زندہ لاشوں کی ہجرت ۔۔۔۔ انیسہ بیگم کی زبانی


کراچی کے علاقے قصبہ کالونی میں دو کمرے کے کرائے کے مکان میں رہنے والی انیسہ بیگم اب بھی ماضی کی تلخیوں کو لاکھ کوششوں کے باعث بھلا نہ پائیں۔ میری ملاقا ت ان سے ان ہی دنوں 2015 میں ہوئی تھی۔ 1971 کی جنگ میں انھیں اپنا بھرا پرا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ ڈھاکہ سے نکلتے وقت وہ کچھ رقم، زیور اور کپڑے لیکر ایک ایسے نامعلوم منزل کی تلاش میں نکلیں جس میں سامنے صرف اور صرف موت رقصاں تھی۔

 1947 میں، میں بارہ برس کی تھی ہمارا خاندان بہار سے تھا تو تقسیم کے وقت ہم نے مشرقی پاکستان جانے کا فیصلہ لیا کیونکہ میرے تایا، پھپیاں خاندان کے سب لوگ وہیں جا رہے تھے، اس لئے ہمارا اگلا ٹھکانہ اب وہیں تھا۔ میں بچی تھی لیکن مجھے ہجرت کا وہ طویل سفر اور سب کچھ چھوڑنا یاد ہے۔ میری اصل زندگی تو وہاں شروع ہوئی جہاں ہم نے اپنا دوسرا گھر بنایا۔ میرے تایا اور ابا جو بچا کچا مال و اسباب ساتھ لانے میں کامیاب ہوئے اس سے انھوں نے کاروبار شروع کیا۔ اللہ نے ہم پر کرم کیا اور اس کاروبار میں برکت بھی ہوئی حالات پہلے جیسے ہو گئے۔ میری شادی پندرہ برس میں ہوگئی، جلد ہی ماں بن گئی اور اپنے پانچ بچوں کے ساتھ زندگی بھاگتی دوڑتی سی محسوس ہونے لگی۔ میرے شوہر کی ڈھاکہ میں بہت بڑی دکان تھی اور سسرال اناج کا کاروبار کرتا تھا۔ پیسے کی کبھی کمی نہ رہی۔ ایک بڑا سا گھر جس میں میرے دو دیور اور دو جیٹھ اپنے کنبوں کے ساتھ رہ رہے تھے ہر وقت بچوں کی چیخ و پکار، کھیل کود کی رونق سے بھرپور دکھائی دیتا تھا۔ ہم جس محلے میں آباد تھے وہاں ہمارا گھر چاول والے کے نام سے جانا جاتا تھا اور اسکی مانگ مغربی پاکستان میں بھی تھی۔ لیکن اس گھر میں رہتے ہوئے بھی ہندوستان والے گھر کی یاد ستایا کرتی تھی، اپنی سہیلیاں، پڑوسی یاد آیا کرتے تھے۔ ہجرت کے دوران ہمارے دادا وفات پاگئے تھے جبکہ ایک تایا جو آزادی کی جنگ میں نہ جانے کب سے شریک تھے لاپتہ ہوگئے۔ دادا جان اور تایا کی یاد کوئی بھلا نہ سکا، دل میں یہ خلش بھی تھی کہ دادا کی تدفین جہاں ہوئی وہاں کوئی جا نہیں سکتا اور یہ امید کہ کیا ایسا ہوجائے کہ لاپتہ تایا جان سے کوئی ملاقات ہو جائے۔

میں پڑھی لکھی تو تھی نہیں نہ ہمارے یہاں خواتین کو مردوں کے ساتھ بیٹھ کر حالات پر بات کرنے بلکہ کوئی سوال کرنے کی اجازت تھی ایسے میں تو کچھ معلوم ہی نہیں تھا کہ گھر کے مرد کیوں سر جوڑے بیٹھے ہوتے ہیں کیا بات انھیں پریشان کر رہی ہے۔ ہمارے محلے میں ایک اور کاروباری گھرانہ تھا جو چنیوٹی برادری سے تعلق رکھتا تھا ان کے گھر سے ایک دن کچھ خواتین آئیں تو معلوم ہوا کہ حالات بگڑ رہے ہیں۔ اس شام میں نے اپنے سسر کو جنرل ایوب خان کو برا بھلا کہتا سنا۔ بھٹو سے بھی وہ کچھ نالاں نظر آئے بھارت سے تو انھیں ویسے ہی بیر تھا۔ اب سیاست کیا بلا ہے ہم عورتیں کیا جانیں۔ ہمارا آدھا دن باورچی خانے میں اور آدھا دن گھر کے مردوں اور بچوں کی خدمت میں گزر جاتا تھا۔

مجیب الرحمن کی بھارتی نیتاوں سے ملاقاتیں، اور ایوب خان کا سب کچھ مغربی پاکستان کو سمجھنا مشکلات میں اضافہ کر رہا تھا۔ جب حالات حد درجہ بگڑنے لگے تو میں نے ہانڈی روٹی کے علاوہ اب کان لگانے شروع کئے کہ میرے میاں، سسر، جیٹھ، دیور کن باتوں سے پریشان ہیں۔ پہلی بات جو معلوم ہوئی وہ یہ کہ آس پاس کے محلے کے کچھ لڑکے لاپتہ ہیں اور وہ جنگ لڑنے کی تیاری کرنے گئے ہیں۔ وہی محلہ جس میں سب مل کر رہتے تھے اب دلوں میں فاصلے بڑھنے لگے۔ اس روز خوف محسوس ہوا جب معلوم ہوا کہ چنیوٹی فیملی نے مغربی پاکستان واپس جانے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔ میں نے اس روز اپنے شوہر سے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ کیا ہمیں بھی گھر چھوڑنا پڑے گا؟ تو انھوں نے مجھے بغور دیکھا اور کہا شاید نہیں۔ دعا کیا کر نیک بخت سب صحیح رہے حالات قابو میں آجائیں۔ ہجرت کی تکلیف اور اپنوں کے بچھڑنے کا غم میں کچھ برس قبل دیکھ چکی تھی ابھی تو وہی زخم تازہ تھے اور کچھ دیکھنے کی سکت تو دور سوچنا بھی نیند اڑا دیتا تھا۔

1970 میں مجیب الرحمن کو بھاری اکثریت سے فتح ملی لیکن اسے نہیں تسلیم کیا گیا تو ایسا محسوس ہوا کہ اب سب ختم ہوجائے گا۔ نہ جانے کیا کیا باتیں کی گئیں کیا کیا لکھا گیا مجھے نہیں معلوم! لیکن ان سب میں، میں نے جو دیکھا وہ بہت کرب ناک تھا پہلا کرب تب محسوس ہوا جب چنیوٹی برادری کی بیٹی جو کالج کی طالبہ تھی لاپتہ ہوئی اور پھر زیادتی کا نشانہ بنا کر اس کی لاش پھینک دی گئی۔ کاروبار بند ہونے لگے اپنے ہی پڑوس میں رہنے والے بنگالی خاندانوں کے لہجے میں کڑواہٹ، آنکھوں میں خون اترے دیکھا۔ گھر کے ہر فرد کو ڈرا اور سہما دیکھا۔ جو مرد کام کی غرض سے باہر اور گھروں میں کاروباد کا حساب کھولے بیٹھے ہوتے تھے اب گھر میں ہی محدود ہوگئے ایک دوسرے سے الجھنے لگے، کاٹ کھانے کو دوڑنے لگے، بچوں کی چہکار سے بھرا آنگن بھی اب خاموش سا دکھائی دیتا تھا۔ کوئی راستہ کوئی منزل نہ دکھائی دیتی تھی نہ تدبیر سجھائی دیتی تھی۔ جب یہ خبر آئی کہ چٹاگانگ میں کئی بہاریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے تو ایسا محسوس ہوا کہ ہمارے گھر کی شاید اب کوئی دیوار نہیں کوئی چھت نہیں۔

اپریل کا پہلا ہفتہ تھا جب حالات مزید ابتر ہونے لگے ہمارے گھر فیصلہ ہوا کہ ہم اب مزید یہاں نہیں رہ سکتے اب یہاں سے نکلنا ہوگا۔ اس بات پر کوئی متفق نہ ہو سکا۔ میرے دونوں جیٹھ ہجرت پر قائل اور سسر، شوہر دیور خلاف تھے۔ اب راستے بند ہو چکے تھے، گرفتاریاں، جلاو گھیراو، لوٹ مار کی وارداتیں بڑھ چکی تھیں، اگر نکلتے بھی تو کیسے؟ کہاں جاتے؟ کیسے جاتے یہ ایک بڑا سوال تھا۔ اس روز میں نے پہلی بار اپنے ابا سے یہ کہنے کی جسارت کی ابا کیا تھا کہ ہم ہجرت کر کے مغربی پاکستان چلے جاتے یہاں کیوں آبسے؟ کیا اب دوسری نسل کو کٹتا مرتا دیکھنا گوارا ہوگا آپ کو؟ ابا کو اس روز کمزور پایا۔ میرے ایک تایا سرکاری نوکری کی غرض سے کراچی میں رہ رہے تھے وہی ایک آخری امید تھے کہ کوئی راستہ بتا سکیں۔

اس اثنا میں رابطے میں تعطل رہا اور پھر ایک دن ہم نے بھی اس جنگ کی قیمت اپنے دو دیوروں کی موت کی صورت میں ادا کی۔ یہ ایک ایسا غم تھا جس نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا۔ نومبر شروع ہوچکا تھا شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جو خانہ جنگی، تباہی، لوٹ مار، قتل و غارت سے محفوظ رہا ہو۔ بنگالیوں کے دلوں میں برسوں سے پلنے والی نفرت اب آگ بن چکی تھی اپنے راستے میں آنے والے ہر غیر بنگالی کو وہ مٹا دینا چاہتے تھے۔ ایسے میں ہمارے ہی ایک محلے دار جو بنگالی ہی تھے انھوں نے ہمارے لئے کسی محفوظ جگہ کا انتظام کیا نہ جانے اس بات کی مخبری ہوئی یا کیا کچھ ناراض بنگالیوں نے ہمارے گھر پر حملہ کردیا لیکن جواب میں ان ہی کے ہم زبانوں نے ہمیں بچایا بھی۔ جو گھر ایک ہفتہ بعد چھوڑنا تھا وہ اسی رات چھوڑ کر جانا پڑا۔

ایک بار پھر ہجرت تھی، وہی خونریزی، وہی کالی رات تھی۔ اس بار منظر صرف اتنا بدلا کہ وہاں سکھوں اور ہندوں سے جان اور عزت بچاتے آئے اس بار اپنے ہی بھائی جان و مال اور عزت کے دشمن بنے بیٹھے تھے۔ اس وقت میں بارہ برس کی تھی اور میرے ماں باپ مجھے چھپاتے ہوئے محفوظ مقام تک عقاب کی نگاہ لئے چلے جارہے تھے یہاں اس بار میں نے اپنی پندرہ اور بارہ برس کی بیٹی کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ میں نہیں یاد کرنا چاہتی کہ ہم کہاں کہاں رکے، کیا کیا دیکھا او ر کیا سہا۔ کسی نے تحفظ دینے کا وعدہ کر کے بھاری تاوان مانگا تو کسی نے دو روز گھر میں پناہ دینے کے عوض زیور وصول کیا تو کوئی ایسا بھی تھا جس نے ہمیں بچاتے ہوئے اپنے ہی بنگالی بھائیوں کے سامنے سینہ تان لیا۔ بس اتنا کہوں گی کہ خدا مردے کو دفنانے کا ایسے ہی نہیں کہتا وہ اس کی عزت و تکریم کرتا ہے۔ میں نے تو ان آنکھوں سے لاشیں پانی کے جوہڑ میں، سڑکوں اور گلیوں میں گلتے سڑتے اور کتوں کی خوراک بنتے دیکھی۔ ہم نے اپنی جان کی قیمت کے عوض اپنا گھر بار دیا، جوان لاشیں دیں، کئی کئی بار زندگی کی بھیک مانگی، چھپتے چھپاتے، ذلت اٹھاتے آخر کار دوسری ہجرات کرتے ہوئے مغربی پاکستان آن پہنچے۔

آپ سب کے سب لوگ بحفاظت پاکستان پہنچے تھے؟ میرا اگلا سوال شاید اتنا بھیانک تھا کہ ایک طویل خاموشی کے بعد مجھے جواب ملا ”نہیں”۔۔۔ اس ہجرت میں میری بڑی بیٹی اور جیٹھانی کی دو بیٹیاں اغوا کر لی گئیں۔ ڈھاکہ سے آنے کے بعد ہم اورنگی ٹاون آبسے میرے شوہر مستقل بیمار رہنے لگے لیکن ایک مارکیٹ میں حساب کتاب کا کام پکڑ لیا۔ بیٹے بھی کم عمری میں گوداموں میں لوڈر کا کام کرنے لگے۔ پھر دسمبر 1986 میں علی گڑھ کالونی کے فسادات ہوئے تو اس کی زد میں ہم بھی آئے میرا ایک بیٹا کام پر گیا کبھی واپس نہ آیا، افواہیں گرم تھیں کہ گھروں سے جوان بچیاں اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔ میں نے اپنی بیٹی کی اور زیادہ حفاظت کرنا شروع کردی وہ اور میں سقوط ڈھاکہ میں اپنی لاڈلی کے بچھڑ جانے کا غم ویسے ہی روز مناتے تھے اب یہ حالات دیکھ کر زخم اور تازہ ہوگئے اور پھر ان ہی فسادات کی ایک صبح وہ اپنی چارپائی پر مردہ ملی۔ ڈاکٹر نے بتایا اس کا دل بند ہوگیا شاید خوف اور دہشت سے یا شاید خدا نے اس کی سن لی تھی۔ 90 میں، میں بیوہ ہوگئی۔ شوہر تو میرا آدھا 71 میں اور پورا 86 میں ہی مر گیا تھا علیگڑھ واقعے سے لیکر مرنے تک وہ کچھ بولتا ہی نہ تھا بس چارپائی پر لیٹا چھت کو گھورتا رہتا تھا اور کبھی کبھی ٹھنڈی آہ بھر کر کہتا تھا نیک بخت دعا کر حالات اچھے رہیں اب کہیں نہیں جانا مجھے۔ اب تو میرے پاس قربان کرنے کو کچھ بھی نہیں رہا۔

آٹھ دہائیاں دیکھنے والی انیسہ بیگم بہت ضعیف دکھائی دے رہی تھیں ان کے ہاتھوں اور چہروں کی ایک ایک جھری ان کی تکالیف چیخ چیخ کر بیان کر رہی تھی۔ اب ان کا ایک بیٹا بس چلاتا ہے اور دوسرا فیکٹری میں ملازمت کرتا ہے۔ پوتے پڑھتے ہیں اور پوتیاں اپنی ماوں کے ساتھ گھر میں لفافے بنانے اور کپڑوں پر موتی ستارے ٹانکنے کا کام کر تی ہیں۔ شاید وہ اتنا کچھ دیکھ چکیں کہ اب ان کو سامنے بیٹھا شخص بھی صاف دکھائی نہیں دیتا۔ میں جب بوجھل دل کے ساتھ اٹھ کر جانے لگی تو انھوں نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا بیٹا یاد رکھنا جب کسی کو کمتر جانا جائے، اس کی عزت نفس مجروح کی جائے، اس کے حقوق کی پامالی ہو اسے انسان تک نہ سمجھا جائے تو یہ قرض زیادتی کرنے والے نہیں قوموں کے بیٹے بیٹیاں سود سمیت اتارتے ہیں، اور ان ہی کی لاشیں جلتی ہوئی نفرت کے انگاروں سے بھری گلیوں اور چوراہوں پر آوارہ کتے اور بھوکے گدھ نوچ نوچ کے کھاتے ہیں، اور جو بدبخت بچ جائیں وہ زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔ پھر دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے بولیں کہ خدا سب کے دلوں کی آگ کو ٹھنڈ ا رکھے، سب کے گھر آباد رہیں، کسی کو اپنے ہی وطن سے اجنبی ہوکر ہجرت نہ کرنی پڑے۔

(یہ ایک حقیقی کہانی ہے صرف انیسہ بیگم کا نام فرضی ہے)

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar