فحاشی کی مین سپلیننگ


”میرے اندر طاقت نہیں کہ تمہیں‌ بدل سکوں
یا تمہارے طور طریقے بیان کروں
کبھی یقین نہ کرنا کہ ایک مرد ایک عورت کو بدل سکتا ہے
یہ مرد بہروپیے ہیں جو سمجھتے ہیں‌
کہ انہوں‌ نے عورت کو اپنی ایک پسلی سے پیدا کیا

عورت ایک مرد کی پسلی سے نہیں‌ نکلتی، کبھی نہیں،
یہ وہ ہے جو اس کی کوکھ سے نکلتا ہے
جیسے مچھلی پانی کی گہرائیوں‌ میں‌ سے نکلتی ہے

جیسے نہر ایک دریا سے نکلتی ہے
یہ وہ ہے جو اس کی آنکھوں‌ کے سورج کے گرد چکراتا ہے
اور تصور کرتا ہے کہ وہ مستقل ہے۔ “
نظار قبانی

(مین سلپیننگ ایک نئی اصطلاح ہے جو دو انگریزی الفاظ، مین یعنی مرد اور ایکسپلین یعنی وضاحت کرنا کو ملا کر بنائی گئی ہے۔ مریم ویبسٹر کے مطابق جب کوئی مرد نہایت انکساری سے کسی دوسرے، خاص طور پر کسی خاتون کو، کسی چیز کے بارے میں اس غلط تصور کے ساتھ کچھ بتاتا ہے کہ وہ اس چیز کے بارے میں اس دوسرے شخص سے زیادہ جانتا ہے۔

کیمبرج ڈکشنری کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دوسرے شخص کو اس انداز میں کچھ سمجھانا جیسے وہ احمق ہے۔ یہ اصطلاح خصوصاً اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب کوئی مرد کسی عورت کو کوئی ایسی بات سمجھانے کی کوشش کرے جو وہ پہلے ہی جانتی ہے۔ مدیر) Mansplain

بچے کبھی کبھار بہت گہری بات کرتے ہیں۔ میرے بیٹے نوید نے ایک دن کہا کہ امی دنیا میں‌ دو طرح‌ کے لوگ رہتے ہیں، ایک وہ جو شاور میں‌ پیشاب کردیتے ہیں‌ اور دوسرے وہ جو اس کے بارے میں‌ جھوٹ بولتے ہیں۔ میں‌ دور سے ہم سب میں‌ کچھ تصویروں‌ پر کھلبلی دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اس مباحثے میں‌ کود ماروں‌ کہ نہیں۔ پھر میں‌ نے یہ دیکھا کہ یہاں‌ مین اسپلیننگ چل رہی ہے اس لیے یہ مضمون لکھ رہی ہوں۔

انسانی جسم کو دیکھنا میرے لیے ڈاکٹر ہونے کے لحاظ سے ایک عام انسان سے مختلف ہے۔ اگر آپ بھی بھاگ کر کوڈ والے کمرے میں‌ پہنچتیں جہاں مریض مررہا ہے اور کوئی سانس کی نالی میں‌ ٹیوب ڈال رہا ہے۔ آپ میری طرح‌ مختصر الوجود ہوں تو بستر پر چڑھ کر ہتھیلیاں‌ سینے پر رکھ کر اپنا پورا وزن ڈال کر دبائیں گی کہ سرکیولیشن جاری رہے، کوئی ران میں‌ سینٹرل لائن ڈالنے کی کوشش کررہا ہے، مریض کے جسم پر کوئی کپڑے نہیں‌ بچے، مشینیں‌ سیٹیاں‌ بجارہی ہیں، آل کلیر! بجلی کے جھٹکے سینے پر لگ رہے ہیں۔ سب کچھ کرنے کے بعد مریض‌ نہ بچے تو سارا کمرہ صاف کرکے سفید چادر ڈال دی جاتی ہے اور پھر ان کے لواحقین آکر ان کو دیکھتے ہیں جن کو کچھ پتا نہیں ہوتا کہ آدھا گھنٹہ پہلے یہاں کیا سرکس چل رہا تھا۔

