گالی اور بجلی کی تار میں ڈولتی عقیدت


میں بڑا لمبا سفر کرکے گڑھ بغداد (سابقہ گڑھ مہاراجہ) ضلع جھنگ، تحصیل شورکوٹ، پہنچا تھا۔ اور اس سفر کے دوران اپنی تمام مشکلات کی خود ہی سے روحانی تعبیرات بھی گھڑتا چلا گیا تھا۔ گڑھ بغداد پہنچ کر، شدید سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے باہر برآمدے میں بیٹھ کر، پیر صاحب کے حجرے میں جاتی بجلی کی موٹی تار اور باہر آتی اک گالی نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اور اسی سوچ کے ہاتھوں میں وہاں سے دیدار کیے بغیر اٹھ آیا۔ پھر ایسا اٹھا، کہ بس اٹھا ہی اٹھا!

میری پیدائش اور اوائل عمر کی داستان بھی پنجاب کے کسی چھوٹے قصبے میں پیدا ہو کر بڑے ہونے والے بیٹے کی داستان ہے۔ مجھ جیسوں کی مائیں اور باپ تقریبا نوے فیصدی ایک جیسے ہی سماجی، معاشرتی اور مذہبی رویے کے حامل ہوتے ہیں۔ نچلے درمیانے، بلکہ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے پنجابی گھروں کا سماجی رہن سہن ایک جیسا ہی ملے گا۔ باقی صوبے اور ان میں بسنے والے لوگ بھی میرے وجود اور شناخت کا حصہ ہیں، مگر پنجابی ہونے کی حیثیت سے، پنجاب کا علم ہے۔ باقیوں کے بارے میں اندازہ، مشاہدہ اور ادراک کے عناصر، علم کی نسبت زیادہ ہیں، تو پنجابی گھروں کی ماؤں اور باپوں کی بابت بہتر بات کر سکتا ہوں۔

تو صاحبو، ماں جب فجر کے وقت اٹھتیں، تو اس کے کچھ دیر بعد مجھے بھی اٹھا دیتیں۔ نہ اٹھتا تو اوپر سے رضائی کھینچ دی جاتی۔ میدانی پنجاب کی سردی بڑی کڑاکے کی ہوتی ہے۔ ڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو مہینے دھند رہتی ہے اور سورج کا بس اک ہیولہ ہی سامنے ہوتا ہے۔ پیٹیوں میں پڑی رضائیاں تک نم ہو جاتی ہیں تو ایسی سردی میں، میری ماں نماز کے لیے اٹھتیں تو ساتھ میں مجھے بھی خراج دینا پڑتا کہ مشہور تشریح یہ تھی، اور ہے بھی کہ سات سال کے بعد بھلے اک دو لگا دی جائیں تو بھی ٹھیک ہے، مگر بچے کو نماز پڑھنا لازم ہوتا ہے۔ بمشکل اور شدید ردعمل میں اٹھ تو جاتا تھا میں، مگر وجود اک لمبا وقت ساتھ نہ دیتا تھا۔ اسی کسلمندی میں جا کر پھر قاری فتح محمد صاحب سے چھڑیاں بھی کھانا پڑتی تھیں۔ سکڑتے، بلکہ کُنگڑتے ہوئے سردی سے مسلسل مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ واپس آ کر جلدی سے ناشتہ کرکے سکول کی جانب بھاگا جاتا۔

زندگی گزرتی چلی گئی۔ میں اپنی زندگی میں کئی سماجی تجربات کرتا چلا گیا۔ تمام فرقوں میں رہا۔ شیعہ یاروں کو خبر ہو کہ دو ایک سال ماتم بھی کیا۔ زنجیر زنی نہ کی کہ اتنا تقویٰ اور ہمت ہی نہ کر سکا۔ تمام فرقوں سے ہوتا ہوا سنہ 1998 میں روحانیت میں جا اٹکا تو ان دنوں ملکوال میں اپنے تمام کزنز کے فیشن کے مطابق، سلسلہ سروری قادری میں بیعت ہوا، جس کی نسبت حضرت سلطان باہوؒ سے جا ملتی ہے۔ بیعت مگر میں کلاچی، ضلع ڈیرہ اسمعیل خان میں جا کر ہوا۔ کیسے؟ یہ لمبی کہانی پھر سہی!

اپنی بیعت کے تیسرے سال، یعنی 2001 کو میں نے روحانی زیارات کی ٹھانی اور دسمبر کے مہینے میں سفر پر چل نکلا۔ پیر ودھائی اڈے سے اک بس میں سوار ہوا، اور کوئی آٹھ گھنٹوں کی مسافت کے بعد، شورکوٹ جا اترا۔ گڑھ بغداد کہ جہاں حضرت سلطان باہوؒ دفن ہیں، کی طرف حاضری کا پروٹوکول یہ تھا کہ پہلے ان کے دربار مائی باپ، یعنی شورکوٹ میں حاضری لازم ہے، تو پھر اس کے بعد بابا باہوؒ کے سامنے پیشی قبول ہوتی ہے۔ سو یہی کیا۔

روحانیت کے شہد میں لتھڑا ہوا تھا تو فرض تھا کہ ہر روز صبح تازہ پانی سے نہا کر تہجد بھی پڑھے جائیں۔ اکثر اوقات پڑھتا تھا۔ اس دن شدید سردی کے عالم میں بھی یہی کیا۔ عقیدت کی گرمی ہو تو انسان ایسے ہی کام کرتا ہے کہ جن کی کوئی عقلی و شعوری توجیہہ دینا اور تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں فیض آباد دھرنا اس کی ایک مثال ہے۔ سخت سردی میں، سخت سرد پانی سے غسل کرکے تہجد پڑھنے کے بعد نماز ادا کی اور پھر دریائے چناب کو کشتی سے کراس کرنے کے بعد اک ٹویوٹا ڈالے میں بیٹھ کر گڑھ بغداد جا پہنچا۔ شور کوٹ سے ہی، کشتی میں میرے اک ساتھی مسافر، جو کہ اک ریٹائرڈ استاد تھے، ”حق باہو، بے شک باہو، ہِک نظر کرم دی تک باہو“ کے نعرے مارتے ساتھ چل رہے تھے۔ ہم دونوں ایک ساتھ ہی گڑھ بغداد پہنچے اور ان کی رقت اور جذبہ دیدنی تھا۔ ان کو اس وقت تک دیکھ دیکھ کر میں خود کو پہلے ہی سے ”مردودِ طریقت“ محسوس کر رہا تھا کہ جس کے دل میں اپنے مرشد کا اتنا گداز اور ارمان نہ تھا۔ سردی مگر اپنا اثر دکھا رہی تھی اور ہڈیاں خون جما رہی تھی۔

دربار کے ذرا سا بائیں طرف، اک قدیم سے بنے ہوئے برآمدے میں بیٹھے سردی سے لڑائی کرتے بجلی کی اک موٹی تار پیر صاحب کے حجرے میں جا رہی تھی، اور اس حجرے کے بائیں جانب اک عدد ائیرکنڈیشنر بھی موجود تھا۔ میں لائن میں بیٹھا ان کی زیارت کا منتظر تھا۔ بیچ بیچ میں دروازہ کھلتا، لوگ اندر سے باہر، باہر سے اندر کی جانب لپکتے۔ اسی اک وقفے میں دروازے کے درز سے مجھے اک بہت وزنی اور خالص پنجابی گالی سنائی دی۔ مجھے لگا یہ کہ گالی مجھے اور میری عقیدت کو دی گئی تھی۔ خیال یہ آیا کہ سردی میں ٹھٹھرتے، دو دن کی مسافت کے بعد، اپنے گھٹنوں کو مسلسل ملتے، دیدار و زیارت کا کیا مزا کہ جب اک لمحہ قبل وہ گالی جو ملکوال کی گلیوں میں دی جاتی ہے، سماعت سے آن ٹکرائے۔ میں اٹھ آیا۔ دور دور سے سلام کیا، اور پھر پلٹ واپس نہ گیا۔

سلسلہ کو خدا حافظ کہتے ہوئے مردودِ طریقت کی اصطلاح پہلی مرتبہ اپنے پیر بھائیوں سے ہی سنی۔ اپنے ان پیر بھائیوں کے قصے بھی بہت دلچسپ ہیں کہ دہائیوں کی نسبت کے باوجود بھی اوصاف و مزاج نہ بدلے۔ تربیت پر اک سوال تو بنتا ہے!

عقیدت سے جان چھڑانے کے بعد، عقیدہ کو خوب کھنگالا۔ عقیدت سے بچتا ہوں، اور بہت سکون سے رہتا ہوں۔ حال ہی میں فیض آباد میں ”ختم حکومت مارچ“ کی بہار میں اپنی نوجوانی کے بہت سارے چہرے دیکھے۔ ان پر افسوس ہوا اور ترس بھی آیا۔ سفر، مگر ان کی زندگی کا اپنا ہی ہے۔ عقیدت میں رہیں گے تو کنویں کے مینڈک بن کر رہیں گے۔ کاش کہ وہ سوچ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).