بچہ بازی: جدید دور میں جنسی غلامی کی شرمناک مثال


گو دنیا اکیسویں صدی میں سانس لے رہی ہے کہ جب انسانی غلامی کا تصور بھی محال نظر آتا ہے لیکن حقیقت اتنی دلفریب نہیں۔ بدقسمتی سے آج بھی صاحب ثروت و اقتدار افراد اور غریب، مجبور و بیکس لوگوں کے درمیان استحصال کا وہ کھیل جاری ہے کہ جس کا انجام جنسی غلامی ہے۔ قدامت اور روایت پسند افغانی معاشرہ میں صدیوں سے جاری اس ثقافت کا نام بچہ بازی ہے۔

بچہ بازی (فارسی اصطلاح۔ مطلب بچوں سے کھیل)کی روایت میں بالغ پکی عمر کے مرد کم عمر نو بالغ لڑکوں کو عورتوں کا لباس پہنا کر ناچ، گانے اور جنسی تفریح کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ درحقیقت وہ ان بچوں کو غریب خاندانوں سے خرید کر انہیں اپنی ملکیت کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔ جس سے ان کا سماجی رتبہ بڑھتا ہے۔ بچہ بازی کی اصطلاح ان لوگوں کے لیے نئی نہ ہو گی کہ جنہوں نے افغانی نژاد ادیب خالد حسینی کی ناول دی کائیٹ رنر (The Kite Runner) کا مطالعہ کیا ہو کہ جس میں بچہ بازی کا تذکرہ ہزارہ کے یتیم بچے سہراب کے حوالے سے تھا۔ جو آصف کے ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار ہوا۔ اس کے علاوہ مشہور دستاویزی فلم دی ڈانسنگ بوائز آف افغانستان(پی بی ایس فرنٹ لائن)جو افغانی صحافی نجیب اللہ قریشی نے 2010 میں بنائی) نے بھی دنیا کو اس قبیحہ ثقافت سے روشناس کروایا جو جنسی تشدد کے زمرے میں شمار ہوتی ہے اور انسانی حقوق کی پامالی کی شرمناک مثال ہے۔

بچہ بازی کی یہ ثقافت جنوب اور مشرقی افغانستان کے دیہی علاقوں میں عام ہے۔ حالانکہ بظاہر یہ صاحبِ ثروت و اقتدار افراد، جو بچہ باز کہلائے جاتے ہیں، سڑکوں اور غریب اور مجبور گھروں کے نو بالغ اور بالعموم یتیم بچوں کو خرید کر اور روپے پیسے یا تحائف کا لالچ دے کر اس غرض سے لاتے ہیں کہ ان کی حفاظت اور سرپرستی کریں گے۔ مگر درحقیقت وہ ان کم سن لڑکوں کو زنانہ کپڑے اور پاؤں میں گھونگھرو بندھوا کے ناچ گانے اور جسم فروخت کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔ بالعموم ان بچوں کی عمریں دس سے اٹھارہ برس تک کی ہوتی ہیں۔ لیکن بعض صورتوں میں پانچ سال کی عمر بھی مشاہدہ کی گئی ہے۔ جتنا اچھا ناچ گانا ہو گا اور جتنی شکل میں جاذبیت ہو گی اسی لحاظ سے مقبولیت اور پیسے ناچ کے دوران اچھالے جاتے ہیں۔ مجرے کے اختتام پہ دوسرے سردار، دوست احباب ان بچوں پہ بولیاں لگاتے ہیں۔ اس طرح یہ مجبور بچے نہ صرف مالکوں کی ذاتی تفریح بلکہ ان کے کاروبار میں بھی معاونت کرتے ہیں۔ تماش بینوں کی رقم یا مالکوں کی ماہانہ رقم سے ان بچوں کس غریب خاندان چلتا ہے۔

بی بی سی کے ایک مضمون میں پندرہ سالہ امید (فرضی نام) کی کہانی ہے۔ کہ جو دس سال کی عمر میں یتیم ہو گیا۔ سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے اپنی ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت اس کی ذمہ داری تھی۔ لہذا وہ شادی اور دعوتوں میں ڈانس کرنے لگا جس کے عوض اسے دو ڈالر کے قریب آمدنی اور پلاؤ کے چاول مل جاتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ اس کی ماں کو اس صورتحال سے تکلیف ہے اس کو اپنے بیٹے کے استحصال سے زیادہ اس کی فکر زیادہ ہے کہ کل اس کے بچے کیا کھائیں گے۔ اس طرح امید بچپن سے محروم بچپنے میں کمائی اور مالک کی خوشنودی کی فکر میں مبتلا ہے۔

جنوبی اور وسطی ایشیا میں واقع افغانستان کی تہذیبی اور ثقافتی روایت قدیم ہے۔ گزشتہ کئی دھائیوں سے عالمِ جنگ میں مبتلا افغانستان کی دھرتی کی کوکھ میں بیروزگاری، غربت، جہالت، محتاجی اور یتیمی پنپ رہی ہے۔ جس نے عوام کو جہاں بے شمار مسائل میں جکڑ رکھا ہے وہاں بالخصوص طالبان کے دور کے بعد بچہ بازی کی صنعت کو بھی خوب فروغ دیا ہے۔ ایک اسلامی جمہوریہ ہونے کے ناطے ہم جنس پرستی مذہبی اور حکومتی قوانین میں یکسر ناقابلِ قبول جرم ہیں۔ تاہم طالبان کے دور میں (1999۔ 2001) جب عورتوں پر سخت پابندیاں نافذ تھیں وہیں بچہ بازی پہ بھی سخت پابندی تھی اور اس کی سزا پھانسی تھی۔ اس سختی کی وجہ سے یہ ثقافت دب گئی لیکن طالبان کے جانے کے بعد دوبارہ پنپنے لگی۔ باوجود اس کے کہ بچہ بازی ابھی بھی قانون کی نظر میں جرم ہے۔ یہ قبیح ثقافت اس کھلے راز کی طرح ہے کہ جو سب پر منکشف تو ہے مگر کوئی اس پر بات نہیں کرتا۔

افغانستان میں امریکی جنگ اور بچہ بازی کی ثقافت میں فروغ جراتمند صحافی نجیب اللہ قریشی کی 2010 میں ریلیز ہونے والی ڈاکیومنٹری (The dancing boys of Afghanistan)نے جہاں دنیا کو ششدر کر دیا وہاں ان امریکی سپاہیوں کو بھی حیران کر دیا کی جو افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے مقامی پولیس، سرداروں اور افسران کا رویہ دیکھ رہے تھے۔ اور طالبان کی سختی کے بعد اب دوبارہ بچہ بازی کی ثقافت کو پنپتے اور بچوں کا جنسی طور پہ تشدد ہوتے دیکھ رہے تھے۔ ان امریکی فوجیوں کو خاص ہدایت تھی کہ دخل اندازی مت کرو کیونکہ یہ وہ جنگی افسران اور افغانی ملیشیا ہیں کہ جنہوں نے طالبان کے خلاف امریکیوں کا ساتھ دیا تھا۔ (دی نیوز ٹائمز۔ 20 ستمبر 2015)

دو افسران جنہوں نے بچہ باز افغان پولیس کے خلاف سخت ایکشن لیا ان کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔ ان افسران کے نام ڈن کیومنز (اسپیشل فورسز کیپٹن) اور چارلس مارٹ لینڈ (سارجنٹ فرسٹ کلاس) ہیں۔ یہ واقعہ 2011 کا تھا کہ جب انہوں نے مقامی پولیس کو بچہ بازی کے واقعہ پہ پٹائی کر دی تھی۔ (دی نیو یارک ٹائمز)

امریکہ کے اخبارات اور ٹی وی پروگرامز نے امریکی حکومت پہ تنقید کی کہ جنگ پہ اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود بچہ بازی کی ثقافت سے پردہ پوشی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ کیونکہ بچہ بازی جنسی استحصال ہے کی اس کے اثرات دور رس ہیں۔ مثلا اسٹرس، نا امیدی، ڈیپریشن خوف، غصہ بدلہ وغیرہ۔ یہ بچے جب جوان ہو جاتے ہیں اور عورتوں کی طرح ناچ اور گانا نہیں کر سکتے تو یہ تمام منفی جذبات عود کے آتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اس کام کے علاوہ اور کوئی کام نہیں آتا جو وہ کر سکیں۔ لہذا وہ اپنے مالک کی طرح دلال بن کر اپنے بچے خریدتے اور انہیں بیچتے ہیں۔ اس طرح بچہ بازی کی ثقافت کے ذریعہ جنسی تشدد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ان میں نشہ اور شراب کا استعمال بھی عام ہو جاتا ہے۔

ہیومن رائٹس کے گروپ کے مطابق افغان سماج میں عورتوں اور مردوں کے درمیان سخت تفریقی رویہ اور ملاپ کی کمی نے اس رویہ کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ساتھ ہی حکومتی سطح پہ بدعنوانی، انصاف تک رسائی کا نہ ہونا، جہالت، غربت، قوانین کا اطلاق نہ ہونا اور تحفظ کی کمی وغیرہ چند عوامل ہیں کہ جو (AIHRC)یعنی (Afghanistan Independent Human Rights Comission)نے اپنی 2014 کی رپورٹ میں پیش کیے۔

روک تھام اور حفاظتی اقدامات
بچہ بازی کے خلاف سب سے پہلے بین الاقوامی سطح پہ آواز اٹھانے والی خاتون رادھیکا کمار سوامی ہیں۔ جنہوں نے بطور اسپیشل ریپریزینٹیٹو فار چلڈرن اینڈ آرمڈ کونفلیکٹ میں 2006 سے اقوام متحدہ میں کام کیا ہے۔ اپنے ایک انٹرویوز کے ذریعہ انہوں نے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزائیں، تشدد کا شکار بچوں کو سپورٹ اور ان حالات سے نکلنے میں مدد کے علاوہ حفاظتی اقدامات مثلاً غربت کے لئے خلاف جنگ، بچوں کو اسکول میں مصروف رکھنے، والدین میں آگہی پیدا کرنے کی ضرورت پہ زور دیا ہے۔

اس سلسلے میں ہم مزید آگہی، سماجی سطح پہ سیمینارز، دستاویزی فلم شوز، مضامین کی اشاعت سے اور تشہیری اداروں سے کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).