آثار قیامت، صدر ٹرمپ اور یروشلم


صدر ٹرمپ کے حالیہ اعلان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ جیسے ماڈرن ملک میں بھی مذہبی قدامت پسندوں کا خاصہ زور ہے۔ایونجلیکل مسیحی کا اردو ترجمہ نہیں ملا۔ اہل انجیل فرقہ کہہ لیتے ہیں۔ اگر کسی صاحب کو بہتر ترجمہ معلوم ہو تو مطلع فرمائیں۔ اہل انجیل مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد امریکہ میں آباد ہے۔ یہ بائیبل کو حرف بہ حرف مستند اور قابل تقلید سمجھتے ہیں۔ اور اس میں موجود قرب قیامت کی نشانیوں کا بےتابی سے انتظار کرتے ہیں۔ مسیح کی آمد ثانی کے شوقین تو صدیوں سے یہی حسرت لئے رخصت ہوتے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی واعظ اپنے چرچ والوں کو قیامت کی تاریخ بتا کر اخباروں میں شہرت پاتا ہے اور پھر تاریخ گزرنے پر حیرت یا تاسف کا اظہار کر کے چپ ہو جاتا ہے۔ اس کے متعقدین جائیدادیں بیچ ڈالتے ہیں، اپنے بچوں کو سکولوں سے فارغ کرا کر تہہ خانوں میں خوراک ذخیرہ کرتے ہیں کہ دجال کی آمد آمد ہے اور یسوع مسیح یروشلم میں نزول فرمایا ہی چاہتے ہیں۔

مسیحی آثار قیامت کو دیگر مذاہب سے خاصی مماثلت ہے۔ اس سلسلہ میں عہد نامہ جدید میں متعلق مکاشفات کی کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بنی اسرائیل کو تو مدتوں سے مسیحا کا انتظار ہے۔ اور دیگر مذاہب میں بھی ایک مسیحا نما شخصیت کے نزول کے وعدے ملتے ہیں۔ زرتشت، مہاتما بدھ، کرشنا نے بھی واپس آنا ہے۔

یہ تو ہوئیں مذہبی دنیا کی باتیں۔ ٹرمپ صاحب خود تو کوئی مذہبی شخصیت نہیں ہیں، لیکن اسی فیصد سے زیادہ ایونجیلکل مسیحیوں نے انہیں ووٹ دے کر جتوایا ہے۔ اور ان کی اکثریت اسرائیلی ریاست سے ایک مذہبی واسطہ رکھتی ہے۔ امریکیوں کی ایک بڑی تعداد یروشلم کو بنی اسرائیل کے تسلط میں دیکھنا چاہتی ہے کیوںکہ اس کے بعد ہی یسوع کی آمد ثانی کی راہ ہموار ہو گی اور ان کی اور ان کے منکرین کی فیصلہ کن جنگ ہو گی جس کے بعد ایک ہزار سال تک دنیا میں امن کی حکمرانی ہو گی۔

قدامت پسند یہود بھی اسی طرح ایک الگ مسیح کے منتظر ہیں۔ دیوار گریہ اس ہیکل کی آخری نشانی ہے جسے داؤد علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک مسیحا بن کر آنے والے شہزادے نے پھر سے تعمیر کرنا تھا۔ ترقی پسند یہود کے مطابق یہ مسیح اب آنے والا نہیں۔ عہد نامہ قدیم کے وعدے دراصل ایک مسیحائی دور کا استعارہ تھے۔ اور یہ دور آج کل کا دور ہے۔ لیکن جو بھی ہو، یروشلم پر بنی اسرائیل کا دعویٰ نسل در نسل قائم ہے ۔

یروشلم میں اسرائیل کے دارلخلافہ کا قیام ایسا بھی آسان نہیں۔ ایک ملک کے سفارتخانہ کی منتقلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ باقی ساری مغربی دنیا امریکہ سے اس بات پر شاکی نظر آتی ہے۔ لیکن سعودی حکومت کی اس معاملہ میں نرمی پر سخت افسوس ہے۔ لبنان کے وزیر خارجہ جبران باسیل نے عرب لیگ کے اجلاس میں ایسا کمال کا بیان دیا ہے کہ سن کر ان کے لئے دعا نکلتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ یروشلم تمام ابراہیمی مذاہب کے لئے مقدس ہے اور امریکہ کا ایسا یکطرفہ اقدام رد کئے جانے کے لائق ہے۔ انہوں نے عرب ممالک سے امریکہ کے خلاف سفارتی اور معاشی پابندیوں کا مطالبہ بھی کیا۔ جبران صاحب مسیحی عقیدہ رکھتے ہیں۔

