فلم مائی کا لال سنسر ہوتی ہے


پچھلے دنوں فلم سنسر بورڈ نیا نیا بنا ہے اور اچھا بنا ہے۔ اس میں کچھ علما بھی شامل ہیں جن کو ویسے کبھی فلم دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ پہلی بار یہ دیکھ کر حیران بھی ہوئے کہ تصویریں بھی چلتی پھرتی اور بولتی ہیں۔ آخر ہمارے ملک میں ایک بڑی آبادی ہے جو فلم نہیں دیکھتی، ان کی نمائندگی بھی ضروری تھی۔

پھر بہت سے لوگ ایسے ہیں جو فلم دیکھتے ہیں لیکن اس کی سمجھ نہیں رکھتے۔ ان کی نمائندگی کے لئے ایسے لوگ بھی سنسر بورڈ میں رکھے گئے ہیں تاکہ اس کی ہیئت زیادہ سے زیادہ جمہوری ہو جائے۔ اب بظاہر کسی کو شکایت کا موقع نہ ہونا چاہیے۔

لیکن تعجب کی بات ہے کہ اب بھی کچھ لوگ اس کی تشکیل سے مطمئن نہیں۔ ان میں سے ایک تو خیر ہم خود ہیں دوسرے راولپنڈی کے ایک حکیم صاحب ہیں جنہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ایک حکیم کو بھی سنسر بورڈ میں شامل کرنا چاہئیے کیونکہ فلم میں حکیم کا کردار بڑے قابل اعتراض انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ بڈھا بے وقوف سنکی وغیرہ، سنسر بورڈ میں کوئی حکیم ہو گا تو اس قسم کی شرارت کا تدارک تو کر سکے گا۔

حکیم صاحب نے تدارک کا اچھا نسخہ بتایا ہے یعنی سنسر بورڈ میں ایک حکیم ہونا چاہیے۔ لیکن ٹھہرئیے۔ حکیم ہے تو ایک ڈاکٹر بھی چاہیے۔ ورنہ تو فلم والے اپنی فلموں میں ڈاکٹر موٹو قسم کے کردار بھر دیں گے۔ اب ہومیوپیتھی بھی تسلیم ہے۔ لہذا ایک ہومیوپیتھ کو بھی نکس وامیکا کی شیشی لئے سنسر بورڈ میں موجود رہنا چاہیے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ ایک سلوتری ہو تو عین مناسب ہے۔ آخر فلموں میں انسان نہیں جانور اور مویشی بھی تو دکھائے جاتے ہیں۔ دوسرے اہل حرفہ بھی نمائندگی کے مستحق ہیں۔ ایک بار خاکروبوں کو شکایت پیدا ہوئی تھی کہ فلمیں صاف ستھری نہیں بنتیں۔ لانڈری والوں نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ ہماری فلمیں بے داغ ہونی چاہئیں۔ نمائش سے پہلے ہمیں دی جائیں تاکہ ہم انہیں ڈرائی کلین کر دیں۔ جاٹ حضرات بھی ایک فلم کا نام بدلوا چکے ہیں۔ وہ جو جٹی تھی آخر چٹی بن کر ریلیز ہوئی۔ آئندہ بھی غلطی کا احتمال ہے۔ لہذا لازم ہے کہ ایک جاٹ سنسر کے وقت کھاٹ ڈالے سنسر بورڈ میں مستقل بیٹھا ہو۔ جہاں کوئی بات خلاف مزاج پائی وہیں اس نے فلم پروڈیوسر کے دھول جمائی۔

باربر حضرات کی یونین چونکہ زیادہ مضبوط ہے اس لئے وہ اپنے حقوق کے بارے میں زیادہ خبردار رہتے ہیں۔ وہ کئی بات شکایت کر چکے ہیں کہ فلمساز ان کے اچھے خاصے پیشے کی محض اپنی تفریح طبع کے لئے حجامت کر دیتے ہیں لہذا آدمی کوئی ان کا بھی دم تحریر ہونا چاہیے۔ یعنی سنسر بورڈ کے اندر۔ جہاں کسی سین میں بال برابر بات قابل اعتراض نظر آئی، انہوں نے قینچی چلائی۔ یاد رہے کہ کسی باربر کو رکن بنانے میں سنسر بورڈ کا خرچ بھی بچے گا۔ اس کے لئے قینچی خریدنی نہیں پڑے گی۔ اس کے پاس ہوتی ہے۔

