوہر مر جائیں، یا انہیں طلاق ہو یا وہ اپنے شوہروں کے ساتھ خوش نہ ہوں‌ تو ان کے بغیر بھی اپنا اور اپنے بچوں‌ کا بوجھ اٹھانے کے لائق ہوں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے تجربے سے سیکھ لیا تھا کہ ایک ایسے معاشرے میں‌ جہاں لڑکیوں‌ کو تعلیم یافتہ اور طاقت ور نہ بنایا جائے وہاں اگر ان کی شادی کسی بھی وجہ سے کامیاب نہ ہو تو وہ واپس اپنے والدین یا بھائیوں‌ کے گھر جانے پر مجبور ہوتی ہیں جہاں‌ وہ اپنے ہی خاندان والوں‌ کی بدسلوکی سہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے تجربے سے سیکھ لیا تھا کہ کس طرح‌ وہی لوگ بدل جاتے ہیں‌ جو کل تک آپ پر انحصار کرتے تھے۔

ضیا صاحب کا زمانہ تھا اور حکومت تمام شہریوں‌ کا ذہن ایک مخصوص طریقے سے بنا رہی تھی جس میں‌ وہ باقی دنیا سے کٹے ہوں‌ اور ان کو اشاروں‌ پر چلایا جاسکے۔ ایک مرتبہ ہمارے سوتیلے والد شہر سے باہر جانے والے تھے۔ طویل منصوبہ بندی کے بعد وی سی آر کرائے پر لیا گیا۔ میں‌ لینے گیا اور جب میں‌ اور وی سی آر کا مالک اپنے سروں‌ پر ٹی وی اور وی سی آر لے کر دروازے پر پہنچے تو میرے سوتیلے والد نے اوپر سے جھانکا۔ ہمیں‌ دیکھ کر بولے کہ یہ کس نے منگوایا ہے شیطانی کارخانہ؟ اس کو واپس کرکے آؤ۔ میں سخت گھبرا گیا کہ اب پتا نہیں‌ کیا ہوگا لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔

اس وقت سیٹیلائٹ ٹی وی بھی نکل چکا تھا، وقت تیزی سے بدل رہا تھا۔ پھر ہم امریکہ شفٹ ہوگئے۔ میری عمر ابھی 18 سال تھی۔ امریکہ آنے کے بعد بہت سارے دھکے کھائے، چھوٹی چھوٹی نوکریاں‌ کیں، خود سے کالج کی فیسیں بھی دیں۔ آخرکار اوکلاہوما اسٹیٹ یونیورسٹی سے بزنس میں‌ ماسٹرز کی ڈگری لی۔ آج بھی مجھے یاد ہے کہ شروع میں‌ چار ڈالر اور پچیس سینٹ فی گھنٹہ کی جاب تھی۔ جب مجھے ایک پے چیک ملا تو میں نے جاکر ایک وی سی آر خریدا۔ پہلے میری امی خرچے کا سوچ کر کچھ حیران اور کچھ پریشان بھی ہوئیں لیکن پھر انہوں نے کچھ نہیں‌ کہا۔

ان دنوں‌ یہاں‌ زیادہ دیسی لوگ ہوتے بھی نہیں‌ تھے، کوئی دیسی چینل بھی نہیں تھے، ابھی انٹرنیٹ بھی نہیں نکلا تھا تو ہم لوگ کبھی کبھار انڈین اسٹور سے فلمیں‌ کرائے پر لا کر دیکھتے تھے۔ سب بہت مصروف تھے۔ سب بچے نوکری بھی کرتے اور پڑھتے بھی تھے۔ وہ ایک مشکل وقت تھا۔ امی نے قریب کے ایک ہوٹل کی لانڈری میں‌ جاب کرلی تھی جہاں‌ سے ان کو چھوٹا سا پے چیک ملتا تھا جس سے وہ اپارٹمنٹ کا کرایہ اور بل دیتی تھیں۔ اس کے علاوہ سب بچے خود کو خود ہی سپورٹ کررہے تھے۔

مجھے یہ باتیں اب آکر پتا چلیں کہ کس طرح‌ امی کی صحت خراب تھی، وہ پیدل کام پر جاتی تھیں‌ اور ان کا مس کیرج بھی ہوگیا تھا۔ یہ باتیں‌ ہمارے کلچر میں‌ بیٹوں کے ساتھ ڈسکس نہیں‌ کی جاتیں۔ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ اس وقت نہ مجھے اتنی سمجھ تھی اور نہ ہی معلومات کہ میں‌ اپنی امی کی مدد کرسکتا۔ میرے خیال میں‌ یہ بدقسمتی ہے اور لڑکے مرد کیسے بنیں‌ گے اگر ان کو خواتین کی صحت اور ماؤں کی جدوجہد اور قربانیوں‌ کے بارے میں‌ کچھ معلوم نہیں‌ ہوگا؟

بیس سال بعد کیسٹ پلیر، وی سی آر، سیٹیلائٹ ڈش، وی سی ڈی، ڈی وی ڈی اور اب انٹرنیٹ پر بہتی ہوئی معلومات کے دھارے کو قتل کرنے کی تمام کوششیں‌ ناکام ثابت ہوئیں۔ اب تو وہ روکنے والے خود ہی سب سے زیادہ ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے اس شیطانی کارخانے کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے میں‌ مصروف ہیں۔ میں سکھر واپس گھومنے گیا اور اپنے سوتیلے ابو سے ملا۔ وہاں میری سوتیلی بہنیں‌ ہندی اور اردو ڈراموں‌ کے چینل بدل بدل کر دیکھ رہی تھیں اور ایک ساتھ ان کو تین چار ڈراموں کی ساری اسٹوریاں پتا تھیں اور ابو جسارت اخبار پڑھتے ہوئے کہانیاں‌ سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے ان سے بیچ بیچ میں‌ پوچھتے کہ ”کیا کہا اس نے؟ “ اور ”اب کیا ہو رہا ہے؟ “

میں‌ اور امی ابھی مووی دیکھ کر گھر پہنچے۔ وہ 1940 کے کولونائزڈ انڈیا کے دیہی پنجاب میں‌ فلمائی گئی تھی۔ امی نے اپنے بھائیوں اور بہنوں اور بیٹیوں‌ سے فون پر بات کرلی، کچھ دیر جاسوسی ڈائجسٹ پڑھا، وہ اچھے موڈ میں‌ تھیں، اب سو گئی ہیں۔ میں‌ یہاں بیٹھا یہ مضمون ٹائپ کررہا ہوں۔ میرے سامنے 75 انچ کا فلیٹ اسکرین ٹی وی ہے جو ایمازون فائر اسٹک سے جڑا ہوا ہے جس پر کوئینٹن ٹارانٹینو کا جانگو ان چینڈ بج رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).