بچی کو پڑھانے کے لئے مولوی صاحب کی تلاش


چچا کو تو ہم نے دیکھا نہیں مگر ان کی تصویر کے آگے چچی کو آنکھیں بھگوتے کئی بار دیکھا۔ اپنے گزرے شوہر کو یاد کرنے کے علاوہ ، چچی کے روزمرہ امور میں شامل تھا، ہم محلے کے بچوں کو اپنے باغیچے سے امرود توڑنے سے روکنا، اپنے ملازم ظہیر کو جھاڑنا، محلے کی خواتین کو گھریلو ٹوٹکے سکھانا، پارٹیشن سے پہلے کے ہندوستان کے دیومالائی قصے سنانا، طرح طرح کے ہندوستانی کھانے پکا کر سب گھروں میں بانٹنا اور رات کو اپنے گھر کے باہر محلے بھر کی نئی اور پرانی دلہنوں کے لیے فری کونسلنگ سیشنز کرنا۔ اور ہاں، ان کے پاندان کا ذکر کرنا تو ہم بھول ہی گے۔

چچی اور ان کا پان اسی طرح لازم اور ملزوم تھے جیسے بوتل اور جام، صبح اور شام، قیمہ اور نان یا گرمی اور آم۔ یہ سب چچی کے ذاتی امور تھے اور واللہ ہم کو ان سے کوئی سروکار نہیں تھا مگر چچی میں اتنی روشن خیالی نہیں تھی کہ وہ محلے کے بچوں کی پرائیویسی کا احترام کرتیں۔ اپنی اولاد نہ ہونے کا بدلہ انھوں نے قدرت سے کچھ اس طرح لیا کے اپنے اردگرد کے چالیس گھروں کے بچوں کو اپنی ذاتی اولاد سمجھنا شروع کر دیا۔ ہمارے دنیاوی امور پر تبصرہ اور تنقید تو شام کے کونسلنگ سیشنز کے ذریعے والدہ کے گوش گزار کر دی جاتی مگر بچوں کی دینی تعلیم ان کی ماؤں کے ہاتھوں میں دینے کا رسک چچی نے نہ لیا۔

شام کو، محلے بھر کے بچے چچی کے لونگ روم میں دھر لیے جاتے اور ان کو ناظرہ قرآن یا سپارہ حسب ضرورت سکھایا جاتا۔ ہم بچوں کے حلیوں ، کپڑوں اور حرکتوں سے چچی کو کوئی غرض نہ تھی اور نہ ہی ہمارے والدین کے عقیدوں سے۔ ذات پات کے فرق سے چچی کو کوئی سروکار تھا البتہ “ک ” اور “ق ” کے فرق کو قائم رکھنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی تھیں۔ ایک سفید چھڑی ، جو میری تھیوری کے مطابق شاید اس لیے سفید تھی جکہ چچامرحوم نابینا تھے، کے ذرئیے وہ ہم کو خوب ڈراتی دھمکاتیں مگر کبھی اس کو چلانے کی ہمت ان میں نہ آئی۔ جب کبھی پانی حد سے گزر جاتا اور ہم بچوں کا طوفان بدتمیزی ان کی برداشت سے باہر ہو جاتا تو وہ پان چباتے ہوے کچھ بڑبڑانے لگتیں اور دو صلواتیں ظہیر کو سنا کر ہمیں گھر سے بھگا دیتیں۔

گرمیوں کی چھٹیوں میں چچی اپنے رشتے داروں سے ملنے کبھی کراچی اور کبھی انڈیا چلی جاتیں اور میں اپنی نانی کے پاس ملتان روانہ ہو جاتا۔ چچی کی کمی ملتان میں خالہ پوری کرتیں۔ خالہ کا رشتہ مجھ سے یا میری والدہ سے کیا تھا، یہ تو مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکا مگر ہر بچہ، بوڑھا اور جوان ان کو خالہ کہ کر پکارتا تھا اور یہی بات ان کے خالہ ہونے کی کامل دلیل تھی۔ چچی اور خالہ کے ٹیچنگ سٹائل میں اتنا فرق نہیں تھا مگر بچوں کی تعداد میں اور ناظرہ کے اوقات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

نماز فجر کے فورا بعد یا شاید اس سے بھی کچھ قبل، ان کے گھر حاضر ہونا لازمی ہوتا تھا۔ سورج نکلنے کے بعد پہنچنے والے بچے واپس تو نہ لوٹائے جاتے مگر پڑھنے سے محروم ضرور رہ جاتے۔ وہ سپارہ اپنے گھر کے صحن میں پڑھاتی تھیں، جس کا حجم کسی فٹ بال گراؤنڈ سے کم نہ تھا اور جو بلا معا ضہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں سے کھچا کھچ بھرا رہتا تھا۔ ان باتوں کے علاوہ چچی اور خالہ کی ذاتی زندگیوں میں کچھ باریک سے فرق تھے۔