ہمارے ان بھائیوں کی چوکسی فلموں تک محدود نہیں۔ اردو کی کسی درسی کتاب میں کسی شاعر یا قافیہ پیما نے لکھ دیا تھا ”نائی آیا ہے، چارپائی لایا ہے“۔ اسلام سلمانی صاحب نے فوراً اعتراض کیا کہ چارپائی لانا نائی کا کام نہیں۔ ٹیکسٹ بک بورڈ والوں کو یہ فقرہ خارج کرتے ہی بنی۔ اس کی بجائے غالباً یہ فقرہ رکھوایا گیا ”ہیئر ڈریسر آیا ہے، سیفٹی ریزر لایا ہے“۔

پس ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ایک وقت آتا ہے جب کہ سب طبقوں کی نمائندگی سنسر بورڈ میں ہو جاتی ہے تاکہ فلم ”مائی کا لال“ عرف ”طوفان محبت“ سنسر ہونے کے لئے تیار ہے۔ ہال پورا بھرا ہوا ہے۔ یہ دو ڈھائی سو آدمی تماشائی نہیں سب کے سب فلم سنسر بورڈ کے ممبر ہیں۔ ادھر ایک وکیل صاحب ہیں۔ ایک منشی جی بھی کان پر قلم رکھے تشریف فرما ہیں۔ ایک تھانیدار بھی ہتھکڑی لئے موجود ہے۔ ایک پٹواری بھی اپنے بستے سے ٹیک لگائے منتظر ہے۔ ایک سیٹھ صاحب ہیں۔ ایک سود خور کابلی بھی سائیکل لئے موجود ہے۔ حتی کہ ایک طرف افیمچیوں کا نمائندہ بھی افیم کی طشتری لئے اور گنڈیریاں رومال میں باندھے بیٹھا ہے کیونکہ فلم والوں کو اور کوئی نہیں ملتا تو انہی کا مذاق اڑا دیتے ہیں۔ اب کسی فلمساز نے ایسی حرکت کی تو دیکھے گا۔ ادھر کوئی ایسا ویسا فلمی سین سکرین پر آیا ادھر اگر یہ اس وقت پینک میں نہ ہوئے، انہوں نے فلمساز کے قرولی بھونکی۔ گیدی کہیں کا۔ ٹھہر تو سہی۔

اچھا اب باتیں بند کیونکہ فلم شروع ہو گئی ہے۔ لیجیے لڑکی یعنی ہیروئن اٹھلاتی ہوئی پانی بھرن کو چلی۔ پانی بھرن کا تو بہانہ ہے، آج کل دیہات میں بھی نلکے لگے ہوئے ہیں۔ مقصود اس کا ہیرو کو منہ دکھانا ہے۔ یک لخت آواز آتی ہے ”ٹھہرو، روکو فلم۔ یہ فلم نہیں چل سکتی“۔

بتی جلا کر دیکھتے ہیں کہ ایک صاحب گل مچھوں والے کھیس کی بکل مارے گھونسا تانے کھڑے ہیں اور بنکار رہے ہیں ”کس بد ذات نے بنائی ہے یہ فلم“۔ یہ صاحب والدین کے نمائندے ہیں اور فرما رہے ہیں ”ارے ہماری لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں؟ اجنبیوں سے چھپ چھپ کر ملتی ہیں؟ ارے کچھ حیا شرم کرو۔ کیا تمہاری بہو بیٹیاں نہیں ہیں؟ “ فلمساز وعدہ کرتا ہے کہ جی اچھا یہ سین میں نکال دوں گا۔ اصلاح کر دوں گا۔

فلم آگے چلتی ہے۔ لنگڑا ولن ہیروئن پر دست درازی کرنا چاہتا ہے۔ وہ عفت کی پتلی وار خالی دیتی ہے بلکہ اس کا کتا ولن کی ٹانگ لیتا ہے۔ ولن سے کچھ اور تو ہوتا نہیں کھسیانا ہو کر ایک ڈنڈا کتے کے رسید کرتا ہے۔ چیاؤں، چیاؤں، چیاؤں۔

یک لخت ہال میں ایک کڑکا بلند ہوتا ہے، بلے بلے بلے بلے بلے بلے، لائٹ جلا کر دیکھا۔ یہ ولنوں کے نمائندے تھے جن کو ایک زمانے سے شکایت تھی کہ فلموں میں ولن کا کردار اچھے معنوں میں نہیں پیش کیا جاتا۔ نمائندے صاحب نے الٹا ہاتھ منہ پر رکھ کر بکرا بلایا اور للکارا ”اؤ کڈھو فلمساز نوں کتھے آ۔ میں اوہدی لت بھن دیاں گا۔ میں ایس فلم نوں اگ لگا دیاں گا“۔

بری مشکل سے ان کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ اعتراض ان کا ٹھیک ہے۔ ہماری فلموں میں ولن کو عموماً بدمعاش یا غنڈہ دکھایا جاتا ہے۔ اکثر تو اسے ہیرو کے ہاتھوں مار کھاتے بھی دکھاتے ہیں جو دل آزار ہونے کے علاوہ خلاف حقیقت بھی ہے کیونکہ اصل زندگی میں عموماً ہیرو مار کھاتا ہے۔

ولنوں کے نمائندے کو یہ اعتراض بھی ہے کہ فلم میں ہیروئن کی شادی ہیرو کے ساتھ کی جاتی ہے حالانکہ ولن کے ساتھ ہونی چاہیے جیسا کہ اصل زندگی میں ہوتا ہے۔ پھر کسی شخص کو عین نکاح کے وقت رنگ میں بھنگ ڈالنے کی اجازت بھی نہ دینی چاہیے کہ ٹھہرو یہ شاید نہیں ہو سکتی۔ کیوں بھئی کیوں نہیں ہو سکتی؟ ہیرو میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں؟ جب ہیرو کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے تو ولن کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ بھی تو انسان ہے۔ وہ بھی تو مسلمان ہے۔

ولن نمائندے کا اعتراض بھی نوٹ کیا جاتا ہے۔ معقول بات سے کون اختلاف کر سکتا ہے۔ اب فلم آگے چلتی ہے۔ لیکن نہیں۔ اتنے میں دوسری طرف سے ایک صاحب ہاتھ کھڑا کرتے ہیں کہ ٹھہریے، نام پتہ لکھائیے۔

آپ کون ہیں؟ میں محکمہ انسداد بے رحمی حیوانات کا نمائندہ ہوں۔ جناب آپ لوگوں نے کیا سمجھ کر اس معصوم کتے کے لاٹھی جمائی۔ لکھوائیے پروڈیوسر صاحب اپنا نام پتہ ولدیت سکونت۔ آخر پروڈیوسر یہ وعدہ کر کے چھوٹتا ہے کہ یہ سین بھی نکال دیا جائے گا۔

سیٹھوں کا نمائندہ وہ تمام فقرے اور سین نکلوا دیتا ہے جن میں پیسے والوں پر طنز کا پہلو ہے کیونکہ ساری خرابیاں طبقاتی شعور ہی سے پیدا ہوتی ہیں۔ جیب کتروں کا نمائندہ اس سین پر اعتراض کرتا ہے جس میں ہیرو کی جیب کٹ جاتی ہے۔ اس کا اعتراض بھی بجا ہے۔ اس قسم کے مناظر سے ایک خاصے بڑے طبقے یعنی جیب کتروں کے متعلق لوگوں کے دلوں میں عداوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ فلم پروڈیوسر یہ اعتراض نوٹ کرنے کے لئے جیب کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو اپنا پارکر پین غائب پاتا ہے۔ جیب کتروں کا نمائندہ پین اس کو واپس کرتے ہوئے کہتا ہے اب تو ثبوت مل گیا نہ کہ جیب کترے بھی شریف آدمی ہوتے ہیں۔

ان مراحل سے گزر کر ہم فلم کے آخری سین پر آتے ہیں اور سنسر بورڈ یہ حکم دینے کو تیار ہوتا ہے کہ یہ جو چند مناظر ندی نالوں اور چوپال کی گپ شپ اور دلہن کے سولہ سنگھار وغیرہ کے بلا اعتراض رہ گئے ہیں ان کو پاس کیا جاتا ہے کہ اتنے میں ایک صاحب آنکھوں میں لپ لپ سرمہ کاندھے پر رومال پہلے ہاتھ کھڑا کرتے ہیں، پھر خود کھڑے ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں ”حضرات میں ہوں انجمن اصلاح اخلاق کا نمائندہ۔ میں فلم بنانے کے کاروبار کو سراسر خلاف شرع سمجھتا ہوں۔ بند کیجیے فلم اور فلمساز دونوں کو ڈبے میں۔ کیا یہ ملک اس لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں فلمیں بنیں؟ ”ہم سب ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).