مجھ سے روح بلالی نہ مانگ۔ ۔ ۔ پارلیمنٹ کے موذن کی دہائی


گلی دستور سے ایک فرلانگ سے بھی کم فاصلے پہ واقع پارلیمان کے کمیٹی روم نمبر 4 میں ملت کے مقدر کے ایک ستارہ کے چہرہ پہ مایوسی و نا امیدی کو ناگ کی طرح پھن پھہیلائے دیکھا۔ پچکے گالوں اور جھری زدہ عارضوں پر غم و اندوہ کے وہ گہرے بادل دیکھے کہ جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔ کسی مرض لادوا میں صاحب فراش کی طرح درد و کرب کی شب گزارے ہوئے ایک باریش چہرہ ہاتھ بغلوں میں دیے ہوئے، کپکپاتی ٹانگوں، لرزتے ہونٹوں اور برستی آنکھوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مقتدر ترین ایوان میں ہارے ہوئے جرنیل کی طرح کھڑا دیکھا۔

زرق برق لباس میں ملبوس ایوان بالا کے ممبران دساوری شرٹس کے اوپر گوناں گوں ٹائیاں لٹکائے ہوئے افسر شاہی کے ارکان سے بڑے بڑے منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لئے سوال و جواب میں مصروف تھے۔ عقبی نشستوں پہ براجمان صحافی منظرعام پہ آنے والی ہوشربا کرپشن کی داستانیں حوالہ قرطاس کر رہے تھے اور ٹی وی کی اسکرینوں پہ سنسنی پھیلانے کے لئے ٹکرز بھیجنے میں مشغول تھے۔ یخ بستہ دسمبر میں ائیر کنڈیشننگ سے کمرے کا درجہ حرارت دساوری کوٹ پہنے افسران بالا کی طبع حدت نا آشنا پہ گراں گزرا تو تھوڑے غصہ میں نائب قاصد سے کہا کہ اے سی بند کروا دو۔

موسم کی مناسبت سے مرمریں آبگینوں میں بھاپ اڑاتی بلیک کافی کے ساتھ تازہ تلے ہوے شامی کباب کورنش بجا لا رہے تھے۔ اس پنج ستارہ ماحول میں گفتگو کا موضوع اسلام آباد کے کھربوں روپے کی مالیت کے سینکڑوں ایکڑ پر محیط دو پنج ستارہ کلب اسلام آباد کلب اور گن اینڈ کنٹری کلب جو ماضی بعید میں اس لیے قائم کیئے گئے کہ شہر اقتدار کے زعما، کی بیٹھک عامیوں سے الگ ہو۔ گھنٹوں پہ محیط بحث کا لب لباب یہ تھا کہ کلبز کے انتظام و انصرام کو مزید بہتر اور بین الاقوامی معیار کے مطابق کرنے کے لئے پارلیمان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس پر ہنگام سوال و جواب اور پر تعیش ماحول سے یہ باریش شخص مکمل لا تعلق اور بیزار نظر آیا اور رنج و الم کا استعارہ بن کر کھڑا رہا۔ تجسس کی مہمیز سے مجبور ہو کر میں نے ان سے استفسار کیا کہ اس مقتدر ایوان میں ایک مفلس کی آمد چہ معنی دارد؟

رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا کہ میں اس مقتدر ایوان کی مسجد کا ریٹائرڈ موذن ہوں۔ گزشتہ پانچ سالوں سے میرا بیٹا عارضی بنیادوں پہ بھرتی کا گیا ہے۔ اپنے بیٹے کی ملازمت کی مستقلی کے لئے سی ڈی اے کے حکام بالا کے دفتروں کے چکروں سے تنگ آ کر سوچا کہ تیس سال تک جس مقتدر ایوان میں بصوت اذان فلاح و فوز کی طرف آنے کے لئے صدائیں لگاتا رہا ہوں شاید وہ ایوان میرے بیٹے کو مستقل کر کے میرا نزع آسان کر دے۔ چئیرمین صاحب کی مہربانی سے میرا مسئلہ بھی کمیٹی کے اجلاس کے ایجنڈے پر ہے۔ میں نے نوٹس پر نظر دوڑائی تو ان کا مسئلہ ایجنڈے کا حصہ نہ پا کر پوچھا کہ یہاں تو کہیں بھی آپکا ذکر نہیں۔ ویران آنکھوں میں آنسؤں کے چشمے پھوٹنے سے روکتے ہوئے جواب دیا کہ شاید Any other item میں ہو۔

آخرکار جب کمیٹی ایجنڈے پر موجود تمام اہم امور نمٹ چکے تو چئیرمین قائمہ کمیٹی جناب طلحہ محمود صاحب نے قاری صاحب کو آواز دی کی آپ ادھر میرے پاس آکر کھڑے ہو کر اپنا مسئلہ بتائیں اور ساتھ ہی چئیرمین سی ڈی اے اور سیکرٹری کیڈ کو متنبع کیا کہ آج ان کا مسئلہ حل کر کے ہی اٹھوں گا۔ قاری صاحب چئیرمین کی کرسی کے ساتھ یوں کسمپرسی کی حالت میں کھڑے ہوئے کہ جیسے عقل و دانش پاکستانی معاشرے میں۔ ڈرے ہوئے، سہمے ہوئے، لرزہ بر اندام، کہیں اچک جانے کے اندیشوں میں یوں گھرے ہوئے جیسے بادلوں میں چاند۔
فائلیں بند کرتے ہوئے افسران نے بالا نے قاری صاحب کو مرکز نگاہ بنایا اور پیشانی پہ سلوٹیں ڈالتے ہوئے ناگواری کا اظہار کیا۔

قاری صاحب گویا ہوئے ”مجھ بدنصیب کا نام عزیزارحمن ہے۔ تیس سال تک اس ایوان میں بلا ناغہ خدائے بزرگ و برتر کی بڑائی کا اعلان بذریعہ اذان کرتا رہا ہوں۔ سائیکل پہ بیٹھ کر آیا تھا، گریڈ پانچ میں بھرتی ہوا تھا اور گریڈ سات لے کر ریٹائرہوا اور سائیکل پر ہی واپس ہو گیا۔ گریڈ پانچ کی تنخواہ میں اپنے بچے کو لاہور گرائمر اور ہیڈ سٹارٹس میں داخل کرانا تو دور سرکاری سکول میں بھی بمشکل میٹرک کروایا۔ بیٹا بھی بخت کا مارا تھا۔ پرکاری اور ہشیاری سے نا بلد، سادگی کا استعارہ تھا۔ بس قربان جاؤں خدائے بزرگ و برتر پر کہ اس نے آواز اچھی دی تھی تو کسی بھلے وقت میں میں نے اسے اذان یاد دلا دی اور پانچ سال پہلے چئیرمین سی ڈی اے کے پاؤں پکڑ کر اپنی جگہ عارضی بنیادوں پر موذن بھرتی کرا دیا۔ اور عمر رفتہ کا واحد اثاثہ اپنی پرانی سائیکل، جسے اب میری ضعیف ٹانگیں چلانے سے انکاری تھیں، اس کے حوالے کر دی۔ دو ڈربہ نما کمروں کا ایک فلیٹ مجھے بھلے وقتوں میں ایک درد مند افسر کے قلم فیاض نے سر چھپانے کے لئے فراہم کر دیا تھا۔ امید تھی کہ بیٹے کی ملازمت مستقل ہو جائے گی اور یہی دو کمرے اس کے نام الاٹ ہو جائیں گے لیکن پانچ سال تک دائمی فلاح و فوز کا مقتدر ترین ایوانوں اعلان کرتا ہوا میرا بیٹا آج بھی عارضی ہی ہے۔

میری نمناک آنکھیں اس ایوان کے اختیار سے آگاہ ہیں کہ ایک مرتبہ اجلاس کے دوران چند ثانیوں کے لئے بجلی بند ہونے پر چئیرمین واپڈا معطل ہو گئے تھے۔ ایوان کی کارروائی میں رتی بھر غیر سنجیدگی برتنے والا گریڈ 22 کا افسر بھی چشم زدن میں اپنی سیٹ سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایوان کے ممبران ہاں کہہ دیں تو قانون بن جاتا ہے اور نہ کہہ دیں تو لا قا نونیت ٹھہرتی ہے۔ میری عرض بس اتنی ہے کہ میرے بیٹے کو مستقل کر دیا جائے تاکہ دو کمروں کا فلیٹ نا ہنجار کے نام ہو جائے۔ اور یوں میں دشت زیست سے آبلہ پا ہو کر کچھ طمانیت سے عازم آخرت ہو سکوں۔ اس کے گھر کا نان نفقہ بھی چلتا رہے اور میری ٹوتی پھوٹی سائیکل بھی۔ سابقہ موذن کی گھگھیائی ہوئی آواز نے گرم کمرے میں سردی کا بگولا چھوڑ دیا جس نے مفادات کے گرم بستر پر سوئے ہوئے ضمیروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ کچھ دیر پہلے قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں، بے باک آنکھیں شرم سار ہو کر زمین میں گڑھ گئیں۔

