ہم دسمبر میں مسکرا نہیں سکتے


یوں تو 16 دسمبر کے دن چھٹی نہیں تھی لیکن برسر روزگار نہ ہونے کی وجہ سے روز مرہ کے اوقات کار فراغت میں ہی گزر رہے تھے لہذا ایک دوست کے گھر جانے کا سوچا۔
دروازہ کھٹکھٹایا تو ان کے بڑے بھائی باہر نکلے۔ موصوف آفس جانے کی تیاری میں تھے۔

میں نے سلام دعا کے بعد چہرہ شناسی کا علم آزماتے ہوئے پوچھا کہ ’سورج تو سر پر آن پہنچا ہے، آپ آفس جانے کے ارادے میں کہیں کمزور تو نہیں پڑ رہے؟
جوابًا انہوں نے کہا کہ ’یار بس پتا نہیں کیوں لیکن آج آفس جانے کو دل نہیں کر رہا، یہ بالکل ایسا ہی ایک دن ہے جب طبیعت خود سوال کرے کہ آج آفس ہی کیوں جایا جائے؟

میں نے کہا ’آج ویسے بھی دسمبر کی سولہ تاریخ ہے شاید اس 16 کے ہندسے کا بوجھ آج کے دسمبر میں بھی شامل ہو اور یہ بوجھ ہی طبیعت میں بے زاری کا باعث بن رہا ہو۔ ‘
انہوں نے سر ہلاتے ہوئے یقینًا کا لفظ استعمال کیا اور کہا کہ ’ کچھ تاریخیں واقعتًا دنوں پر اثرانداز ہوتی ہیں اور 16 دسمبر بھی شاید ایک ایسی ہی تاریخ ہے۔ ‘ وہ چل دیے اور میں سوچنے لگا۔

71ء کا بوجھ شاید مجھے زیادہ محسوس نہیں ہوتا، ہاں ایک غم ضرور ہے کہ پاکستان دولخت ہو گیا تھا لیکن 14ء کے زخم ہر سال آرمی سکول کے سانحے سے جڑی یادوں کو کریدتے ہیں اور یوں کریدتے ہیں کہ دن سوگ میں بدل جاتا ہے۔

ان ننھی جانیوں کی قبریں آج بھی تازہ پھولوں سے ڈھکی ہیں اور مائیں ان قبروں پر بالکل ایسے ہی غمناک اور نوحہ کناں ہیں جیسے یہ زخم آج ہی لگے ہوں۔
ہم ان دکھوں کا مداوا نہیں کر سکے۔ نہ پاکستان کو دولخت کرنے والوں کے گریبانوں کو پکڑ سکے اور نہ ہی سروں میں گولیاں مارنے والوں کی ٹوٹی کمر کا ایکسرے بطور ثبوت دکھا سکے۔ ہم ان ماؤں کو بھی سوائے جھوٹے دلاسوں کے اور کچھ نہیں دے سکے۔
سوگ یا غم تھا، دن گزر گیا۔ نیا دن، نئی تاریخ آگئی۔

کوئٹہ کے ایک چرچ میں دہشت گردوں کے حملے سے اخباری اطلاعات کے مطابق 10 سے زائد افراد جاں بحق اور قریب 30 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب چرچ میں مسیحی سکول کے بچوں کی تقریب جاری تھی۔

حملہ آوروں نے بچوں کو خاص طور پر نشانہ بنانا چاہا لیکن سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مہربانی کہ ان کے بروقت تعاون سے زیادہ جانوں کا ضیاع نہیں ہوا اور تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا۔

یہ 17 دسمبر کا دن ہے۔
اس سے ایک دن قبل کی تاریخ اور آج سے تین سال پہلے آرمی پبلک سکول پر بھی تبھی حملہ کیا گیا تھا جب سکول کے بچے ایک تقریب کے حوالے سے بڑے ہال میں موجود تھے۔
کلیوں کو مسلنے کا مطلب جانتے ہیں آپ؟ یہ پورے باغیچے کو اجاڑ بنا دینے سے زیادہ ظالم ہوتا ہے۔

آج کوئٹہ واقعے کے بعد ہنگامی بنیادوں پر ایک بار پھر سے سکولوں کی سیکیورٹی سخت کر دینے کی ہدایات جاری ہیں اور تمام سکولوں کو پھر سے سردیوں کی چھٹیاں قبل از وقت کرنے کا کہا گیا ہے۔
اس موقع پر چرچ اور دیگر عبادت گاہوں کی سخت سیکیورٹی پر بھی پلان تیار کیا جا رہا ہے اور کوششیں ہیں کہ کرسمس یا نئے سال جیسے کسی بھی تہوار کے لیے لوگوں کی اجتماعی تقریبات پر پابندی عائد کی جائے تاکہ سیکیورٹٰی کو ممکن بنایا جا سکے۔

دسمبر کے زخموں میں سے ایک بار پھر خوں رستا نظر آرہا ہے۔ ایسے زخموں میں کو آرام آنا تو درکنار ان میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ آج کی 17 تاریخ بھی اسی میں شامل کر لیجیے۔
100 سے زائد چینلوں کی کوئٹہ چرچ دھماکے کے باہر کی لائیو کوریج اور بریکنک نیوز کے بعد بالاآخر شام میں کچھ دیر انٹرنیٹ پر صرف کیے تو پتا چلا۔

چین میں سال کا سب سے بڑا کرسمس بازار سجایا گیا ہے جس میں ثقافتی، تہذیبی اور لسانی بنیادوں سے مبرا نئے سال کو خوش آمدید کہنے اور منانے کے حوالے سے تمام تر لوازمات بازار کی رونقوں میں شامل ہیں۔

نیویارک ٹائمز اسکوائر کے عین بیچ میں نصب گھڑیال کی ٹک ٹک راہ چلتے لوگوں کو خاصی محظوظ کر رہی ہے کیونکہ ٹک ٹک کی یہ آواز کسی گزرتے وقت کی اداسی کم اور آنے والے نئے سال کی خوشی زیادہ بانٹ رہی ہے۔

پیرس میں آئفل ٹاور کے گرد ’18‘ کا رنگ برنگا اور خوش نما ہندسہ پیرس کے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ یہاں آنے والے سیاحوں میں بھی نئی مسرتیں بانٹ رہا ہے یہاں نئے سال کی خوشی میں فرینچ کے روایتی ’لافٹر سٹریٹ تھیٹر‘ کا اہتمام بھی کیا جانا ہے لیکن۔ !
اس لاسلکی دنیا سے باہر آنے پر یہاں کا کڑوا سچ یہ ہے کہ ’ہم دسمبر میں مسکرا نہیں سکتے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).