جہاں چچی کے شوہر ان کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے وہاں خالہ کے شوہر ان کی زندگی میں کبھی آئے ہی نہیں۔ اگر چچی پان کی متوالی تھیں تو خالہ لڈو کھیل کر اپنا دل بہلاتی تھیں۔ ان کی لڈو کے ساتھ تبت سنو کریم، سرمہ اور اخبار جہاں سجے ہوتے اور اگر کوئی کھیلنے والا نہ ملتا تو وہ یا تو ہار سنگھار میں لگ جاتیں یا تین عورتیں تین کہانیاں پڑھنے میں مشغول ہو جاتیں۔ چچی کے گھر سے شام کو اگر پرانے گانے چلنے کی آوازیں آتیں تو خالہ ڈرامہ دیکھا کرتیں۔ جب کوئی اچھی فلم سنیما میں لگتی تو یہ خالہ ہی ہوتیں جو خاندان بھر کی خواتین کو فلم دکھانے لے کر جاتیں۔

پھر نہ جانے کیا ہوا کہ چچی کراچی گئیں تو کبھی لوٹ کر نہ آئیں اور خالہ کو کینسر لے اڑا۔ یوں بھی جیسے جیسے میں ایک کلاس سے دوسری کلاس میں پروموٹ ہوتا گیا، ہمارا ملتان جانا کم ہوتا گیا۔ لہذا والد گرامی کہیں سے ایک مناسب سے مولوی صاحب ڈھونڈ لائے تاکہ قرآن پڑھنے کا سلسلہ جاری رہ سکے۔ مولوی صاحب نے آتے ہی پہلا حملہ ہماری کرکٹ پہ کیا اور شام چار بجے تشریف لانے کا اعلان کر دیا جو ہمارے کھیلنے کا وقت تھا۔

دوسرا حملہ انھوں نے ہماری نیکر پر کیا اور اس غیر شرعی لباس میں پڑھانے سے انکار کر دیا۔ والدہ نے بیچ کا راستہ نکالتے ہوے کرکٹ کا ٹائم پانچ بچے کر دیا اور مولوی صاحب کو اس بات پر راضی کر لیا کے سپارہ پڑھتے ہوے ہماری ٹانگوں پر تولیہ باندھ دیا جاے گا۔ دوران تدریس مولوی صاحب نے ہماری تربیت کے لیے ایک ایک کر کے ہمارے، ہمارے گھر کے، ہمارے محلے کے اور ہمارے ملک کے تمام عیب بیان کرنے کا بیڑا سر پہ اٹھا لیا۔ انہوں نے محرم نامحرم کا فرق ظاہر کیا، لڈو اور کرکٹ کو حرام قرار دیا، پان اور ڈرامے کو شیطانی چال گردانہ اور فلم اور میوزک کو گویا آگ میں کودنے سے مترادف بیان کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر سے لے کر فلسطین تک تمام مسلمانوں کی مظلومیت کے بارے میں فیکٹس اینڈ فگرز کے ساتھ ہماری رہنمائی کی۔

انہی کی بدولت معلوم ہوا کہ فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی جیسے فرسودہ سبجیکٹس ہمیں زندگی میں کوئی فائدہ نہیں دے سکیں گے اور صرف دینی تعلیم وہ بھی کسی مستند عالم کے ذریعہ ہی ہماری نجات کا سبب بنے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ قرآن جیسے عظیم کتاب کو اکیلے پڑھنا تو دور کی بات، ہاتھ لگانا بھی جائز نہیں۔ صرف اور صرف، اس ترجمے والا قرآن جو مولوی صاحب دیں، اس سے دین سیکھا جا سکتا ہے اور وہ بھی مولوی صاحب کی موجودگی میں۔ باقی رہا “ک ” اور “ق ” کا فرق، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑھتا کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ مولوی صاحب نے آخرکار جب ہمارا قرآن “ختم ” کرا دیا تو ہم نے قرآن گھر کے ایک محفوظ اور اونچے کونے میں رکھ دیا۔

کچھ مہینے پہلے جب میری بیٹی پانچ سال کی ہوئی اور بیوی نے بولا کہ زینب کو قرآن سکھانے کا کوئی بندوبست کریں تو میں سوچ میں پڑ گیا۔اب خالہ اور چچی کو کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں کیونکہ چچی کراچی گئیں تو کبھی لوٹ کر نہ آئیں اور خالہ کو کینسر لے اڑا۔ رہے مولوی صاحب تو وہ سینکڑوں کے حساب سے موجود ہیں مگر نہ جانے کیوں اپنی پانچ سال کی بیٹی کے عیب اس کو دکھانے کا ابھی دل نہیں کرتا اور خود سپارہ پڑھا نہیں سکتا۔ کیونکہ صحیح اور غلط کے بارے میں تو کافی حد تک جان چکا ہوں مگر “ک ” اور “ق ” میں ابھی تک فرق نہیں کر سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).