دوسری طرف عرب ممالک ہیں جن میں سے ایک حصہ صرف شیعہ تعصب میں امریکہ کی ہمنوائی پر راضی ہے۔ اور دوسری جانب ایرانی بلاک میں شامل ممالک جو سعودی اثر نفوذ کو زائل کرنے پر مصر ہیں۔ اس جھگڑے میں نہ صرف مسلمان معصوموں کو فاقوں سے مارا جا رہا ہے بلکہ ان پر گولہ باری کر کے ان کے گھر، محلے اور قصبے بھی اجاڑے جا رہے ہیں۔ اور اس افراتفری میں ہمارے ایونجیلکل مسلمان بھی ہیں۔ وہ جو القاعدہ اور پھر داعش کے نام پر مسیح کی آمد ثانی کے لئے راستہ صاف کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ داعش کو اپنی جنگ میں جیتنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کا مقصد صرف احادیث میں موجود ان پیشگوییوں کو سچ ثابت کرنا تھا جن کے مطابق دابق یا اعماق نامی قصبوں میں رومیوں اور مسلمانوں کی جنگ مقدر ہے اور اس میں مسلمان شکست کھائیں گے۔ اس کے بعد مسیح کا نزول ہوگا اور دجال اور اس کی فوج کو فیصلہ کن جنگ کے بعد ختم کر دیا جائے گا۔ داعش کی شکست کے بعد اس خبر کو سن کر کچھ لوگوں کی امیدیں ضرور بڑھی ہوں گی کہ یروشلم میں فیصلہ کن معرکہ ہونے کو ہے۔ اس پراپیگنڈے میں آ کر اور جوان اپنی زندگیاں ضائع کر لیں گے۔

تیسری طرف ایران اور مہدی منتظر کے ظہور کا معاملہ ہے۔ ان کے ہاں بی شام میں خونریز جنگ، عراق میں قتل و غارت کے بعد مہدی منتظر دوبارہ ظہور کریں گے۔

سعودی شاہزادہ محمد بن سلمان نے حال ہی میں ایک بیان میں سنہ 1979 کی اہمیت اجاگر کر دی۔ اس سال جہیمان نامی شخص نے اپنے بہنوئی محمد بن عبداللہ کو امام مہدی قرار دے کر کعبہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسی سال امام خمینی نے ایران میں ایک رجعت پسند شیعہ حکومت کی بنیاد ڈالی۔ ان دونوں واقعات نے اسلامی دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ جہیمان اور اس کا مہدی قتل کر دئے گئے اور سعودی فرمانرواوں نے ایران کے خلاف ایک طویل جنگ شروع کی جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ ایک ایسے عذاب میں مبتلا ہے جس سے نجات ناممکن نظر آتی ہے۔

اب تو پڑھے لکھے مسلمانوں کو مسیح کی آمد ثانی اور امام مہدی کے ظہور کی باتیں قصہ کہانیاں ہی لگنی ہیں۔ آسمانوں سے اترنے والے نہ پہلے کسی نے دیکھے، نہ آئندہ کبھی دیکھیں گے۔ اقبال بھی دلوں پر مسیحا کے نزول کی باتیں کرتے ہیں اور مہدی کی باتوں کو مجوسی توہمات قرار دیتے ہیں۔ ابولکلام آزاد، مولانا سندھی اورعبدالماجد دریابادی بھی اس عقیدے سے انکاری معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی تو وجہ تھی کہ القاعدہ میں شامل ہونے والے بظاہر تعلیم یافتہ جوان اسامہ بن لادن کی شکل میں مہدی کے متمنی تھے۔ ابن لادن کو تو ایسی ہمت نہ ہوئی کہ مہدی ہونے کا دعویٰ کر سکے لیکن اس کی تحریک میں جہیمان اور اس کے بہنوئی کی بازگشت ضرورسنائی دیتی تھی۔

یہاں واضح ہو کہ راقم کو مہدی کے ظہور اور مسیح کی آمد سے چنداں انکار نہیں۔ میرے نزدیک یہ پیشگوئیاں استعارہ کا رنگ رکھتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).