شاہی سید صاحب نے کہا کہ اگر یہ ایوان اپنے موذن کا اتنا چھوٹا سا مسئلہ حل نہیں کر سکتا تو اسے تالا لگا دینا چاہیے۔ یوسف بادینی صاحب نے کہا کہ تیس سالوں میں تو ایک بیورو کریٹ ریٹائر ہو کر آٹھ دس پلاٹ اور کروڑوں روپے سمیٹ کر پبلک سروس کمیشن کا ممبر یا چئیرمیں نیب لگ جاتا ہے اور پارلیمان کی مسجد کا موذن سائیکل پہ طبع آزمائی کرتے ہوئے اپنے پاؤں پسپا کر کے اپنے بیٹے کی نوکری کی بھیک مانگتے ہوئے اپنے نزع کی آسانی مانگ رہا ہے۔ سینیٹر کلثوم پروین صاحبہ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہمارا مقتدر ایوان یروشلم میں واقع مسجد اقصی کا حل نہ کر سکے لیکن پارلیمان کی مسجد کے موذن کا مسئلہ لازمی حل کر دے۔

اس پر حزیں ماحول میں چئیرمین سی ڈی اے جو موصوف خود دو سیٹوں یعنی چئیرمین سی ڈی اے اور مئیر اسلام آباد پہ براجمان ہیں اور جن کی سند علم و قابلیت پہ فقط یہ ثبت ہے کہ حضرت ٹھیکیدار ہیں اور آل شریف کے گھروں کے معمار ہیں اور سب سے بڑی سند فضیلت یہ ہے کہ شریف خاندان کی جلا وطنی کے دور میں ان کی مسلسل خبر گیری کرتے رہے اور یوں بغیر الیکشنز کے اسلام آباد کے مئیر بن گئے اور تعلیمی نظام سے نالاں رہتے ہوئے خود کو تعلیمی آلائشوں سے کوسوں دور رکھ کر بھی چئیر مین سی ڈی اے بن گئے۔ اپنی تقرری کے علاوہ ہر چیز میں قانون اور آئین دیکھتے ہیں۔ فرماتے ہیں ادارےجذبات پہ نہیں قانون پہ چلتے ہیں اور قانون کے مطابق قاری صاحب کا بیٹا مستقل نہیں ہو سکتا۔

یوں مقتدر ایوان بھی سی ڈی اے کے قانون کے سامنے بے بس نظر آیا اور میرے کانوں میں مسلسل رضا ربانی صاحب کے تاریخ ساز جملے گونجنے لگے
The house is sovereign

لیکن میرا خیال ہے کہ موذن کی ملازمت کی مستقلی کے مسئلہ میں رضا ربانی صاحب بھی شاید آئین کے پری ایمبل کا سہارا لیتے ہیں جہاں لکھا ہے
Sovereignty belongs to Allah

چند قدم چلی تو اذان کی آواز آئی۔ آواز میں ایک عجیب درد اور سوز پایا۔ قاری صاحب کو میں نے مبارکباد دی کہ ماشا اللہ اس عنفوان شباب میں ہی آپکا بیٹا زہد و اتقا، سے مزین ہے۔

قاری صاحب نے جواب دیا
بیٹا یہ زہد و اتقا، بڑے پیٹ والے جید۔ علماء کا حق اور حصہ ہے۔ ہم سوختہ بخت محد سے لحد تک دو وقت کی روٹی کو پلٹتے، جھپٹتے اور جھپٹ کر پلٹتے ہیں۔ میرے بیٹے کی آواز میں روح بلالی نہ تلاش کیجئے اس کے روزگار کو مستقل کیجئے

واپسی پر چئیر مین سینیٹ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد کے اولین الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے

The parliament is sovereign. Civil and military bureaucracy will have to bow before the majesty of parliament.

میں سوچ رہی تھی کہ جو پارلیمان عدالت عظمی کے فیصلے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے ایک نا اہل شخص کو اہل کر سکتی ہے وہ پارلیمان اپنی ہی مسجد کے گریڈ پانچ کے موذن کو مستقل روزگار نہیں دے سکتی، کیا اس پارلیمان کو مسجد۔ اقصیٰ کے متعلق کوئی قرارداد پاس کرنے اور قبلہ اول کی محبت میں آنسو بہانے کا حق ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).