سول سوسائٹی ہوتی کہاں ہے؟ ہوتی کیوں ہے؟


بخدا ہم یہ مضمون پڑھ کر جس کا عنوان تھا ”سول سوسائٹی ہوتی کیا ہے؟ “، دنگ رہ گئے۔ خدا لگتی کہتے ہیں کہ یہ مضمون پڑھنے سے پہلے ہم اس گماں میں تھے کہ سول سوسائٹی بھی کراچی کی ”محمد علی سوسائٹی“ یا ”پی۔ ای۔ سی۔ ایچ۔ ایس سوسائٹی“ کی مانند کوئی رہائشی سوسائٹی ہے۔ اور مالکان نے بحریہ ٹاؤن یا ڈی۔ ایچ۔ اے کی طرح ایک ہی نام سے پاکستان بھر میں سول سوسائٹیاں بسا رکھی ہیں۔ مذکورہ مضمون نے ہمارے علم میں خاطر خواہ اضافہ کیا مگر علم کی پیاس بجائے بجھنے کے مزید بھڑک اٹھی۔

آپ نے پڑھ رکھا ہو گا کہ ارسطو نے سکندر اعظم کی تعلیم و تربیت کی بنیاد دو سوالات پر رکھی تھی۔ ارسطو سے ہماری مراد ہرگز وہ معنک اور برائے نام باریش شخصیت نہیں ہے جوآج کل پروفیسر کا لقب اختیار کر کے عجیب و غریب بیان دیتی پائی جاتی ہے۔ ہم استاد ارسطو کا ذکر خیر فرما رہے ہیں جو کہ واقعی ارسطو تھا اور واقعی استاد تھا۔ تو ارسطو نے سکندر سے کہا تھاکہ پُتر سکندر جب کبھی تمہارے سامنے کوئی مسئلہ آ جائے تو خود سے دو سوال کرو۔ پہلا یہ کہ یہ کیا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ یہ کیوں ہے۔ اور جب تم ان دونوں سوالات پر غور کرو گے تو گویا غیب سے مضامین اترنے لگیں گے۔ ہم نے بھی سوچا کہ ہم ارسطو کی اس نصیحت سے فائدہ اٹھائیں۔ خود سے دو سوال کریں اور پھر ان پر غور کریں۔ ”کیا ہے؟ “ کاجواب تو مل ہی گیا ہے۔ چناچہ ہم نے پہلا سوال ”ہوتی کیا ہے؟ “ کی بجائے ”ہوتی کہاں ہے؟ “ سے تبدیل کیا اور دوسرا سوال ”ہوتی کیوں ہے؟ “ کو جوں کا توں رہنے دیا۔

سول سوسائٹی ”ہوتی کہاں ہے؟ “ کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہم نے پہلے تو گوگل میپ کھنگالا۔ وہاں سول سوسائٹی تونہیں ملی البتہ ”نان۔ سول سوسائٹی“ کا دیدار ہو گیا۔ گوگل میپ پرناکامی کے بعد ہم نے اخبارات کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ سول سوسائٹی عام طور پر پریس کلب کے باہراور شہر کےمعروف چوراہوں پر ہوتی ہے۔ کبھی کبھار کسی گرجا گھر کے باہر اور فائیو سٹار ہوٹل کے اندر بھی پائی جاتی ہے۔ ارادہ باندھا کہ پریس کلب چل کر دیکھنا چاہیے۔ جھٹ پٹ وہاں جا پہنچے۔ وہاں اک عجب منظر تھا۔ کوئی تراسی افراد ہاتھ میں موم بتی تھامے پتھر کے بت کی طرح ساکن تھے۔ دریافت کرنے پر معلوم پڑا کہ یہ سول سوسائٹی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ ہم نے دل ہی دل میں یا ہو! کا نعرہ لگایا۔ ہم اپنے پہلے سوال کہ ”سول سوسائٹی ہوتی کہاں ہے؟ “ کا جواب معلوم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

اب دوسرے سوال کی فکر پڑی کہ ”سول سوسائٹی ہوتی کیوں ہے؟ “۔ اس کا جواب ظاہر ہے کہ سول سوسائٹی کا ہی کوئی فرد دے سکتا تھا۔ لہٰذا ہم نے ایک فرد کو تاڑ لیا۔ یہ فرد ایک سمارٹ سی لڑکی تھی۔ لڑکیوں کو تاڑنا ویسے بھی ہمارا قومی مشغلہ ہے۔ چناچہ جیسے ہی لڑکی نے ہاتھ میں تھامی موم بتی سڑک پر دھری اور اٹھ کر واپس مڑی۔ ہم اس کے عین پیچھے حاضرتھے۔ راستہ مسدود پا کر لڑکی نے خشمگیں نگاہوں سے ہمیں گھورا۔ ہم نے گھبرا کر فوراً مدعا بیان کیا۔ لڑکی کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور اس کی جگہ الجھن نے لے لی۔ پھر اس نے سوچ کرکہا کہ بھیا معلوم تو مجھے بھی نہیں کہ سول سوسائٹی کیوں ہوتی ہے۔ میں تو خود اپنی سہیلی کے ساتھ آئی ہوں۔ اس پر ہم نے اس کی سہیلی سے ملنے کی خواہش ظاہر کر دی تاکہ معلوم کرسکیں کہ سول سوسائٹی کیوں ہوتی ہے۔ اس کی سہیلی بھی اس سوال کے جواب سے لاعلم نکلی۔ ہم نے اننچاس افراد سے فرداً فرداً پوچھا مگر اننچاس کے اننچاس لوگ لا علم نکلے۔ وہ سب کسی نہ کسی کہ کہنے پر یہاں آئے تھے۔

اب ہم نے اس شخص کا سراغ لگانے کی ٹھانی جس نے ان سب کو اکٹھا کیا تھا۔ ایک کے بعد ایک سے پوچھتے ہم بالآخر اس شخص تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جو اس سول سوسائٹی کے مظاہرے کا روح رواں تھا۔ یہ ایک قابل رشک صحت رکھنے والا بزرگ تھا۔ ہم نے اس سے سوال کیا کہ جناب یہ سول سوسائٹی کیوں ہوتی ہے؟ اس صحت مندبزرگ نے جوابی سوال داغا۔ یہ بتاؤ کہ حکومت کیوں ہوتی ہے؟ ہم الجھن میں پڑ گئے۔ خاصی سوچ بچار کے بعد ہم نے کہا کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ وہ بزرگ مسکرایا اور کہا۔ بالکل درست۔ اور جب حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو کچھ لوگوں کوحقوق کے لیے آواز اٹھانی پڑتی ہے۔ گھر سےنکلنا پڑتا ہے۔ بس اسی لیے سول سوسائٹی ہوتی ہے۔
ہم نے ریٹائرڈ جنرل صاحب کا شکریہ ادا کیا اور اپنے دونوں سوالات کے جواب جیب میں ڈال کر گھر لوٹ آئے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad