تجسس کی ہمکتی چڑیاں اور کتابیں


جانِ جاناں کا منظر بدلنے لگا، کہیں اندر ہی اندر۔
کتابوں کی خوشبو اور ان میں کھو جانے کا غبت نہ جانے کہاں سے سوار ہو گیا۔ پھر یہ مطالعے کا شوق زندگی سے جونک کی طرح چمٹ کر خون چوسنے لگا۔

ابھرتی جوانی کے نامانوس احساسات کے زیر اثر ’راجہ گدھ ‘ بھی پڑھ ڈالا۔ مہینوں اس کیآغوش میں ذات کی گتھیاں سلجھانے میں لگیں۔ جب تک ناول کے کردار خالص انسانی واردات تک محدود ررہے، اچھا لگا۔ لیکن رومانویت اور خود سپردگی کی وارفتگی کے بیچ میں حلال و حرام کے جینیاتی فلسفے نے حلق سے اترنے کا نام نہ لیا۔

پھر کچھ عرصہ بابوں کی خیالی دنیا بسائے کیے رہے۔ لیکن تشکیک کا بپھرا دریا اترنے کا نام نہ لے رہا تھا۔ ہمیں شرارے کی ضرورت تھی، لیکن منزلیں کچھ اور بھی باقی تھیں۔
الم غلم پڑھتے پڑھتے ایک دن کالج کے واحد سٹالن اسٹائل کی مونچھوں والےانگریزی ادب کے پروفیسر نے کہا، ’’عالمی ادب پڑھا کرو۔ ‘‘
سوچا، ہم تو ادب کرنے کے خوگر ہیں، یہ ادب پڑھنا کیا ہوا؟
پھر ایک کے بعد ایک کتاب سامنے آٗئی۔ لفظ بولنے لگے، کچھ کہنے لگے۔

کبھی گورکی کے ناول کا ترجمہ ’ ماں ‘ اور کبھی چیخوف اور ٹالسٹائی پڑھنے کے شوق میں راتیں گزرنے لگیں۔ کافکا کی کہانیوں نے تو دنیا ہی اجاڑ کر رکھ دی۔ انسانیت اور انسانی رویوں کی تھوڑی سی بھی تفہیم نے کہیں کا نہ چھوڑا اور سب سے ہی جدا کر کے رکھ دیا۔ محفل میں ہوتے ہوئے بھی اس کا حصہ نہ رہے۔ رہی سہی کسر عینی آپا نے نکال دی۔ چاندنی راتوں میں ویران صحن میں بچھی ٹوٹی بان والی چارپائی پر بیٹھ کر’ آگ کا دریا ‘ پڑھنا کسی شراب طہور سے کم نہ تھا۔ ایک سرمستی کا عالم تھا۔ اور اس سے پہلے جو ’اداس نسلیں‘ پڑھا تو زندگی کچھ زیادہ ہی بے آب گیاہ ہو چکی تھی۔ شناخت کا بحران کچھ اور ہی شدید ہوا۔ کچھ لٹنے کی لذت اور کچھ مستِی ذات کا عالم رہنے لگا۔

فہرست طویل ہے، لیکن راستے کا ہر ایک باب اپنی اپنی جستجو کی راہ کے انوکھے اور دلربا سنگ میل بن گئے۔ اور ٹھہرنے کا یہاں کسی کو یارا نہ تھا کہ یہ تجسس کا قفل کہلایا۔

اب تو اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے زمانے میں کسی سے پوچھیں کہ کرشن چندر، راجندر سنکھ بیدی، یا اپندر ناتھ اشک کون ہیں؟ تو جواب میں ایسی آنکھیں گھورتی ہیں کہ شاید بڈھا سٹھیا گیا ہے یا پھر پڑوسی ملک کا جاسوس ہے۔

ہماری دادی اماں جب تک زندہ تھیں، ہر جمعرات کو بھٹکے مسافروں کے لئے دعا کرنا نہ بھولتیں۔ ناموں کی ایک لمبی فہرست میں کئی نام ایسے بھی تھے جو ہمارے لئے اجنبی تھے جیسے بہن کلجیت اور ایسے ہی کچھ اور نام۔ جن کے ساتھ ہماری دادی اماں کا بچپن گزرا۔ وہ انہیں بھلا نہ سکیں۔ ایک آہ بھر کر کہتیں، ’’ جہاں رہیں سکھی رہیں، چنگے لوک سن۔ ‘‘

تو یہ ایک صدی سے دوسری صدی کے ملاپ کے بیچ کے کچھ گم گشتہ باب ہیں۔ جو راوی ہیں وہ اب رہے نہیں، جو سننے کا شوق رکھتے ہیں وہ اپنی دکاں بڑھا گئے۔ اب تاریخ انسانی رشتوں کی بجائے ریاستی مفاد کے ناطے لکھی اور مانی جاتی ہے۔

خیر۔ بات ان کتابوں کی ہے جنہوں نے زندگی میں روشنی بھر دی۔ یہ خود سے بولتی نہیں لیکن اپنی گہری اور غیر مشروط سوچ کا بیچ بو دیتی ہیں۔ صرف سوال اٹھاتی ہیں؛حتمی سچائی کا دعویٰ نہیں کرتیں۔ انہیں کسی بابے یا جینیاتی فلسفے کا سہارا نہیں لیکن پھر بھی ایسے زندہ ہیں کہ جیسے حبس زدہ زمانے میں تازہ ہوا کا جھونکا، جو آکے گزر نہیں جاتا بلکہ کہیں اندر ہی اندر پھیل جاتا ہے۔ بالکل حبس زدہ راتوں میں رات کی رانی کے پھولوں جیسی مہک کی طرح۔ اس کے سادہ سے کردار انسانی رویوں کی حامل زندگی کا سبھاؤ سمجھا دیتےہیں۔

یہ کتابیں کہیں دور تک آپ کی روح میں سما جاتی ہیں۔ نہ جانے یہ کیسا جادو ہے۔ پھر آپ ہیں اور آپ کی سوال در سوال لئے تجس کی چڑیوں سے چہکتی دنیا۔ ان کتابوں کی گہرائی سےنہ جانے کون سے موتی نکل آئیں۔ ذرا اس طرف آئیے تو۔

تجسس کی ہمکتی چڑیوں کو علم کا دانہ ڈالنے سے ہی بات بنے گی۔ ورنہ کووں کی بے روح کائیں کائیں سے کان پکنے کی شکایت نہ کیجئے۔ اور یہ کہ زندگی تو سرشام ٹاک شوز سجانے والوں کے سستے بیانیوں کو سننے میں بھی گذاری جا سکتی ہے۔

اتنا تردد ہی کاہے کو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).