پلے بوائے میگزین سے ہم سب تک۔ گوشوارے دیکھ لیجیے


زندگی کے بیس سال یوں گزرے کہ میں نے کچھ نہیں لکھا ماسوائے پراجیکٹ رپورٹس اور تحقیقی مقالوں کے۔ بیس سال پرے قلم سے کچھ اور رشتے بھی تھے پر کہیں روزگار کی تگ ودو میں ان پر بہت گرد پڑ گئی۔ پاس سے گزرتا تھا پر پہچان نہیں پاتا تھا۔ پھر کچھ دوستوں نے یاد کرایا کہ زندگی جامد سی ہو چلی ہے۔ لہجے میں تلخی در آئی ہے۔ برسوں سے گرداگرد ہوتا تماشہ دیکھ دیکھ کر جی اوب سا گیا ہے۔ بات سنی تو ہے پر کہی نہیں ہے۔ یوں لگا کہ اب بھی نہ کہہ سکا تو مر ہی نہ جاوں۔ ایک عمر کے بعد قلم اٹھایا۔ کچھ منتشر سے لفظ کاغذ پر بکھیرے اور ایک مشہور اخبار کو بھیج دیے۔ کرنی یہ ہوئی کہ کالم کی صورت وہ لفظ ادارتی صفحات پر چھپ بھی گئے۔ کچھ دن یہ سلسلہ چلا پھر ایک تحریر مسترد ہو گئی کہ آتش گیر بہت تھی۔ اگلی لکھی تو اس کا طول شب فراق جتنا نکلا اور اخبار کا صفحہ تنگ تھا۔ اس کے بعد کی تحریر قومی مفاد کی دیوار نہ پھلانگ پائی۔ یوں ایک کے بعد ایک تحریر واپس آتی گئی۔ اخبار میں لکھنے کی شرائط کی اب جو تصویر بن رہی تھی اس میں میرے رنگ بھرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ سو پھر چپ ہو کر اپنا جی جلانا شروع کر دیا۔ آگ تھی پر دھویں کے اخراج کے سب راستے بند تھے تو سینے میں سانس آہستہ آہستہ پھر سے رکنے لگ گئی۔

میری تین بٹا چار بہتر لینہ اس وقت ایک نیوز چینل کے ویب پیج پر بلاگ لکھا کرتی تھیں۔ ان کی دیکھا دیکھی اسی چینل کے ویب ایڈیشن پر میں نے بھی تحریر بھیج دی۔ پر ڈھاک کے پات ابھی تک تین ہی تھے۔ قومی مفاد، مذہبی حساسیت اور طے شدہ امور۔ زمین پر زلزلہ تھا پر اخبار کے ویب ایڈیشن کا گل محمد ابھی بھی ہلنے سے معذور تھا۔ تو یہ در بھی بند ہو گیا۔ انہی دنوں لینہ کا تعارف وجاہت مسعود سے ہوا اور ان کے بلاگ ہم سب پر چھپنے لگ گئے۔ میں اپنی دنیا میں ابھی خود فراموش تھا کہ لینہ نے زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا۔ اس کے بار بار کہنے پر ایک تحریر لکھی اور بغیر کسی توقع کے اٹھا کر ہم سب پر بھیج دی۔ دو دن بعد نہ صرف کہ وہ تحریر چھپی بلکہ وجاہت مسعود کا ایک ایسا توصیفی جواب بھی ملا کہ آنکھیں بہت دیر بے یقین رہیں۔ ابھی گمان کی سرحد سے پرے قدم رکھا نہیں تھا کہ وجاہت کی کال آ گئی۔ وجاہت کو پڑھتا تھا تو سوچتا تھا کہ کوئی آب رواں جیسی اس قدر دل نشیں نثر کیسے لکھ سکتا ہے۔ ایک ایک جملہ ایسا کہ پہروں اس پر سر دھنیے۔ ایک میں کم مایہ، راہ شوق کے سفر کے پہلے سنگ میل سے بھی کوسوں دور کھڑا لفظوں کو اکھڑ پنے سے جوڑنے والا نیم محرر اور ادھر وجاہت مسعود جیسا جولاہا جس کی کھڈی پر لفظ ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے اور روز ایک پشمینہ چادر کھڈی سے برآمد ہوتی تھی۔ پر کال آئی تو مجھے بولنے کا موقع نہ ملا۔ وجاہت نے اپنے دل نشیں انداز میں تعریف کا ایک سائبان تان دیا۔ یہ تو پتہ تھا کہ میں اس لائق نہیں ہوں پر حوصلہ افزائی کی ایسی روایت سے آشنائی بھی تو نہ تھی سو ہم بھی اسی شجر کے نیچے اپنی کج مج بیانی کے ساتھ خیمہ زن ہو گئے۔ سیکھنے کا ایک دبستان کھل رہا تھا اور ایسے کم بخت بھی نہ تھے کہ اس میں داخل نہ ہوتے۔

ہم سب میں جو لکھا، جیسے لکھا اسے ہم سب نے ویسے ہی چھاپا۔ کبھی کسی مصلحت کو میری تلخ بیانی اور شوریدہ سری کی راہ میں نہیں آنے دیا۔ مضمون عدنان کاکڑ کی نظر سے گزرا یا وجاہت کی، کبھی کسی نے میرا دامن نہیں پکڑا، ہاں راستے میں روشنی کیے رکھی کہ میرے لیے یہ سفر ایک مستقل سیکھنے کی جا رہی۔ کچھ عرصہ گزرا تو مجھے یہ شرف بھی مل گیا کہ ہم سب کے ایک مختصر سے ادارتی حلقے میں مجھے بھی شامل کر لیا گیا۔ میں ہم سب کو اپنا گھر جانتا ہوں، اپنا خاندان مانتا ہوں۔ اس کی ہر کامیابی پر سرشار ہوتا ہوں اور اس کی ہر کوتاہی کو اپنی کمی سمجھتا ہوں۔ یہ ساری ذاتی واردات بیان کرنے کا مقصد یہ یہ بتانا ہے کہ ہم سب سے میرے تعلق کی نوعیت کیا ہے تاکہ جو بات میں اس کے بعد کرنے لگا ہوں اس کے وزن یا بے وزنی کا فیصلہ کرنا آپ کے لیے آسان ہو۔

ہم سب پر ان دنوں تصاویر کے حوالے سے ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ میں نفسیات اور فلسفے کے میدان سے دور کچھ مشاہدات اور نظریات کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ وقار ملک، ظفراللہ خان، حسنین جمال، عدنان کاکڑ، وسی بابا، ظفر عمران، وجاہت مسعود اور ڈاکٹر خالد سہیل نے تقریبا تمام زاویے پہلے ہی پیش کر دیے ہیں۔ ایسا کرتے ہیں کہ کچھ امثال سے بات واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1953 میں امریکہ میں مردانہ طرز زندگی کی تفریح طبع کے لیے ہیو ہیفنر نے ایک جریدے کا اجراء کیا۔ آج تمام دنیا اس جریدے کو پلے بوائے میگزین کے نام سے جانتی ہے۔ پلے بوائے میں عریاں اور نیم عریاں ماڈلز کی تصاویر کے علاوہ جنسی حوالوں سے انٹرویوز اور مضامین چھپتے رہے۔ تاہم یہ تصاویر اس ذیل میں آتی ہیں جنہیں ہم softcore کہتے ہیں۔ پلے بوائے کی پالیسی کے مطابق کبھی اس جریدے میں ایسی تصاویر نہیں لگیں جنہیں ہم hardcore کی ذیل میں رکھ سکیں۔ اسی طرح کے دو اور مشہور میگزین پینٹ ہاوس اور مے فئیر کے نام سے سامنے آئے اور ان کی اشاعت بھی بے پناہ رہی۔ ان تمام جریدوں میں خواتین کی عریاں اور نیم عریاں تصاویر لطیف حدود میں رہیں اور جنسی عمل کی تصویر کشی کبھی نہیں کی گئی۔ اس طرح ان جریدوں نے ایک پالیسی کا تعین کر لیا جس میں آج نصف صدی گزرنے کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

