’میری استطاعت تھی اس لیے 33 سال مقدمہ لڑا‘


خواجہ عبدالسمیع کو تقریباً 33 برس کی قانونی جنگ کے بعد اپنی اُس جائیداد کا قبضہ آخر کار مل ہی گیا جس کے کاغذات انھیں 43 برس قبل پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے دیے تھے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ عبدالسمیع نے اس طویل مقدمے کے بارے میں بتایا کہ’یہ جائیداد کے حصول کے لیے لڑا گیا مقدمہ نہیں بلکہ اصولوں اور انصاف کے حصول کی جنگ تھی جو میں نے تنہا لڑی اور جیتی بھی۔‘

انھوں نے بتایا کہ انھیں سی ڈی اے نے ان کی جائیداد کے کاغذات سنہ 1974 میں دے دیے تھے جس کے لیے انھوں نے اس وقت 48 ہزار روپے سے زیادد کی رقم ادا کی۔

یہ بھی پڑھیے

محمد علی جناح کی کوٹھی ‘دشمن کی جائیداد’ کیوں؟

جائیداد کا تنازع: ‘گینگ ریپ’ کے بعد خاتون پر پانچویں بار تیزاب پھینکا گیا

خواجہ عبدالسمیع کا پلاٹ

خواجہ عبدالسمیع کا پلاٹ

خواجہ عبدالسمیع نے 1974 میں 48 ہزار روپے سے زیادد کی رقم میں پلاٹ خریدا تھا

کراچی کے رہائشی عبدالسمیع ایک کاروباری شخصیت ہیں اور وہ مختلف ممالک کا سفر کرتے رہتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ وہ سنہ 1983 میں مری گئے اور واپسی پر اپنے رہائشی پلاٹ کا معائنہ کرنے پہنچے تو دیکھا کہ وہاں نئے مکان کی تعمیر آخری مراحل میں تھی۔

ان کے مطابق وہاں موجود ایک شخص جو خود کو مکان مالک ظاہر کر رہا تھا وہ اس بات کا دعویدار تھا کہ اس نے یہ پلاٹ مجھ سے خریدا تھا۔

خواجہ عبدالسمیع کا پلاٹ

خواجہ عبدالسمیع کے پلاٹ پر قبضے کے بعد تعمیر کیے گئے مکان کو اب گرا دیا گیا ہے

عبدالسمیع نے سی ڈی اے سے رابطہ کیا اور شنوائی نہ ہونے کی صورت میں اس معاملے میں پہلا مقدمہ سنہ 1984 میں دائر کیا گیا جس میں سی ڈی اے کو بھی فریق بنایا گیا۔

اس کے بعد یہ مقدمہ راولپنڈی کی مختلف عدالتوں میں چلتا رہا اور پھر اسلام آباد ہائی کورٹ بننے کے بعد اس کی سماعت وہاں جاری رہی۔

عبدالسمیع خان نے بتایا ‘اس عرصے میں مختلف عدالتوں نے ان کے حق میں فیصلہ دیا تاہم بار بار حکم امتناعی مل جانے سے مقدمہ طوالت اختیار کرتا رہا۔’

آخر کار سنہ 2015 میں اکتوبر میں عدالتِ عظمی نے عبدالسمیع کے حق میں فیصلہ تو دے دیا تاہم ابھی ان کا قانونی سفر ختم نہیں ہوا تھا۔

اس کے بعد انھوں نے اپنی جائیداد کے قبضے کا مقدمہ پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کیا جس کا فیصلہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کیا اور اس پر خاصی مشکلات کے بعد عمل درآمد ہوا۔

خواجہ عبدالسمیع کا پلاٹ

’مختلف عدالتوں نے ان کے حق میں فیصلہ دیا تاہم بار بار حکم امتناعی مل جانے سے مقدمہ طوالت اختیار کرتا رہا‘

خواجہ عبدالسمیع نے بتایا کہ’اس پوری قانونی جنگ کے جنگ دوران مجھے ہمیشہ ایماندار جج ملے جنھوں نے کبھی بلواسطہ یا بلا واسطہ کوئی مطالبہ نہیں کیا لیکن میرا مقدمہ بار بار حکم امتناعی جاری کیے جانے کی وجہ سے طویل ہوا۔’

اس مقدمہ کے دوران ان کی جائیداد پر غیر قانونی قبضہ کرنے والوں نے کئی بار انھیں ان ہی کی جائیداد کی قیمت دے کر معاملہ ختم کرنے پر زور دیا تاہم عبدالسمیع کا کہنا تھا کہ ‘تم نے اس شخص کی جائیداد پر قبضہ کیا ہے جس کو اللہ نے استطاعت دی ہے کہ وہ یہ مقدمہ لڑ سکے۔‘

43 برس قبل 48 ہزار روپے سے زیادہ قیمت پر جو رہائشی پلاٹ عبدالسمیع نے اپنی اہلیہ کے نام پر خریدا تھا ان کے مطابق اب اس کی قیمت 20 سے 25 کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔

خواجہ عبدالسمیع کہتے ہیں کہ’اس پورے مقدمے کے دوران میری خاندانی زندگی متاثر رہی اور مجھے دھمکیاں بھی ملتی رہیں لیکن میں نے اس مقدمے کی پیروی صرف اس وجہ سے نہیں روکی کہ قانون اور انصاف پر سے میرا یقین متزلزل نہ ہو جائے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp