اب سولہ سال بھر نہیں آئے گا


46 برس سے 16 کا ہندسہ میرے سینے پر ہر دسمبر میں مونگ دلنے آ دھمکتا ہے۔ 43 برس تک میں یہی سوچتا رہا کہ ایسا معجزہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ دسمبر کے مہینے میں 15 کے بعد 17 آ جایا کرے یا دسمبر کم ازکم فروری ہی بن جائے جس میں 29 تاریخ ہر چوتھے برس ہی آتی ہے۔

معجزہ تو خیر کیا ہوتا الٹا سنہ 2014 میں 16 دسمبر کا ایک اور بھائی پیدا ہوگیا۔ میں نے شکر ادا کیا کہ اب رفتہ رفتہ ساری توجہ بڑے 16 کے بجائے چھوٹے 16 پر منعکس ہو جائے گی۔ اور وہی ہوا۔ اب کسی کو 16 دسمبر 1971 یاد دلانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے پاس 16 دسمبر 2014 جو موجود ہے۔

ایک تو نیا 16 ڈھاکہ کے بجائے پشاور میں پیدا ہوا لہذا ویسے بھی قریب ہے اور ایسے بھی۔

پہلے والے 16 کو یاد کریں تو عاقبت نااندیشی کے سبب بے شمار مرنے والوں کا خیال تو آتا ہے مگر جغرافیائی، سیاسی و ثقافتی دوری اس خیال کو دکھ میں نہیں بدلتی۔ سچ تو یہ ہے کہ دکھ روزِ اول سے تھا ہی نہیں۔ کچھ افسوس ہے تو مشرقی پاکستان کے کھونے کا، مشرقی پاکستانیوں کے کھونے کا نہیں۔

اس کے برعکس 16 دسمبر 2014 کی راکھ سے اٹھنے والا دکھ ان بچوں کا ہے جن میں سے ایک ایک کی تصویر ہم نے نہ صرف دیکھی ہے بلکہ دل میں میخ کی طرح گڑی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ سب سے چھوٹا تابوت ہی سب سے وزنی ہوتا ہے۔

ڈھاکہ والے 16 کی تصویر میں فلڈ لائٹس فوج پر تھیں، پشاور والے 16 میں بھی فلڈ لائٹس فوج پر ہی ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ پہلے والے امیج میں فوج بذاتِ خود سروائیور ہے دوسرے والے امیج میں فوج لائف سیور ہے۔ پہلے والے امیج میں فوج ملک کے لیے لڑی مگر ہار گئی۔ دوسرے والے امیج میں بھی فوج ملک کے لیے لڑی مگر جیت گئی۔

لیکن ایک مقام پرآ کر دونوں 16 میرے ذہن میں گڈ مڈ ہوجاتے ہیں۔ پہلے والے 16 کے متاثرین کو بھی کسی نے نہیں بتایا کہ ان کے چہیتے کیوں مرے یا مارے گئے اور دوسرے والے 16 کے متاثرین کے بھی والدین پوچھتے پھر رہے ہیں کہ ان کے لختِ جگر کیوں مرے، غفلت کہاں ہوئی، ذمہ دار کون ہے، کوئی ایک شخص، کوئی ادارہ، کوئی ایک پالیسی، کوئی راز؟

پہلے والے 16 کے جواز اور ذمہ داران ڈھونڈنے کے لیے جسٹس حمود الرحمان کمیشن بنا مگر اس کی سفارشات پر عمل تو خیر کیا ہوتا رپورٹ ہی باضابطہ طور پر آج تک سامنے نہ آ سکی۔

پشاور

بہت سے ڈرائنگ روم ناقد ہر برس پھٹا ڈھول بجاتے ہیں کہ جب تحقیق ہی نہ ہوگی تو خود احتسابی کیسے ہوگی اور ہم آئندہ ایسے المیوں سے کیسے بچیں گے؟ ان کوڑھ مغزوں کو یہ سامنے کی بات آخر کب سمجھ میں آئے گی کہ غلطی کبھی خود کو نہیں دھراتی بلکہ ہر بار نئی غلطی ہوتی ہے۔ غلط کار پرانا ہو سکتا ہے غلطی نہیں۔ ایسے میں پرانی خطاؤں کے پوسٹ مارٹم سے کیا حاصل؟

اسی لیے تو دوسرے والے 16 کے اسباب جاننے اور ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے کوئی کمیشن تک بنانے سے بھی گریز کیا گیا کہ جب کوئی بھی حساس رپورٹ سامنے لانے نہ لانے سے فرق ہی نہیں پڑتا تو ایک اور کمیشن پر وقت و وسائل ضائع کر کے ردی میں اضافے سے فائدہ؟

16 دسمبر کی کانٹوں بھری رات اور ببول زدہ دن ڈوبنے کے بعد بس ایک اطمینان ہے جو 17 دسمبر کی سرد صبح دل کو تھپک تھپک کے پھر سلا دیتا ہے۔

اب 16 سال بھر نہیں آئے گا، جا بچہ عیش کر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).