مملکت الباکستان کا صوبہ البنجاب



دو قومی نظریے کے نام پر حاصل ہونے والے پاکستان کی حاکم اشرافیہ کو جس پہلے چیلنج کا سامنا تھا وہ یہ تھا کہ اب اس نئے ملک میں جس میں درحقیقت ایک سے زیادہ اقوام موجود تھیں، انہیں کس طرح ایک قوم بنایا جائے۔ دو قومی نظریے کے جوش میں یہ تو کہہ دیا گیا کہ برصغیر میں دو قومیں آباد ہیں؛ مسلم اور ہندو، لیکن پاکستانی اشرافیہ کو یہ علم تھا کہ قوم کی تعریف مذھب سے نہیں بلکہ ثقافت سے تعبیر ہوتی ہے۔ پاکستان میں اکثریت بنگالی قومیت کی حامل تھی جن کی وہی ثقافتی جڑیں تھیں جو مشرقی پاکستان میں بسنے والے ہندو بنگالیوں کی تھیں۔ اسی طرح پنجابی، بلوچ، سندھی، پشتون اور دیگر اقوام تھیں جن کی ثقافت کی تاریخ برصغیر میں اسلام کی آمد سے پرانی تھی اور مذہب ان ثقافتوں کی بنیاد میں تو نہیں، صرف حاشیوں میں موجود تھا۔

اس صورت حال میں پاکستان کی اردو سپیکنگ اشرافیہ نے فیصلہ کیا کہ ایک متبادل شناخت اور ثقافت کا تعارف پاکستان کو ایک قوم کا تاثر دینے کے لئے ضروری ہے۔ سو پاکستانی عوام کو باور کرانے کی کوشش کی گئی وہ بنگالی، پنجابی، پشتون وغیرہ بعد میں ہیں، پہلے وہ پاکستانی ہیں اور غالب اکثریت اس سے بھی پہلے مسلمان ہے۔ اس متبادل شناخت کے لئے ایک متبادل تاریخ بھی گھڑی گئی جس میں ہندوستان پر حملہ آور ہونے والا ہر مسلمان پاکستانیوں کا ہیرو ٹھہرایا گیا۔ ثقافت کی بنیادی اکائی چونکہ زبان ہوتی ہے چنانچہ یہ طے کیا گیا کہ نئی پاکستانی قوم کی ایک ہی زبان ہو گی، یعنی اردو۔

اس نئی قوم کی تشکیل اور اردو کے اسلام لے آنے پر کام تقسیم ہند سے بھی پہلے شروع ہو چکا تھا لیکن اس پراجیکٹ کو پاکستان کی تشکیل کے بعد ریاستی بنیادوں پر استوار کیا گیا۔ سیاسی شعور کی ایک لمبی تاریخ رکھنے والے بنگالیوں نے اس بیانیئے کو یکسر مسترد کر دیا اور اس کے خلاف مزاحم ہوئے۔ کئی دوسری اقوام نے یوں مزاحمت نہیں بھی کی تو اپنی ثقافت اور اپنی شناخت سے جڑی رہیں۔ واحد قوم پنجابی تھی جس کی اشرافیہ نے شراکت اقتدار کے عوض اردو سپیکنگ اشرافیہ کے اس بیانئے کو اپنایا کہ پاکستان کے قیام کے بعد ہر دوسری قومی شناخت کی تحلیل ضروری ہے اور اردو ہی اس نئی شناخت کی مشترکہ زبان ہونی چاہئے۔

زبان ثقافت کی بنیادی اکائی ہوتی ہے اور پنجابی زبان گروی رکھنے کا عمل پاکستان بننے سے بھی پہلے شروع ہو چکا تھا۔ پنجاب سے اٹھنے والے سب سے بڑے مسلمان شاعر اقبال نے جو روزمرہ میں پنجابی ہی بولتے تھے مشق سخن کے لئے اردو اور فارسی کا انتخاب کیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر پنجاب کے تمام شعرا نے اردو ہی میں شاعری کی۔ آپ کو پنجاب میں اقبال اور فیض کے حافظ تو مل جائیں گے لیکن استاد دامن کی پنجابی زبان میں مزاحمتی شاعری سے واقف لوگ بہت کم ملیں گے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستانی پنجابی شاعر منیر نیازی کو بھارتی پنجاب میں تو پڑھا جاتا ہے لیکن پاکستانی پنجاب میں منیر نیازی کی اردو شاعری ہی زیادہ معروف ہے۔ رہ گئے بھارتی پنجابی شاعر تو شو کمار بٹالوی جیسے پنجابی شاعری کے ستون کا نام تک اکثر پاکستانی پنجابیوں نے نہیں سن رکھا۔

پاکستان بننے کے بعد پنجابی زبان کی بیخ کنی زور پکڑ گئی۔ پاکستانی اشرافیہ نے پنجابی اشرافیہ کے ساتھ مل کر ہم پنجابیوں کو یہ باور کروایا کہ وارث شاہ کی زبان دراصل اجڈ اور گنواروں کی زبان ہے۔ پنجاب کے شہری علاقوں میں لوگ اپنے بچوں کو پنجابی کی بجائے اردو سکھانے لگے۔ آج آپ کو پنجاب میں ایسے لوگ تو مل جائیں گے جو اس چیز کے حامی ہیں کہ پنجاب کے سکولوں میں عربی پڑھائی جانی چاہیے لیکن ایسے لوگ خال خال ہی ملیں گے جو سکولوں میں پنجابی پڑھائے جانے کے حامی ہوں۔ ستم ظریفی ہے کہ عربی زبان میں نہ تو ان کے صوبے کا نام درست لکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کے ملک کا۔ پڑھایا جانا تو دور کی بات ہے، پنجاب کے کئی سکول ایسے ہدایت نامے جاری کر چکے ہیں جن کے تحت سکول کی حدود میں طلباء پر پنجابی بولنا منع ہے۔ پنجابی زبان آج زبان کے درجے سے گر کر صرف بولی بن چکی ہے جسے آج صرف بولا جاتا ہے، پڑھا اور لکھا نہیں جاتا۔ آپ کو سندھ میں تو سندھی اخبار مل جائیں گے لیکن پنجاب میں آج تک ایک ہی پنجابی اخبار، سجن، جاری ہوا جو ریڈرشپ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو گیا۔

پنجابی زبان پر اور شناخت پر اس حملے کا نتیجہ ہے کہ میری پوری نسل سے بلھے شاہ کی شاعری جو انسانیت کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے خلاف ہے چھین لی گئی اور ہمیں بتایا گیا کی ہماری اصل شناخت اقبال کی اسلامسٹ عالمگیریت ہی میں پنہاں ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ خطہ عرب سے اٹھنے والا محمد بن قاسم ہمارا ہیرو ہے اور پنجابی بھگت سنگھ بھارت کا حالانکہ بھگت پاکستان کے مطالبے سے پہلے ہی پھانسی پر جھول چکا تھا۔ غیر پنجابی جب پاکستانی اور پنجابی اشرافیہ کے ہاتھوں اپنے استحصال کا ذکر کرتے ہیں تو انہیں یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ مورد الزام عام پنجابی نہیں۔ جن لوگوں نے آپ کے حقوق غصب کیے انہوں نے ہی مجھ سے میری شناخت، ثقافت اور تاریخ چھین لی۔

شناخت کی اس گمشدگی کا نقصان صرف پنجاب ہی نہیں پورے پاکستان کا نقصان ہے۔ شناخت اور ثقافت کھو جانے کے بعد پنجابیوں کو دوسری اقوام کا اپنی شناخت سے جڑا رہنا جب عجیب لگنے لگا تو ان اقوام کی قوم پرستی کو علاقائیت کا نام دے کر انہیں تنگ نظر بنا کر پیش کیا گیا۔ پنجاب کے ایک معروف شاعر کا شعر ہے؛

ہاں مجھے اردو ہے پنجابی سے بھی بڑھ کر عزیز
شکر ہے انور میری سوچیں علاقائی نہیں

مراد یہ کہ اپنی مادری زبان کو اردو پر ترجیح دینا علاقائیت ہے اور اس مصنوعی شناخت کی نفی ہے جس کے تحت ہم سب سے پہلے پاکستانی ہیں۔ میں اس سوچ کو پورے پاکستان کا نقصان اس لئے ٹھہراتا ہوں کہ ایک طرف تو ملک کی اقلیتی اقوام اپنی شناخت سے جڑی ہوئی ہیں اور دوسری طرف ملک کی اکثریت اپنی شناخت کی نفی کرتی نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان میں ایک ثقافتی عدم توازن پیدا ہو گیا ہے۔ اس عدم توازن کا علاج پنجابی شناخت کی بحالی ہی میں ہے۔ یہی صورت ہے پاکستان کو ایک قابل عمل کثیرالقومی معاشرہ بنانے کی۔ ستر سال میں ہم ایک مشترک مصنوعی شناخت مسلط کرنے میں ناکام ہو چکے۔ آگے کا راستہ یہی ہے کہ تقسیم ہند کے عوامل کا بوجھ کمر سے اتار پھینکا جائے اور پاکستان کو ایک کثیر القومی معاشرے کے طور پر دیکھا، سمجھا اور آگے بڑھایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).