1974 میں لیری فلنٹ نے Hustler میگزین کا اجراء کیا۔ اس میگزین نے عریانیت میں نئے زاویے دریافت کرنا شروع کیے اور ایک عشرے کے اندر اندر یہ ایک مکمل پورنوگرافک میگزین کی صورت اختیار کر گیا۔ ہسلر میں آپ کو hardcore تصاویر ملتی تھیں۔ لیکن اس مقابلے میں پلے بوائے شامل نہیں ہوا اور اس نے اپنی شناخت sofcore کے حوالے سے قائم رکھی۔ ہسلر نے جنسی عمل کے ہر زاویے کی تصویر کشی کر کے اپنی نئی مارکیٹ تخلیق کی پر اس سے پلے بوائے کی اشاعت پر فرق نہیں پڑا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں میگزین اپنی جداگانہ شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔ جس قسم کی تصاویر آپ کو ہسلر میں ملتی ہیں، پلے بوائے میں ان کا گزر نہیں ہے۔

1920 میں نیویارک سے ڈیوٹ اور لیلا والس نے ایک جریدہ چھاپنا شروع کیا اور اس کا نام ریڈرز ڈائجسٹ رکھا۔ آج اس ڈائجسٹ کی اشاعت لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے۔ ریڈرز ڈائجسٹ میں آپ کو مختلف النوع مضامین ملتے ہیں۔ بہت عرصے تک اس کے ہر شمارے میں تیس مضامین چھپتے رہے۔ بعد میں اس میں تبدیلی ہوئی۔ تصویری مضامین اور تبصرے بھی اس کا حصہ بنے لیکن اس نے قریب سو سال کے عرصے میں اپنی ایک شناخت برقرا ر رکھی اور اپنی بنیادی پالیسی سے انحراف نہیں کیا۔ ایسی ہی مثال نیشنل جیوگرافک سپیشل بھی ہے جو 1888 سے مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ آپ کے سامنے ایک مضمون رکھ دیا جائے تو پڑھنے لکھنے والا شخص آپ کو فورا بتا دے گا کہ یہ مضمون ریڈرز ڈائجسٹ کا ہے یا نیشنل جیوگرافک کا۔ دونوں جریدے جنس کو ایک موضوع کے طور پر دیکھنے میں کوئی امر مانع نہیں سمجھتے اور اس حوالے سے تصاویر بھی شائع کرتے ہیں پر امریکا میں کسی کےسامنے آپ ایک جنسی تصویر کشی کی مثال رکھیں تو وہ فورا آپ کو بتا سکتا ہے کہ یہ تصویر پلے بوائے کی ہے، ہسلر کی ہے، ریڈرز ڈائجسٹ کی یا نیشنل جیوگرافک کی ہے۔ ان تمام جرائد کا ایک الگ الگ تشخص ہے اور یہی تشخص ان کا سرمایہ بھی ہے، ان کی شناخت بھی ہے اور ان کی اشاعت کا راز بھی۔ یہی تشخص اس بات کا بھی فیصلہ کرتا ہے کہ کس قسم کے قارئین کون سے جریدے کو میسر ہیں۔

ہماری جوانی کے دنوں میں پاکستان میں شدید جنسی گھٹن کا عالم تھا جس میں شاید اب بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ضیاء صاحب کے بعد تباہ شدہ فلم انڈسٹری اپنے پیر پر کھڑے ہونے کے لیے ایک ڈوبتے شخص کی مانند ہر تنکے کا سہارا ڈھونڈ رہی تھی۔ انہی میں سے ایک تنکا جسم کی زیادہ سے زیادہ نمائش تھی۔ اس زمانے میں فلمی جرائد بھی موجود تھے جیسے دھنک اور نگار۔ دھنک کو مکمل طور پر فلمی میگزین کہنا شاید مناسب نہ ہو لیکن اس کا زیادہ تر حصہ فلم اور ٹی وی کی خبروں، اداکاروں کے انٹرویوز اور بسا اوقات چٹ پٹے سکینڈلز پر مشتمل ہوتا تھا۔ نگار غالبا ایک مکمل فلمی جریدہ تھا۔ ستر کی دہائی میں دھنک کا آغاز کرنے والے کہنہ مشق صحافی سرور سکھیرا تھے۔ نگار کا آغاز الیاس رشیدی صاحب نے 1948 میں کیا تھا اور کئی معروف صحافی اس کے ساتھ وابستہ رہے۔ دھنک اور نگار میں تصاویر بھی چھپتیں پر ان کا زیادہ زور مضامین اور انٹرویوز پر تھا۔ 1980 کی دہائی میں ایک اور فلمی میگزین چترالی کے نام سے بازار میں آیا۔ اس سے کوئی بڑا نام وابستہ نہیں تھا اور اس میگزین کی تمام تر توجہ بی گریڈ اداکاروں کی نیم برہنہ تصاویر چھاپنے میں تھی۔ مضامین کا معیار انتہائی پست تھا۔ دھنک، نگار اور چترالی تینوں بازار میں موجود رہے۔ تینوں نے اپنی شناخت قائم رکھی۔ اس ضمن میں بھی کسی تصویر یا مضمون کو دیکھتے ہی یہ بتانا ممکن تھا کہ یہ کس میگزین سے ہے۔ یہ بات بھی طے تھی کی چترالی کا کوئی قاری سنجیدہ طبقے سے تعلق نہیں رکھتا تاہم چترالی بڑی تعداد میں شائع ہوتا رہا۔

بات طویل ہو جائے گی اس لیے اسے سمیٹتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ آج بھی صحافت کی دنیا میں سنجیدہ اور چیتھڑا اخباروں میں ایک حد فاصل قائم ہے۔ اشاعت دونوں کی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں سنجیدہ اخبارات کو کوالٹی پریس اور زرد صحافت کے علمبردار اخبارات کو ٹیبلوائڈ کہا جاتا یے۔ ڈیلی سن اور ڈیلی مرر دونوں کی اشاعت سب سے زیادہ ہے۔ دونوں ٹیبلوائڈ ہیں۔ دونوں میں ایسی تصاویر یا مضامین چھپتے ہیں جنہیں سنجیدہ یا کوالٹی پریس دور سے سلام کرتا ہے۔ رائے عامہ بنانے یا قومی پالیسی کی تشکیل میں دونوں کا کردار اہم نہیں سمجھا جاتا۔ ان کے قارئین بھی ایسے ہی ہیں۔ گارڈین، انڈیپنڈنٹ اور ٹائمز وہ اخبارات ہیں جو کوالٹی پریس یا براڈشیٹس کہلاتے ہیں۔ اب کی اشاعت نسبتا کم ہے مگر یہ سنجیدہ قارئین اور رائے کی تشکیل کرنے والے حلقوں تک رسائی رکھتے ہیں۔ یہ حتی الامکان اپنے صفحات کو ایسے مضامین اور تصاویر سے پاک رکھتے ہیں جو ان کی اقدار یا ان کے تشخص سے لگا نہیں کھاتیں۔ جو مضمون ان کے صفحات میں شائع ہو اسے سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور اس سے قومی پالیسی متاثر ہوتی ہے۔ کوالٹی پریس اور ٹیبلوائڈ اپنی الگ الگ شناخت، حلقہ اثر اور قارئین رکھتے ہیں اور ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ شناخت قائم رہے۔

شناخت کا بحران سمجھنا ہو تو دور دیس جا بسنے والی دوسری یا تیسری نسل کو دیکھ لیجیے۔ ان کے لیے ایک ترکیب ایجاد ہوئی تھی۔ اے بی سی ڈی۔ امریکن بورن کنفیوژڈ دیسی۔ اس نسل کے شناخت کے بحران نے ان کے شدت پسند بننے میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔ شناخت کا تعین اور تشخص کے پیمانے مقرر کرنا ایک بہت مشکل کام ہے اور بہت بڑا چیلنج ہے۔ جب میں ہم سب کا حصہ بنا تو برسوں میں پہلی بار مجھے یوں لگا کہ مجھے زبان مل گئی ہے۔ مجھے ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آیا جہاں میں لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی بات کہہ سکتا تھا اور میرے اردگرد ایسا ہی ایک حلقہ موجود تھا جس کے ساتھ میں اپنی سوچ بانٹ سکتا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے ساتھ میرا ہم دلی اور ہم نوائی کا رشتہ تھا۔ ہم سب پر میں صرف لکھتا نہیں رہا بلکہ میں ہم سب کا قاری بھی تھا اور ہوں۔ ہم سب پر چھپنے والے کم مضامین ہیں جو میں پڑھ نہیں پایا۔ ایک قاری کی حیثیت سے ہم سب ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو ایک صحت مند بیانیے کی تشکیل کا نقیب، دانشوارانہ ہم آہنگی کا سرخیل اور ایک عقلی مکالمے کا پرچارک ہے۔ ہم سب سنجیدہ ذہن کے لیے ایک خزینہ ہے۔ یہ لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ سوچ میں تبدیلی لاتا ہے۔ یہ متبادل زاویے فراہم کرتا ہے۔ انسان دوستی، سیکولر اقدار، اخلاقیات اور معاشرتی سدھار جیسے بڑے موضوع یہاں تشکیل پاتے ہیں۔ سنجیدہ قارئین کی ایک کہکشاں اس کا اثاثہ ہے۔ یہی سب اس کا اختصاص ہے اور یہی اس کا تشخص ہے، یہی اس کی شناخت ہے۔

جنس ایک سنجیدہ موضوع ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس موضوع پر بات کرنا ہمارے یہاں ایک taboo ہے۔ ہم سب نے اس ٹیبو کو توڑا اور جنس کے حوالے سے بہت خوبصورت تحاریر ہم سب کی زینت بنتی رہیں اور اب بھی ایسی تحاریر کا سلسلہ جاری ہے جو اس موضوع پر ہمارے معاشرے میں باقی رہ جانے والی تشنگی کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔ جنس کے حوالے سے یہ تحاریر ہم سب کے تشخص کا ایک لازمہ ہیں لیکن میری انتہائی حقیر رائے میں کہیں بیچ میں ایسی تحاریر بھی ہم سب کے صفحات پر چھپیں جو شاید چترالی یا پلے بوائے یا ڈیلی سن جیسے جریدوں کے تشخص سے زیادہ قریب تھیں۔ ان تحاریر پر پہلے بات ہو چکی ہے اس لیے میں نشر مکرر سے تہی کرتے ہوئے مدعا بیان کیے دیتا ہوں لیکن اس سے پہلے تصاویر پر بات کر لی جائے۔

تصاویر کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ ہم سب کے دو سالوں میں شاید ہزاروں تصاویر چھپی ہوں گی۔ اگر ان سب تصاویر کا جائزہ لیا جائے تو ایسی تصاویر جن پر اعتراض اٹھا یا جو موضوع بحث رہیں ان کی تعداد شاید دس سے پندرہ ہو گی۔ بہت ہو گیا تو بیس تصاویر۔ نہ صرف یہ کہ ان کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے بلکہ ان کی وجہ سے ہم سب کی رینکنگ یا اس کے قارئین کی تعداد میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ لیکن یہ کہنے میں مجھے کوئی عار نہیں کہ یہ چند تصاویر ہم سب کے تشخص کے حوالے سے غیر مناسب تھیں۔ سنی لیون کی اگر ہر تصویر قابل اشاعت ہے تو کیا ہم اس کی پورنوگرافک تصویر بھی شائع کر دیں؟ کیا ثانیہ مرزا کی ہزاروں تصاویر میں سے ہم وہ ہی تصویر منتخب کریں گے جس میں اس کا فن نہیں، جسم بول رہا ہو؟ یہ دونوں جواب کم ازکم میرے لیے نفی میں ہیں۔ امریکہ میں ہسلر میگزین یہ تصویریں شائع کرے گا کیونکہ یہ اس کی پالیسی کے مطابق ہیں اور ریڈرز ڈائجسٹ نہیں کرے گا کیونکہ یہ اس کی پالیسی کے مطابق نہیں ہیں۔ اس سے یہ سمجھنا بڑی کور چشمی ہو گی کہ ریڈرز ڈائجسٹ کے قاری کو ان تصاویر کا علم ہی نہیں۔ یقینا ہے لیکن وہ ریڈرز ڈائجسٹ ایسی تصاویر کے لیے نہیں خریدتا۔ اگر اسے ایسی تصاویر میں دلچسپی ہے تو پلے بوائے اور ہسلر موجود ہیں۔ اپنے قاری کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کے ایف سی اور پیزا ہٹ ساتھ کھلے ہیں لیکن کے ایف سی میں پیزا نہیں بیچا جائے گا اور پیزا ہٹ میں فرائیڈ چکن نہیں ملے گا۔ ہر دکان ایک خاص مال سے پہچانی جاتی ہے۔ اسے چوں چوں کا مربہ بنانا عقلمندی نہیں کہلائے گی۔

اب آجائیے اس بات کی طرف کہ ایسی تحاریر یا تصاویر سے کیا فائدہ یا کیا نقصان ہو سکتا ہے۔ فائدہ ماسوائے اس کے کیا ہو گا کہ کچھ ویوز مل جائیں گے۔ ہم سب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایسی کوئی متنازعہ سطحی تحریر ٹاپ ٹین میں تو کیا ٹاپ ہنڈرڈ میں بھی نہیں ہے۔ تو ویوز یا رینکنگ کی مد میں فائدہ تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی حال تصاویر کا ہے۔ جن تحاریر پر مذکورہ تصاویر موجود تھیں ان کے ویوز کا ایک جائزہ برادر عدنان کاکڑ پہلے ہی دے چکے ہیں۔ تو تصویر اور تحریر دونوں نے کوئی ایسا فائدہ تو نہیں دیا کہ اس کا تسلسل ہم سب کی بقا یا ترقی سے مشروط ہو جائے۔

اب آئیے نقصان کی جانب۔ پہلا نقصان یہ کہ کچھ سنجیدہ قارئین ہجرت کر گئے جن کے نزدیک ایسی تصاویر یا تحاریر اخلاقیات سے متصادم تھیں۔ اب سوال ان کی اخلاقی اقدار کے تجزیے کا ہے ہی نہیں۔ آپ لاکھ تجزیہ کر کے انہیں غلط ثابت کیجیے اب وہ اس بحث سے لاتعلق ہیں اور انہیں واپس لانا ناممکنات میں سے۔ دوسرا نقصان یہ کہ کچھ دوستوں نے ہم سب کے لیے لکھنا چھوڑ دیا۔ کہیے تو نام بھی گنوائے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے جن سے میرے شدید نظریاتی یا فکری اختلافات ہیں پر ان کی تحاریر سے ہم سب میں ایک توازن کی فضا قائم ہوتی تھی۔ ان کی داںش میں کلام نہیں تھا اور ان کے چلے جانے سے مکالمے کی روایت کو نقصان پہنچا ہے۔ چونکہ ہم سب اس روایت کا پرچم اٹھائے ہے اس لیے اس کو سرنگوں دیکھنا کم ازکم مجھے گوارا نہیں۔ تیسرا نقصان یہ کہ ہم سب کا ادارتی گروہ جو عمومی حالات میں ایک صفحے پر ہوتا تھا اس میں بھی اختلاف پیدا ہوا۔ یہ اختلاف اب نجی بحث سے باہر آ کر ہم سب کے صفحات کی زینت بن گیا ہے۔ یہ تو کبھی میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ حسنین اور وقار جیسے میرے دوست ایک دوسرے کی بات سمجھ نہیں پائیں گے۔ اس گروہ کا ہر رکن ایک نگینہ ہے۔ یہ کم یاب ہیں اور ان کا یہ اختلاف ایک بڑے نقصان کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔

چوتھا نقصان یہ ہوا کہ ہم میں سے بہت سے اپنے اپنے حلقوں میں کٹہرے میں کھڑے کر دیے گئے۔ ایک متنازعہ تحریر اگر دانش اور دلیل پر استوار ہو تو اس کا دفاع پورے قد سے کیا جا سکتا ہے پر ہمارے نسبتا کم قدامت پرست گھرانوں میں بھی بڑے بوڑھوں کو کولہوں کے ناپ اور مہین ساڑھی سے چھلکتے جسم کی ایک سنجیدہ ویب سائٹ پر موجودگی کا کیا عذر پیش کیا جائے۔ پانچواں نقصان یہ ہوا کہ حاسدین اور مخالفین کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ ایلن مور کا وی فار وینڈیٹا کا ایک جملہ ہے کہ اس نقاب کے پیچھے صرف گوشت پوست کا چہرہ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ایک خیال ہے اور خیال کو گولی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ خیال بلٹ پروف ہوتا ہے۔ ہم سب کا بیانیہ، ہم سب کی تحاریر، ہم۔ سب کے دلائل سب بلٹ پروف تھے۔ اس پر علمی نقد ممکن تھا پر اس کی تحقیر کرنا، اس کا ٹھٹھا اڑانا، اس پر سطحی تبصرے کرنا اور اس میں مفاد اور منفعت کے پہلو ڈھونڈنا ناممکن تھا۔ مخالفین کا ایک جم غفیر ہم سب کے در کے باہر بندوقیں سنبھالے ہمیشہ سے مچان زن رہا ہے۔ فرق یہ تھا کہ پہلے تحریر بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو میں باہر نکلتی تھی اور ساری بندوقوں کی ساری گولیاں کند ہو جاتی تھیں۔

