کیا سولہ دسمبر ہر سال آئے گا؟


ہر قوم کی زندگی میں سانحات آتے ہیں، مگر اصل امتحان اقوام کا تب ہوتا ہے جب وہ ان سانحات کا ردعمل دے رہی ہوتی ہیں کہ آیا انہوں نے ان سانحات سے کچھ سیکھا بھی ہے کہ نہیں؟ اگر سیکھا ہے تو لازمی طور پر وہ عمل میں آتا ہے۔

آج سولہ دسمبر ہے۔ آج کے ہی دن آرمی پبلک سکول پشاور میں معصوم بچے خاک و خوں کی نذر ہوئے۔ ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ آخر اس سانحہ سے ہم نے بحیثیت قوم کیا سیکھا ہے؟ ہمارے معاشرے نے اپنے روزمرہ کے معاملات میں اس سے کیا سیکھا ہے؟ ہماری ریاست نے مذہب اور ریاستی معاملات کے باب میں اس سے کیا سبق سیکھا ہے اور نتیجتا ریاستی منصوبہ بندیوں میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں؟ بطور ایک ذمہ دار شہری کے اور بطور ایک عاقل و ہوشیار فرد کے ہم نے اس واقعہ سے کیا سبق لیا ہے اور اپنے رویوں میں کونسی تبدیلی لائے ہیں؟

جواب نفی میں ہے۔ کسی نے کوئی سبق نہیں لیا۔ ریاست اسٹریٹجک منصوبہ بندی میں ہنوز مذہب کو بطور ایک وار بھی اور ڈھال بھی استعمال کر رہی ہے۔ ریاست کا مزاج سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد مزید فاشسٹ ہوا ہے، بجائے اس کے کہ اس میں کمی آتی۔ کیا طالبان ازم کا خطرہ مکمل طور پر ٹل گیا ہے؟ ہر گز نہیں، جب اسباب قائم ہیں تو نتائج کیسے بدلے جا سکتے ہیں؟ جب جڑیں ہنوز فاشسٹ منصوبہ بندیوں سے خوراک حاصل کر رہی ہیں تو تنے، ٹہنیاں اور پتے نکلتے دیر نہیں لگتی۔ بس تھوڑا سا سازگار موسم میسر ہو خاردار جھاڑیاں کہیں بھی نکل سکتی ہیں۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارا سماج مزید تشدد پسند بنتا جا رہا ہے؟ دو دن بیشتر میرا ایک مولوی دوست جو ایک مسجد میں خطیب ہے، مجھ سے کہنے لگا۔ بھائی اب بات کرتے بہت ڈر لگتا ہے کیا معلوم جوش خطابت میں یا لفظوں کے پیچ و خم میں کوئی جملہ ایسا نکل جائے کہ گستاخی کا الزام لگ جائے۔ میں نے پوچھا یہ آگ کس کی لگائی ہوئی ہے؟ اس نے کہا ہاں قصور تو ہمارا ہی ہے۔ میں نے کہا صرف تمہارا نہیں ان کا بھی ہے جو ایک ہاتھ سر پر رکھ کر کہتے تھے تم ہماری پناہ میں ہو اور دوسرے سے پشت بجاتے تھے کہ شاباش بڑھے چلو۔ اب جب دونوں چیزیں چھن جانے کا ڈر ہے کہ کہیں دوسرا فرقہ نہ ان چیزوں سے لطف اندوز نہ ہونے جا رہا ہو جس سے تم لطف اندوز ہوتے رہے تو خوف کیوں آتا ہے؟

آج سے ایک سال قبل کا قصہ ہے۔ ایک سلفی مولانا، اقبال کے اس شعر کی تشریح کرنے کی کوشش میں تھے۔
وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

تشریح میں انہوں نے فقط اتنا ہی فرمایا تھا کہ رسول خدا (صلعم ) جس کام کو ادھورا چھوڑ کر گئے تھے ہم نے اسے پورا کرنا ہے۔ مجمع میں ایک شخص جسے میں جانتا بھی تھا کہ نشئی ہے اور چوریاں کرتا ہے کھڑا ہوا، کہتا ہے۔ اوئے گستاخ مولوی، کیا بکتا ہے، رسول خدا اپنا کام ادھورا چھوڑ کر گئے تھے اور تو اسے پورا کرے گا؟ تیری ماں۔ اور اس کے بعد مولانا کیسے بھاگے وہ ایک خوفناک منظر تھا۔ انگارے برساتی نگاہیں اور مشتعل ہجوم میں نہیں بھول سکتا۔

سولہ دسمبر بھی نہیں بھلایا جا سکتا اور مشال خان بھی نہیں۔ بی بی سی اردو کے پروگرام سیربین میں ایک لڑکی سوال کرتی ہے، آخر ہم پاکستان شہری اپنے ملک کی پالیسیز کا جائزہ نہیں لیں گے اور تنقید نہیں کریں گے تو پھر اور کون کرے گا؟ کیا دوسرے ملک کے لوگ؟ سوال یہ ہے ایسے سوالات پوچھنے کی نوبت کیوں آئی؟ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ریاستی منصوبہ بندیوں پر تنقید کرنے والے ہمارے وہ نوجوان جو ہر گز نہیں چاہتے کہ سولہ دسمبر والا واقعہ دوبارہ ہو یا کوئی مشال خان یوں بے دردی سے مارا جائے، انہیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں وہ اٹھا نہ لئے جائیں ان نامعلوم لوگوں کے ہاتھوں جو اس ملک میں شاید ریاست سے بھی زیادہ طاقتور ہیں کہ ان گمشدہ لوگوں کے عزیزو اقارب کی چیخیں اور التجائیں ریاست کے کسی ستون کے کانوں کے پردوں میں ذرا بھی انتشار پیدا نہیں کرتیں۔

ہمیں سولہ دسمبر نہیں جگا سکا، اسی ہزار معصوم لاشے نہیں جگا سکے۔ مشال خان کا قتل نہیں ہوش دلا سکا۔ پوری دنیا میں ہمارا بطور ایک سرکش ریاست کے تشخص ہمیں ہوش کے ناخن لینے کے لئے نہیں اکساتا۔ غربت و غلامی جو اس ملک کے شہریوں کی پیشانی پر داغ دی گئی ہے ہم اسے پڑھنے سے قاصر ہیں۔ اس سارے منظر میں تصور کیا جا سکتا ہے کہ ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا کیا مستقبل ہو گا؟ ذرا سوچئے

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan