71کی جنگ اور جنرل نیازی کی عظیم دانشمندی


 

1971  میں میرے چھوٹے سے گاؤں کے اکلوتے پرائمری سکول میں بچوں اور بچیوں کی کل تعداد ساٹھ کے لگ بھگ ہوتی تھی۔ اور جب بنگال میں جنگ بندی کا اعلان ہوا تو میرے گاؤں کے اکیس نوجوان لاپتہ تھے۔ “لاپتہ” ہونا شہید ہونے سے کہیں بہتر تھا۔ اس میں زندگی کی امید تھی۔ لیکن پھر بھی صف ماتم پورے گاؤں میں بچھی تھی۔ پورا گاؤں غم مین ڈوبا ہوا تھا۔ تمام لوگ لا پتہ فوجی نوجوانوں کے بخیریت قید ہو جانے کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ کسی کو جنگ کے نتیجے کی فکر تھی نہ کوئی اپنے بیٹوں کے شہید ہونے کی تمنا کرتا تھا۔ گلی میں جب دو لوگوں کا ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوتا تو سلام کی بجائے دعائیں ہی دیتے تھے۔ بوڑہی مائیں صرف اپنے بچوں کے لئے خیریت کی دعائیں نہیں مانگتی تھیں بلکہ اپنے جیسی تمام ماؤں کا دکھ سمجھتی تھیں اور سب کے لئے خیریت کی دعائیں مانگتی تھیں۔ اس کے لئے وہ “کل جہان دیاں ماواں” کے الفاظ استعمال کرتی تھیں۔ خبروں کے ذرائع بہت کم تھے لیکن پھر بھی لوگوں کے کان اور دھیان “خیریت” کی خبروں کی طرف ہی رہتے تھے۔

گاؤں کا ایک پڑھا لکھا آدمی جس کا اپنا چھوٹا بھائی بھی لا پتہ تھا ہر روز کہیں شہر جاتا اور اخبار لے کر آتا۔ اخبار میں جنگی قیدیوں کی لسٹیں دی گئی ہوتیں۔ چھوٹا چھوٹا لکھا ہوتا تھا جیسے میٹرک کا رزلٹ کبھی اخبار میں چھپتا تھا۔ درجنوں لوگ، مرد اور عورتیں، اکٹھے بیٹھتے اور مٹی کے تیل والی لالٹین کی لو میں ساری لسٹیں بآواز بلند پڑھی جاتیں۔ جب کوئی نام ہمارے گاؤں کے لاپتہ سپاہی کے نام سے میچ کر جاتا تو پھر بھرپور تجسس اور دعاؤں کے ساتھ اس کا فوجی نمبر چیک کیا جاتا۔ اگر دونوں میچ کر جاتے تو وہیں ایک جشن ہو جاتا۔ لوگ ایک دوسرے کو گلے ملتے اور مبارک بادیں دیتے۔ بچے ان کے گھر کی طرف دوڑ لگاتے تا کہ گھر میں موجود لوگوں کو بھی یہ خوش خبری دی جائے۔ جنگی قیدی ہونے کا مطلب تھا کہ ابھی زندہ ہے۔ اور واپس آنے اور ملنے کی امید باقی ہے۔ کئی ہفتے اسی کسمپرسی میں گزر گئے۔ دعائیں جاری رہیں۔

ماؤں کی دعائیں قبول ہوئیں اور پورے اکیس نوجوان جو بنگال میں لاپتہ تھے آہستہ آہستہ ان کے نام جنگی قیدیوں کی لسٹوں میں ظاہر ہو گئے۔ گاؤں میں ایک سکون سا آ گیا۔ ہمارے پیارے نوجون ابھی زندہ تھے۔ مائیں اب جنگی قیدیوں کی رہائی اور بخیریت واپسی کی دعاؤں میں مشغول ہو گئیں۔

سب خیریت بہرحال نہیں تھی۔ جنگ ختم ہونے سے پہلے ہمارے ایک نوجوان کو کھا گئی تھی۔ ایک ماں کی باقی زندگی صرف رونے تک محدود کر گئی۔ ایک جوان خاتون بیوہ ہو گئی اور وہ بیوگی کے دکھ کے ساتھ ساتھ دو بچوں کی پرورش کی فکر میں گھلنے لگی۔ اس شہید نوجوان کا بھائی جنگ کے 45 سال بعد بھی بین ڈالتا ہے “قسمت آلے نے اوہ جنہاں نوں گراں وچ قبراں نصیب ہوئیاں” (وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہیں اپنے گاؤں میں دفن ہونا نصیب ہونا) اور سارے مجمے کو رلا دیتا ہے۔ بتاتا چلوں کہ بنگال میں شہید ہونے والے نوجوان کی میت واپس نہ آ سکی لہٰذا گاؤں کے قبرستان میں اس کی قبر نہیں ہے۔

قیدیوں کی واپسی میں کوئی تین سال لگ گئے۔ ان تین برس میں گاؤں میں شاید ہی کوئی شادی کی تقریب ہوئی ہو۔ کبھی ڈھول نہیں بجا، کوئی گھڑولی نہیں بھری گئی، کسی نے مہندی نہ لگائی، کوئی سمبی نہیں ہوئی، کوئی پینگ نہیں ڈالی گئی، کبڈی کا میچ نہیں ہوا۔ بس ایک انتظار اور امید کے سہارے زندگی محض ضرورت کی لکیر کے برابر چل رہی تھی۔ انتظار میں بیٹھی ہوئی ماؤں میں سے کئی اپنے بیٹوں سے ملاقات کی خواہشوں سمیت ہی دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ ایسی ماؤں کے مرنے کا دکھ عام موت کے دکھوں سے کہیں زیادہ ہوتا۔ ہر کوئی کہتا کہ “اودری” ہی چلی گئی اپنے بیٹے کو سینے سے لگائے بغیر (بیٹے کے فراق میں چلی گئیں)۔

دکھ صرف ماؤں یا عورتوں تک محدود نہ تھا۔ مرد، باپ اور بچے بھی اس میں گھلے جا رہے تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔ ہم نے بہت سے بوڑھوں کو اپنے بیٹوں کی یاد میں گلوکاری کرتے دیکھا۔ گلیوں اور کھیتوں میں دکھی گیت گانے کا رواج سا پڑ گیا تھا۔

جنگی قیدی واپس آنے شروع ہوئے تو جیسے زندگی کی خوشیاں لوٹ آئیں۔ ہر قیدی کے گاؤں واپس پہنچنے پر جشن کا سا سماں ہوتا۔ سارا گاؤں استقبال کے لئے کھڑا ہوتا۔ جب سارے جنگی قیدی واپس آ گئے تو گاؤں کی زندگی کافی حد تک معمول پر آ گئی۔ خوشیاں واپس آ گئیں۔ زیادہ تر جنگی قیدیوں نے اپنی فوج کی نوکری چھوڑ دی لیکن کچھ نے جاری بھی رکھی۔ یہ سب معمول کی باتیں تھیں۔

جنگ کے حوالے سے لوگ فوج اور حکومت کی صرف ایک بات پر اطمینان کا اظہار کرتے تھے اور وہ تھی ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ۔ یہ فیصلہ ہی لوگوں کی زندگیوں میں خوشیاں واپس لایا تھا۔ میں نے اپنے گاؤں میں کبھی کسی کو ہتھیار ڈالنے کے فیصلے کے خلاف بات کرتے نہیں سنا۔ ہتھیار ڈالنے کے فیصلے کو کبھی کسی نے بے غیرتی یا بے عزتی سے نہیں جوڑا۔ جن کے جوان بچے بارڈر کے اگلے مورچوں میں ہوتے ہیں وہ جزبات اور جھوٹی انا سے نہیں، عقل اور دانشمندی سے کام لیتے ہیں۔ سب لوگ دل سے جنرل امیر عبداللہ خان نیازی صاحب کے احسان مند تھے کہ انہوں نے عظیم دانشمندی سے کام لیا اور بنگال میں جنگ جاری نہ رکھنے کے فیصلے سے لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik