شہرِ مقدس یروشلم کی تاریخ اور حال


دنیا کے جن شہروں کو عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ان میں سرفہرست یروشلم ہے۔ یہ روئے زمین پرواحد شہر ہے جسے تینوں سماوی مذاہب اسلام، مسیحیت اور یہودیت کے ماننے والے یکساں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہود کا عقیدہ ہے کہ یروشلم ہی وہ مقام ہے جہاں سے تخلیقِ کائنات کی ابتداء ہوئی۔ مسیحی سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کو یہیں مصلوب کیا گیا تھا اور یہیں ان کا سب سے مقدس کلیسا واقع ہے۔ مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق پیغمبر اسلام نے معراج پر جانے سے قبل اسی شہرمیں واقع مسجدِ اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت کی تھی۔ یروشلم بنی نوع انسان کو ہدایت و بھلائی کی تبلیغ کرنے والے بےشمار انبیاء اور مصلحین کا مسکن بھی رہا ہے، یہاں ان الوہی وجودوں کی یادگاریں اور آثار موجود ہیں۔

یروشلم کو مختلف قوموں نےاپنے عقیدے اور تہذیب کی بناء پر کئی ناموں سے موسوم کیا ہے۔ یہودی اور مسیحی اسے یروشلم پکارتے ہیں اور یہودی علماء اس نام کو جدالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک حضرت ابراہیم نے اسے جریح (JEREH) کا نام دیا اور شلم کا اضافہ شیلم (SHELM) یا شالم نے کیا جو 2008 قبل مسیح میں یہاں کا حکمران تھا۔ تاریخی روایات کے مطابق یروشلم دو عبرانی لفظوں ’یرو‘ اور ’شلیم‘ سے مل کر بنا ہے جس کے معنیٰ ’ورثہ امن‘ (The Inheritance Of Peace) کے ہیں۔ کتابِ پیدائش کے مطابق دو چھوٹی بستیاں جیبس (JEBUS) اور سلم (SALAM) ایک ہوئیں تو یروشلم بنا اور انہی بستیوں کے نام سے نئے شہر کا نام بھی مرکب ہو گیا۔ جو بعد میں یروشلم بن گیا۔ کچھ مؤرخین دو سمتی الفاظ یوری (URI) بمعنیٰ شہر اور سلم (SALIM) (دیوتائے امن کا نام) کا مرکب قرار دیتے ہیں اور اسی بناء پر اسے ’دیوتائے امن کا شہر‘ کہتے ہیں۔ مسلمانوں نے اس شہر کو القدس (پاکیزہ شہر)، بیتُ المُقَدَّس (متبرک گھر) اور بیت المَقْدِس (پاک مقام) سے موسوم کیا ہے۔

اسرائیلیات کے مطابق 2500 قبل مسیح میں آلِ سام یروشلم کے مقام پر آ کر آباد ہوئے۔ 2000 قبل مسیح مسیح میں حضرت ابراہیم اپنے آبائی شہر اُر سے ہجرت کر کے یہاں پہنچے اور حبرون (Hebron) میں قیام کیا جو اب الخلیل بھی کہلاتا ہے۔ یہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مزار بھی ہے۔ حضرت ابراہیم کی وفات کے چالیس سال بعد آپ کے پوتےاسرائیل علیہ السلام (حضرت یعقوب) نے یہاں مقدس خواب دیکھا جس کی یادگار کے طور پر انہوں نے یہاں عبادت گاہ بنائی۔ اسی عبادت گاہ کے کھنڈروں پر صدیوں بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکل کی عمارت کھڑی کی۔ چنانچہ کتابِ پیدائش، باب 36 کے مطابق:

’یعقوب ان سب لوگوں سمیت جو اس کے ساتھ تھے بوز پہنچا، وہاں اس نے ایک مذبح بنایا جس کو بیت ایل (Beit El) کا نام دیا۔ ‘

پھر حضرت یعقوب کے بیٹے حضرت یوسف امتداد زمانہ سے مصر پہنچے اور صاحبِ اقتدار ہوئے تو اولادِ یعقوب (بنی اسرائیل) بھی مصر منتقل ہوگئے۔ حضرت یوسف کے وصال کے بعد بنی اسرائیل معتوب ہوئے اور ان کے اگلے چار سو سال بدترین غلامی میں گزرے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں یہ قوم مصر سے نکلی اور دریائے نیل پار کر کے وادئی سینا میں داخل ہوئی۔ چالیس سال وادئی سینا میں خاک چھاننے کے بعدکے بعد بنی اسرائیل نے یوشع بن نون کی قیادت میں بادشاہِ یروشلم اودنی صدق کو حبعبون کے مقام پر شکست دی 1251 قبل مسیح میں قریباً دو سو سال بعد دوبارہ یروشلم میں داخل ہوئے۔ اس کامیابی کے بعد بنی اسرائیل نے حبرون کو اپنا دارالسلطنت بنایا اور چار صدیوں بعد حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل کی حکومت کنعان، شام، یمن اور اردن تک پھیل گئی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو خدا کی طرف سے ایک معبد تعمیر کرنے کا حکم دیا گیا تو آپ نے اس مقصد کے لیے یروشلم میں ارنان یبوسی نامی شخص سے اس کا ایک کھلیان خریدا۔ آپ اپنی حیات میں اس معبد کو تعمیر نہ کر سکے اور اپنے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس کی تعمیر کی وصیت کرتے ہوئے معبد کا تفصیلی نقشہ انہیں سمجھا کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ حضرت سلیمان نے اپنے والد کی وفات کے بعد متعینہ جگہ پر ایک شان دار عبادت گاہ تعمیر کروائی جو تاریخ میں ’ہیکل سلیمانی‘ (Solomon‘s Temple) کے نام سے معروف ہے۔ اس کی تعمیر 950 قبل مسیح میں مکمل ہوئی۔ یہ عبادت گاہ بنی اسرائیل کا مذہبی وروحانی مرکز ہونے کے ساتھ ان کی سیاسی عظمت وشوکت اور دنیاوی جاہ وہشم کی علامت بھی تھی۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کا وصال 975 قبل مسیح میں ہوا تو نا اہل جانشینوں کی وجہ سے یہ شاندار سلطنت طوائف المُلوکی کا شکار ہو گئی۔ رجعام بن سلیمان کی تاج پوشی کے پانچویں سال بادشاہِ مصر سی شاک نے یروشلم کو تاخت و تاراج کیا، شاہی خزانہ لوٹ کر مقدس عبادت گاہ کوپامال کرکے اسے ویران کر دیا۔ اس نے شاہی خزانہ لوٹ لیا اور مقدس عبادت گاہ کو ویران کر دیا۔ 899 میں فلستیوں اور عربوں نے متعدد حملے کیے اور لوٹ مار کی۔ مگر یروشلم کی بدترین بربادی 598 قبل مسیح میں ہوئی جب بابل کے بادشاہ نبوکد نضر (بخت نصر) نے حملہ کر کے ہیکل کو جلا کرخاکستر کر دیا، اس کے خزانے اور قیمتی ظروف لوٹ لیے، بنی اسرائیل کا قتل عام کیا اور انہیں اسیر بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ بابل میں بنی سرائیل کو دریائے فرات کے کنارے آباد کیا گیا، اس بستی کا نام انہوں نے تل ابیب رکھا۔ فارس کے کسریٰ، خسرو یا خورس (Cyrus) نے 539 قبل مسیح بابل کو فتح کرنے کے بعد اسیری میں آئے ہوئے بنی اسرائیل کو واپس یروشلم جانے اور وہاں ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ ہیکل ثانی کی تعمیر 515 قبل مسیح میں مکمل ہوئی اور اسے زرِبابلی ہیکل کا نام دیا گیا۔

یہ عبادت گاہ تقریباً 450 سال تک قائم رہی لیکن اس عرصے میں وقتاً فوقتاً حملہ آوروں کے ہاتھوں بے حرمتی کا نشانہ بنتی رہی۔ 332 قبل مسیح میں سکندراعظم کی قیادت میں یونانی یروشلم پر قابض ہوئے۔ 63 قبل مسیح میں یونانیوں کی جگہ رومی فوج نے فلسطین پر قبضہ کیا۔ 139ء میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے یروشلم کو دوبارہ آباد کر کے اس کا نام ایلیا کابیتولینا (Aelia Capitolina) رکھا اور ہیکل کی جگہ رومی دیوتا ’خدائے امبر‘ (Jupiter) کے نام پر ایک عالی شان معبد تعمیر کرایا۔ چوتھی صدی عیسوی میں مسیحیت کے روم کا سرکاری مذہب بن جانے کے بعد 336ء میں قسطنطین اعظم نے اس معبد کی جگہ کلیسائے نشور (Church of Resurrection) تعمیر کرا دیا۔ 638ء میں مسلمانوں نے یروشلم کو فتح کیا۔

امیرالمومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ یروشلم آئے اور یہاں کے باشندوں کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا۔ آپ مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کے لیے تشریف لے گئے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر صخرۂ بیت المقدس کے اوپر اور اس کے اردگرد پڑے ہوئے کوڑا کرکٹ کو صاف کیا۔ آپ نے مسجد کی تولیت بدستور اس کے پہلے متولیوں کے پاس ہی رہنے دی۔ سیدنا عمر نے ہیکل کی جنوبی جانب نماز پڑھنے کے لیے ایک جگہ مختص کر دی۔ بعد میں اس جگہ پر لکڑی کی ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ 688ء میں اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے صخرۂ بیت المقدس کے اوپر ایک شان دار گنبد تعمیر کرا دیا جو ’قبۃ الصخرۃ‘ (Dome of Rock) کے نام سے معروف ہے۔ اسی نے لکڑی کی مذکورہ سادہ مسجد کی تعمیر نو کر کے اس کے رقبے کو مزید وسیع کر دیا۔ 1078ء میں سلجوقی ترکوں نے یروشلم پر قبضہ کر لیا مسیحی زائرین کے شہر میں داخلے پر پابندی لگا دی جس کے رد عمل میں 1096ء میں مغربی یورپ سے غیض وغضب کی ایک لہر اٹھی جس نے صلیبی جنگوں کا روپ دھار لیا۔

پوپ اربن دوم کے حکم پر عیسائی مجاہدین کا ایک لشکر یروشلم پر قبضے کے لیے روانہ ہوا جس نے 1099ء میں یروشلم پر قبضہ کر کے مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرۃ کو اپنے تصرف میں لے لیا۔ مسیحی فاتحین نے قبۃ الصخرہ کے اوپر ایک صلیب نصب کر کے اس کو معبدِ خدا (Templum Domini) اور مسجد اقصیٰ کو معبدِ سلیمانی (Templum Solomonis) کا نام دے دیا۔ 2 اکتوبر 1187ء کو صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں مسلمان دوبارہ یروشلم پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور مسجد اقصیٰ کو مسجد کی حیثیت سے بحال کر کے قبۃ الصخرہ سے صلیب اتار دی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد دسمبر 1917ء میں یروشلم برطانوی قبضے میں چلا گیا۔ 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔

جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور مشرقی یروشلم پر بھی قبضہ کر لیا جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے۔ تاہم اسرائیلی وزیر دفاع موشے دایان نے احاطہ مقدسہ کی چابیاں اردن کے حکمران ہاشمی خاندان کے سپرد کر دیں۔ اس وقت سے اس احاطے اور اس سے ملحق بعض عمارتوں کا کنٹرول یروشلم کے مسلم وقف کے پاس ہے جو اس کے جملہ امور کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے۔

اسرائیلی پارلیمان نے 1950 ہی سے یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دے رکھا ہے اور پارلیمان و اعلیٰ عدلیہ سمیت کئی اہم مرکزی ادارے بھی یروشلم میں ہیں۔ لیکن دنیا اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے احترام میں یروشلم کی بجائے تل ابیب کو اسرائیل کا دارالحکومت مانتی ہے اور دنیا کے تمام ممالک نے اپنے سفارت خانے تل ابیب میں ہی قائم کر رکھے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے مطابق ’یروشلم 70ء سے اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔ یروشلم ہماری امیدوں، خوابوں اور دعاؤں کا مرکز رہا ہے۔ یروشلم یہودیوں کا تین ہزار سال سے دارالحکومت رہا ہے۔ یہاں پر ہماری عبادگاہیں رہی ہیں، ہمارے بادشاہوں نے حکمرانی کی ہے اور ہمارے پیغمبروں نے تبلیغ کی ہے۔

یروشلم یا بیت المقدس کہنے کو تو شہرِ امن اور متبرک شہر ہے مگر اس کی تاریخ بتاتی ہے کہ بمشکل دس دن ہی اسے گزرے ہوں گے جب اس کے باسیوں کو امن و سکون نصیب ہوا ہوگا۔ نوع انسانی کی خون آشام تاریخ اپنے آپ کو بار بار دہراتی رہی ہے‘ اس شہر پر قبضے کے لیے ہونے والی لڑائیوں کا شمار ناممکن اور یہاں مرنے و مجروح ہونے والوں کی گنتی انسانی ذہن کو تھکا دینے والی ہے۔ یہ مقدس شہر کتنی ہی بار اجڑا اور پھر اسی تابانی کے ساتھ دوبارہ آباد ہوا۔ حملہ آوروں نے ہر بار اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی مگر آبادکاروں نے پھر اسے جوش و خروش سے تعمیر کیا۔ حالیہ امریکی فیصلہ یروشلم کو پرامن بنائے گا یا اس کی تاریخ میں ایک اور بربادی کا اضافہ کرے گا‘ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کر سکتا ہے۔ سرِدست یروشلم پر خوف کے سائے ایک بار پھر گہرے ہو گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).