اس دوران نجانے ہم نے یہ فیصلہ کیوں کیا کہ کبھی کبھی سوزوکی مہران کی سواری کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ ہر تحریر اور ہر تصویر کو معیار کی کسوٹی پر کیوں پرکھا جائے۔ پر یہ بھول گئے کہ سوزوکی مہران میں تو کنکر سے بھی ڈینٹ پڑ جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھانت بھانت کی بندوقوں سے فائر ہوئے ہر سطحی اور عامیانہ کمنٹ کو کوئی رکاوٹ نہ ملی اور شکستگی ہمیں جھیلنی پڑی۔ ہزار میں سے ایک غلط انتخاب نے کتنی طول طویل جدوجہد کو خاک نہ بھی کیا ہو تو بھی اس کی آب وتاب کو کسی حد تک گہنا دیا۔ رینکنگ بڑھی سنجیدہ تحاریر کے سر پر اور اگلوں نے اسے غیر سنجیدہ تحاریر اور متنازعہ تصاویر کے کھاتے میں ڈال کر ہم سب کا تقابل پورن سائٹس سے جوڑ ڈالا۔ اب اگر یہ چند صفحے نامہ اعمال میں نہ ہوتے تو کوئی شک کا کونسا بیرومیٹر لاتا پھر؟ یہ پیمانے اور یہ تنقید لاکھ غلط سہی، اس کے پیچھے حسد اور جلن کی کارفرمائی اپنی جگہ پر یہ موقع حاسدین کو دینے کا گناہ تو اپنے سر ہی لینا پڑے گا۔

ان تمام نقصانات سے بڑھ کر جو حادثہ ہوا وہ شناخت اور تشخص کی گمشدگی تھی۔ مصائب اور تھے پہ دل کا جانا۔ عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے۔ ہم سب کی ایک ان لکھی پالیسی تھی۔ ایک ساکھ تھی۔ ہم سب نے سنجیدہ اور متبادل بیانیے کی علمبرداری کا منصب بڑی عرق ریزی سے کمایا تھا۔ اس تشخص اور شناخت میں سطحی تحریروں اور عامیانہ تصاویر کا گزر نہیں تھا۔ اگر پلے بوائے جیسا جریدہ ہسلر سے متاثر نہیں ہوتا اور اپنی پالیسی میں تبدیلی نہیں لاتا۔ اگر ریڈرز ڈائجسٹ پلے بوائے کی روش پر نہیں چلتا۔ اگر گارڈین ڈیلی سن کی کہانیوں سے گریز کرتا ہے۔ اگر دھنک چترالی جیسی تصاویر لگانے سے انکاری ہے تو یہ سمجھ لینا ہمارے لیے کیا مشکل تھا کہ ہمیں اپنے مقام کی حفاظت کے لیے کچھ حدودوقیود کا تعین خود کرنا ہے۔

ہم ہنس کی چال چل رہے تھے۔ وہی چلتی رہنی چاہیے تھی۔ چال بدل کر کیا پایا ماسوائے اس کے کہ پرواز کا افق مختصر ہو گیا۔ میں یہ جانتا ہوں کہ زندگی کا ہر فیصلہ نفع نقصان کے گوشوارے پر ہوتا ہے۔ یہ نفع صرف پیسے کا نہیں ہے۔ یہ اطمینان قلب کا بھی ہو سکتا ہے۔ دلجوئی اور ہم دلی کا بھی ہو سکتا ہے، خیال خاطر احباب کا بھی ہو سکتا ہے، معاشرتی، عمرانی اور سماجی مقام کا بھی ہو سکتا ہے اور رائے عامہ پر اثر پذیری کا بھی ہو سکتا ہے۔ ہم نے کھاتے اور گوشوارے سامنے رکھ دیے ہیں۔ کریڈٹ میں نفع پڑا ہے۔ ڈیبٹ میں نقصان رکھا ہے۔ ایک میں سے دوسرے کو نفی کیجیے۔ سادہ سی مساوات ہے۔ جس طرف جھک جائے ادھر کا فیصلہ کر لیجیے۔ ہم تو عرض ہی کر سکتے ہیں۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad