انڈیا: ’گلے لگانے کو غیر اخلاقی رویہ کہہ کر سکول سے نکال دیا گیا‘


انڈیا کے سکولوں میں مخلوط تعلیم عام ہے (فائل فوٹو)

انڈیا کے سکولوں میں مخلوط تعلیم عام ہے (فائل فوٹو)

’سکول کا کام تھا۔ میری دوست کام کر رہی تھی، کام ختم ہونے کے بعد میں نے پوچھا کہ تم نے کیسے کیا؟ پھر میں نے اسے گلے لگایا اور تعریف کی۔ کیا کسی کو گلے لگانا اور یہ کہنا کہ آپ نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جرم ہے؟‘

امت (فرضی نام )، جو 12 ویں کے طالب علم ہیں یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ انھوں نے ایسا کیا غلط کیا جس کی وجہ سے انھیں سکول سے نکال دیا گیا۔

امت کہتے ہیں ’میرے دماغ میں کچھ بھی غلط نہیں تھا۔ میں نے اسے اساتذہ کے کمرے کے باہر گلے لگایا‘۔

کیرالا کے ایک سکول کے دو بچوں کو اگست میں سکول سے معطل کیا گیا تھا۔ جس کے بعد ان بچوں نے چائلڈ رائٹس کمیشن کی مدد لی۔ تاہم گذشتہ ہفتے کیرالا ہائی کورٹ نے سکول کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

یہ بھی پڑھیے:

’انڈیا میں ریپ کے جھوٹے دعوے ایک مسئلہ‘

ٹیچر نے ریپ کر کے اسقاط حمل بھی کروا دیا

’ریپ کرنے والے کو اتنا مارو کہ کھال اتر جائِے‘

اس دن کیا ہوا؟

امت بتاتے ہیں، ’میں اسے مبارکباد دے رہا تھا۔ تبھی وہاں سے ایک استانی گزریں اور ہمیں دیکھتے ہی وہ کچھ اس طرح چیخنے لگیں جیسے ہم کچھ غلط کر رہے ہوں۔ انھوں نے ہم سے کچھ پوچھا ہی نہیں اور براہ راست وائس پرنسپل کے پاس لے گئیں۔ ہم نے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ ہم ایسا ویسا کچھ نہیں کر رہے تھے۔ ہم معمول کے مطابق مل رہے تھے‘۔

امت کہتے ہیں ’مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیوں ایک عام رویے کو غیر اخلاقی رویے کا رنگ دے دیا گیا؟ اس کے بعد ہمیں تحریری طور پر معافی مانگنے کے لیے کہا گیا۔ ہم دونوں وہاں کھڑے تھے۔ ہمیں کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ ہم نے کیا کیا ہے؟ اس کے باوجود ہم اس کے لیے معذرت کر رہے تھے‘۔

انھوں نے کہا ’اس کے بعد، دونوں کے والدین اور پرنسپل بھی اس معاملے میں شامل ہو گئے‘۔

’وجہ معلوم نہیں‘

امت کہتے ہیں ’مجھے نہیں معلوم میری کلاس ٹیچر کو میں کیوں پسند نہیں تھا۔ وہ مجھے ہر چھوٹی چھوٹی بات کے لیے تنگ کرتی تھیں۔ بہت بار کوشش کی کہ اپنے والدین کو یہ سمجھا سکوں لیکن سمجھا نہیں سکا‘۔

امت بتاتے ہیں ’انھوں نے میرے والدین اور دادی کے سامنے میری توہین کی۔ میرے لیے ایسے الفاظ کا استعمال کیا جیسے میں نے کسی کو گلے نہیں لگایا بلکہ ریپ کر دیا ہو۔ میں نے اپنی دوست کو اس کی اجازت سے گلے لگایا تھا۔ اس نے شکایت نہیں کی‘۔

لڑکی سے بیان کو تبدیل کرنے کو کہا گیا؟

امت کی دوست ساریتا (فرضی نام) نے بتایا کہ ان پر امت کے خلاف ایک بیان دینے پر زور دیا گیا تھا۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ انھیں یہ کہنا چاہیے کہ امت نے انھیں اس کی مرضی کے خلاف گلے لگایا۔

امت کہتے ہیں ’ایک چھوٹی سی بات نے ہمارے خاندان کا سکون چھین لیا، میرے والد آٹو موبائل انجنیئر تھے، ان پر بہت دباؤ تھا، انھوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا‘۔

ساریتا نے کہا کہ ’میں ایک امتحان دے سکتی ہوں لیکن میں کلاس نہیں لے سکتی۔ یہ میرے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ میں بارہویں میں ہوں اور بورڈ کا امتحان ہے۔‘

ساریتا کا کہنا ہے کہ ابتدائی وقت بہت مشکل تھا اور خاندان کو مختلف طریقوں سے پریشان کیا گیا۔ وہاں اتنی زیادہ کشیدگی تھی کہ وہ راتوں کو سو نہیں پاتی تھیں لیکن اب وہ اپنے حقوق کے لیے لڑنا چاہتی ہیں۔

’یہ سب کیوں برداشت کروں‘

امت کا کہنا ہے ’میں اور میری دوست ایک دوسرے سے کافی قریب ہیں اور ہمارے گھر والے اس بارے میں جانتے ہیں۔ ہمارے انسٹاگرام اکاونٹس پر ہماری کئی تصاویر تھیں۔ سکول نے ہماری ان ذاتی تصاویر کا استعمال ہماری توہین کرنے کے لیے کیا۔‘

ساریتا نے الزام لگایا ہے کہ انھوں نے ایک دوسرے سکول میں داخلے کی کوشش کی لیکن اس سکول نے دیگر سکولوں میں بھی غلط معلومات فراہم کر دی ہیں۔

امت کا کہنا ہے کہ ’اگر میں نے کچھ غلط نہیں کیا تو میں یہ سب کیوں برداشت کروں؟ وہ میری ساتھ مجرموں جیسا برتاؤ کر رہے ہیں‘۔

امت کے مطابق اب صورت حال یہ ہے کہ ’انھوں نے ہماری تصاویر پبلک کر دی ہیں، اس کی وجہ سے دوسرے سکولوں میں داخلہ نہیں مل رہا۔ سب کہہ رہے ہیں کہ میں نے اسے پانچ منٹ تک باںہوں میں جکڑے رکھا، کیا یہ ممکن ہے؟ کوئی مجھے پڑھنے یا امتحان دینے سے نہیں روک سکتا۔ اب میں ہائی کورٹ تک جاؤں گا‘۔

سکول کا کیا کہنا ہے؟

اگرچہ امت کہتے ہیں کہ انھیں صرف دوستی کے لیے سزا دی گئی تاہم سکول کا کہنا ہے کہ دونوں طالب علموں کا رویہ درست نہیں تھا۔

30 نومبر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں سکول نے ‘الزامات’ کا ذکر کیا ہے، جو 22 ستمبر کو درج کیے گئے۔

امت پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے خود کم عمر لڑکی کو گلے لگایا۔ اس کے علاوہ، انھوں نے انسٹاگرم پر تصاویر بھی پوسٹ کیں‘۔

ان کو بتایا گیا کہ وہ آ کر اپنے سکول کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ لے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32545 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp