جب میری بہن کی وفات ہوئی


میں نے اپنے ایک بلاگ ”تمہاری بیٹی تمہارے گناہوں کی سزا ہے“ میں اپنی ذہنی طور پر معذور بہن اور اس کی معذوری کی وجہ سے میرے ماں باپ کی اٹھائی گئی مشکلات کا ذکر کیا تھا۔ یہ بلاگ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یسریٰ کی موت کا دن میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ اس دن میں نے اس معاشرے کا وہ چہرہ دیکھا جو بہت بدصورت ہے۔

میری بہن کی چودہ سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ یہ ایک قدرتی موت تھی۔ صبح کے سات بجے تھے۔ وہ سو رہی تھی۔ موت کا فرشتہ آیا، اس کی روح قبض کی اور چلا گیا۔ اسے مردہ دیکھ کر ہم سب شاک کی کیفیت میں تھے۔ ہم میں سے ایک اب اس دنیا میں نہیں تھا۔ ہم چاروں بہن بھائی اور امی ابو اس کے کمرے میں کھڑے رو رہے تھے۔ ایسے میں میرے والد نے ہمت دکھائی۔ وہ چھت سے ایک چارپائی لائے اور نیچے گیراج میں لے جا کر بچھا دی۔ اوپر آ کر میری بہن کے مردہ جسم کو گود میں اٹھایا اور نیچے لے جا کر اس چارپائی پر لٹا دیا۔ پھر ایک چادر مانگوا کر اس کا جسم ڈھانپ دیا۔ میری والدہ کے لیے اس چارپائی کے سرہانے موڑھا رکھ دیا گیا۔ وہ اس پر بیٹھی رو رہی تھیں۔

میرے والد بھی دکھ کی کیفیت میں تھے لیکن اس وقت سب کچھ انہیں ہی کرنا تھا۔ بہن کو چارپائی پر لٹا کر وہ فوراً باہر نکلے۔ کچھ سجھائی نہ دیا کہ کیا کرنا ہے۔ وہ ابھی تک شاک اور دکھ میں تھے۔ مرد تھے، رو بھی نہیں سکتے تھے۔ اس معاشرے نے مردوں پر بہت سی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں جن کا انہیں ہر حالت میں دھیان رکھنا ہوتا ہے۔ وہ اسی خالی دماغ کے ساتھ کھڑے تھے کہ سامنے والی گلی میں کسی گھر کا دروازہ کھلا اور ایک آدمی نے بائیک باہر نکالی۔ وہ شاید دفتر جانے لگا تھا۔ بابا نے اسے روکا اور کہا میری بیٹی فوت ہو گئی ہے۔ مجھے قبرستان لے جاؤ۔ قبر کی تیاری کا کہنا ہے۔ وہ صاحب فوراً انہیں وہاں لے گئے، پھر نجانے وہ کب آئے اور کن کن کاموں میں مصروف رہے، ہمیں کچھ پتا نہیں چلا۔ بس اگلی صبح ماما کے منہ سے سنا کہ پوری رات روتے رہے۔

میری والدہ کے غم کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن اس غم کی حالت میں بھی انہیں اندازہ تھا کہ اس وقت کی گئی کوئی بھی غلطی ان کے لیے پوری زندگی کا طعنہ بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نانی کو فون کرو۔ انہیں کہو فیصل آباد میں سب کو اطلاع دے دیں۔ چچی کو فون کرو انہیں کہو باقی سب کو اطلاع دیں۔ بڑی پھوپھو کو لازمی فون کرو۔ وہ برا مانیں گی کہ مجھے خود کیوں نہ فون کیا۔ شادی بیاہ اور فوتگی پر جھگڑوں کی بڑی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ مجھے خاص طور پر فون کیوں نہیں کیا تھا۔ خیر ہم نے یہ تین فون کیے اور بہن کی وفات کی اطلاع دے دی۔

میرے دادا کا گھر دھرمپورہ بازار میں تھا۔ سب چچا وہیں رہتے ہیں۔ ایک چچا آتے ہوئے کفن کا آرڈر دے آئے اور ایک کزن کی کفن لانے پر ڈیوٹی لگا دی۔ بابا کے ایک اور کزن آتے ہوئے نائی کو کھانے کا آرڈر دے آئے۔ اسی طرح دریوں اور تنبوں کا آرڈر بھی دے دیا گیا۔ گھنٹا بھر بعد ہماری گلی میں تنبو لگ چکے تھے، دریاں بچھ چکی تھیں اور مہمانوں کی آمد بھی شروع ہو گئی تھی۔

ایک عجیب رسم بھی اس دن دیکھی۔ خواتین آتیں، ”ہائے کون فوت ہو گیا“ کہتیں، چادر ہٹا کر بہن کی شکل دیکھتیں اور میری والدہ کے گلے لگ کر پوچھتی کیا ہوا تھا؟ وہ غم سے بوجھل تھیں لیکن اس حالت میں بھی دنیا داری نبھانے پر مجبور تھیں۔

گیارہ بجے صفائی والی آتی تھی۔ میں نے اپنے گزشتہ بلاگ میں ذکر کیا ہے کہ اس نے ہماری بہن کے معاملے میں ہمارا بہت ساتھ دیا تھا جس کی وجہ سے ہم اس کی بہت عزت کرتے ہیں اور وہ ہمارے لیے ہمارے گھر کے ایک فرد کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ آئی، ہمارے گھر کے باہر تنبو دیکھے تو اس کا دل بیٹھ گیا۔ وہ اندر داخل ہوئی۔ میری بہن کی میت دیکھی تو ایک دم زمین پر ڈھے سی گئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھی کہ اب گھر کی صفائی اور دیگر کاموں کی ذمہ داری اسی پر تھی۔ اسے پتہ نہیں کس نے کہا کہ فوتگی والے گھر میں تین دن تک جھاڑو نہیں دی جاتی۔ اس نے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے پورے گھر میں صرف پونچھا لگا کر صفائی کی۔

عصر کے بعد جنازہ تھا۔ والدہ میرے پاس آئی اور کہا کہ اسے ہم غسل دیں گے۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ پھر شاید والدہ کا بھی حوصلہ نہ پڑا تو نہلانے والی بلائی گئی۔ میری ڈیوٹی اس خاتون کے ساتھ لگا دی گئی کہ انہیں جو کچھ چاہئیے وہ فراہم کرو۔ کزن کفن اور دیگر ضروری چیزیں لے آیا تھا۔ وہ تمام چیزیں ان خاتون کے سامنے رکھ دی گئیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ خاتون ہمارے ڈرائنگ روم کے ایک صوفے پر بیٹھی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں کفن تھا۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے مسلسل اعتراضات کر رہی تھیں کہ کفن چھوٹا ہے اور بھی بہت سے اعتراضات تھے جومجھے اب ٹھیک سے یاد نہیں۔ وہ بار بار یہی کہہ رہی تھیں کہ کفن ان سے منگوایا جاتا۔ اس وقت میری عمر سترہ برس تھی، کچھ زیادہ شعور نہ تھا لیکن تب بھی ان کی وہ بات مجھے کچھ اچھی نہیں لگی تھی۔ میں نے سوچا کہ یہ کفن واقعی چھوٹا ہے یا یہ عورت پیسے اینٹھنا چاہتی ہے؟

ان خاتون نے سوئی دھاگہ منگوایا اور کفن میں کچھ تبدیلیاں کرنے لگی۔ پھر کہا کہ کوئی لال دوپٹہ لاؤ۔ یہ زندگی میں دلہن نہیں بنی تو اب اس کی میت کو لال دوپٹہ اوڑھایا جائے گا۔ میرے دادا جماعتِ اسلامی کے سرگرم کارکن تھے۔ ان کی اسلامی کتابوں پر مشتمل ایک لائبریری تھی جس کی بہت سی کتابیں میں نے پڑھی ہوئی تھیں۔ میں نے یہی پڑھا تھا کہ مرد کا کفن تین کپڑوں اور عورت کا پانچ کپڑوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ لال دوپٹے کا کہیں ذکر نہ تھا۔ خیر میں نے جا کر والدہ کے کان میں کہا کہ وہ خاتون لال دوپٹہ مانگ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا مجھے کچھ نہیں پتہ، جو وہ کہہ رہی ہے کرو۔ کزن کو فون کرو وہ لے آئے۔ میں نے فون کر دیا، دوپٹہ آ گیا۔

اسی عورت نے میری بہن کو نہلایا۔ جہاں اسے نہلایا جا رہا تھا وہاں خواتین باری باری جا رہی تھیں۔ پتا نہیں مردہ کو نہلاتے ہوئے دیکھنے سے کون سا ثواب ملتا ہے۔ میری تائی بھی گئیں، وہ واپس آئیں تو سب کو کہا یہ تو جوان ہونے لگی تھی۔ میری والدہ کو آج تک یہ بات چبھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ لڑکی تھی اور لڑکیاں بھی جوان ہوا کرتی ہیں۔ سب کے سامنے آکر بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ کبھی یہ بات ان کے منہ پر نہ کہہ سکیں ورنہ ایک نئی لڑائی شروع ہو جاتی۔

میری بہن کو کفن پہنا دیا گیا۔ لال دوپٹہ اس کے سر کے گرد بندھا ہوا تھا۔ اسے کفن میں دیکھا تو میرے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ میری والدہ میرے ساتھ کھڑی تھیں، انہوں نے میرا سر اپنے سینے سے لگایا، ہم دونوں رو رہے تھے۔ جنازے کی چارپائی باہر گلی میں رکھ دی گئی۔ ہم چپ چاپ زمین پر بیٹھے تھے۔ میرے والد اور چچا آئے، کلمہ شہادت کہا اور چارپائی اپنے کندھوں پر اٹھا لی۔ ہم چپ اپنے گھٹنوں میں سر دیے بیٹھے روتے رہے۔ جیسے ہی جنازہ گیا ہم اندر آ گئے۔ والدہ غمگین تھیں، جانے اس وقت ان کے دل پر کیا بیت رہی تھی۔ کبھی پوچھنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔

مرد حضرات واپس آگئے تو کھانا لگا دیا گیا۔ کھانے کے ساتھ ہی ہو ہو کار مچ گئی۔ کسی کو بوٹی چاہئیے تو کسی کو چمچ تو کسی کو صاف گلاس۔ میں، میری بہن اور کچھ رشتے دار ادھر سے ادھر بھاگ رہے تھے۔ کھانے کے بعد سب ایک بار پھر افسوس کر کے واپس جانے لگے۔ ایک خاتون کی بیٹی حاملہ تھی۔ وہ آئیں اور کہا میری بیٹی کا دیگ والے چاول کھانے کا دل کر رہا تھا۔ اس کے لیے کچھ چاول باندھ دیں، باندھ دیے۔ ایک خاتون نے کہا مرگ کا کھانا گھر میں نہیں رکھتے، یہ سب مغرب سے پہلے بانٹو۔ ہم جو تھکے ہارے بیٹھے تھے ایک دم اٹھے، دیگیں خالی کرکے کھانا ادھر ادھر بھجوایا۔ کسی نے کہا جس جگہ میت کو نہلایا ہے وہاں چالیس دن تک روشنی کا انتظام رکھنا چاہئیے، ہم نے وہاں کی لائیٹ جلا دی۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں تھیں۔ ہم ہر بات پر عمل کر رہے تھے۔

رات کا کھانا میرے ماموں نے دیا کیونکہ ریت ہے جس گھر میں فوتگی ہو وہاں کی بہوؤں کے میکے والے روٹی دیتے ہیں۔ پتا نہیں کس نے یہ رسوم و رواج بنائے ہیں۔ نہ کسی کی شادی آسان ہے نہ کسی کا مرنا آسان ہے۔ اگلے دن قل تھے۔ اس کے بعد ہر جمعرات پر لوگ افسوس کے لیے آتے رہے اور پھر چالیس دن بعد چہلم کی رسم بھی کی گئی۔ میرے والد نے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی کہے کہ بیٹی ذہنی طور پر معذور تھی تو اس کے قل یا چہلم نہیں کیا۔

تمہاری بیٹی تمہارے گناہوں کی سزا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).