خواتین کے ایک بک گروپ کی ڈسکشن سے مجھے محسوس ہوا کہ ان میں‌ سے کچھ خود کو کہانی کے کردار سے الگ نہیں کرسکتیں۔ وہ ایسا محسوس کررہی تھیں‌ کہ جیسے ان کی بے عزتی ہورہی ہے۔ حالانکہ وہ ان کی زندگی سے متعلق نہیں‌ تھی۔ یہ بہت سارے مریض‌ دیکھنے کے بعد میں‌ نے سیکھا کہ دوسرے لوگ مجھ سے الگ ہیں اور ان کے جذبات، احساسات، خواہشات، پسند اور ناپسند مجھ سے مختلف ہیں۔ ایک آسٹریلین جوڑا تھا جنہوں‌ نے عہد کیا کہ اگر ملک میں‌ ہم جنس جوڑوں‌ کی شادی کو قانونی قرار دیا گیا تو وہ احتجاجاً طلاق لے لیں‌ گے۔ حالانکہ سوچا جائے تو کسی اور کی شادی کا آپ کی شادی سے کیا تعلق ہے؟ وال مارٹ میں ‌ہر روز ہزاروں‌ اور لاکھوں افراد اشیاء خریدنے آتے ہیں اور ہر ایک کی کارٹ مختلف سامان سے بھری ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ چونکہ ہم لوگ امریکہ میں‌ بہت سالوں‌ سے رہتے ہیں اور سمندر اور سوئمنگ پول سب جگہ جاتے ہیں۔ دونوں‌ بچوں‌ کو اچھی طرح‌ سوئمنگ سکھائی جو کہ ایک زندگی بچانے والا ہنر ہے بلکہ میں نے خود بھی سیکھی۔ وہاں ہر طرح کے لباس میں‌ لوگ آتے ہیں تو مجھے انسانوں‌ کو اس طرح دیکھتے ہوئے ایسا محسوس نہیں‌ ہوتا کہ آسمان گر گیا ہو یا زمین پھٹ گئی ہو۔ ایک مرتبہ ہم لوگ ورجینیا بیچ پر بیٹھے تھے اور ایک لڑکی کی کمر میری طرف تھی۔ اس کے کاندھے پر ٹیٹو بنا ہوا تھا جس میں‌ ایک کبوتر تھا اور ساتھ میں‌ عربی میں‌ لفظ صلح لکھا ہوا تھا۔ یہ بات مجھے یاد رہ گئی کیونکہ وہ ذرا مختلف تھا۔ جہاں‌ ایسا کھلا ماحول نہیں‌ ہوتا وہاں‌ لوگ بھی زیادہ حساس ہوجاتے ہیں۔ میں دیکھتی رہتی ہوں‌ کہ ہر روز سعودی عرب، ایران، ترکی، پاکستان اور دیگر ممالک میں‌ خواتین اور مردوں‌ کے لباس اور حلیے پر قدغن اور اعتراضات چلتے رہتے ہیں۔ کچھ بہت مزاحیہ بھی لگتے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں‌ فیصل المختار جو سیکولر خلافت کے بڑے حامی ہیں کے سوشل میڈیا پر ایک خبر دیکھی کہ ترکی میں‌ ایک عالم نے کہا کہ سب داڑھی رکھو کیونکہ جو مرد داڑھی نہیں‌ رکھتے وہ خواتین میں‌ شہوانی خیالات پیدا کرتے ہیں۔ اس پر سب سے مزاحیہ کامنٹ ایک خاتون کا تھا جو لکھتی ہیں،

To be fair, I have a decent amount of indecent thoughts about men with beards

ان بین الاقوامی عقلمندوں میں‌ سے کوئی کہتا ہے کہ خواتین بھنویں نہ بنوائیں، کوئی کہتا ہے کہ وہ کھیرا نہ خریدیں، کسی کو مسجد گلابی رنگ سے سجانے پر اعتراض ہے۔ کیا کبھی ان لوگوں میں‌ سے کسی کو یہ خیال آیا کہ خود کو اور دوسرے لوگوں‌ کو اس بات کی تعلیم دیں‌ کہ وہ ان نارمل انسانی خیالات اور جذبات کا کس صحت مندانہ تخلیقی انداز میں اظہار یا استعمال کریں؟ ان جذبات سے شاعری بھی کی جاسکتی ہے، رقص کیا جا سکتا ہے، مجسمہ بنایا جا سکتا ہے، شاہکار ناول لکھے جاسکتے ہیں، گایا جاسکتا ہے۔ دنیا کے عظیم فن پارے تخلیق کیے جاسکتے ہیں اور کیے بھی گئے ہیں۔

میرے کام کے میدان میں نارمل اور ایب نارمل ان لوگوں‌ سے بالکل الٹ ہیں۔ یعنی کہ جنسی خواہش کا نہ ہونا بیماری ہے۔ کاش میری زندگی کے وہ دو گھنٹے واپس مل جائیں جب طارق رمضان کا اوکلاہوما سٹی میں‌ لیکچر سنا تھا۔ ان کے بھی کام پورے ہیں۔ یہ لوگ اسی لیے سنگ بازی کے حامی ہیں تاکہ وہ خواتین کبھی آگے آکر ان کی شکایت نہ کرپائیں جن کے ساتھ انہوں‌ نے زیادتی کی۔ اس طرح‌ کے خیالات کی وجہ سے یہ لوگ اور ان کے پیچھے چلنے والے بغیر آرٹ، بغیر خوبصورتی، بغیر موسیقی کے دنیا کے سب سے بے ڈھنگے لوگ بن چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ معصوم نارمل بچوں‌ کو جنت کی حوروں‌ کے بارے میں‌ دھوکا دے کر اپنی جان دینے تک پر تیار کرلیتے ہیں۔

سنی لیون کی تصویر ہم سب کی فیس بک ویب سائٹ پر دیکھی۔ وہ میرے لیے پہلا موقع تھا کہ ان خاتون کی ایسی تصویر دیکھی۔ اس کو دیکھ کر میں‌ چونک گئی تھی کیونکہ وہ غیر متوقع جگہ تھی لیکن اس سے میں‌ نے یہ محسوس نہیں کیا کہ اس کا مجھ سے کچھ تعلق ہے۔ وہ وال مارٹ کے اس سامان کی طرح‌ ہے جو دوسرے لوگ اپنی کارٹ میں‌ ڈال کر لے جاتے ہیں۔ انڈیا میں‌ ماؤنٹ ابو، راجھستان کے دلوارا ٹیمپل میں‌ سنگ مرمر کی مورتیوں کا خیال آگیا۔ یہ تصویریں ہم سب کی ویب سائٹ پر کس نے لگائیں اورکیوں؟ میں‌ اس کی سائکالوجی پر غور کررہی ہوں۔

چونکہ ہم سب جانتے ہیں‌ کہ ساؤتھ ایشین سوسائٹی ایک کلوزڈ سوسائٹی ہے اور یہاں‌ لوگ منافق ہیں۔ ریسرچ بتاتی ہے کہ وہ شراب بھی پیتے ہیں اور پورن بھی دیکھتے ہیں‌۔ جب وہ آپس میں ملتے ہیں‌ تو جنگ بدر کے حالات اور حضرت علیؓ کے خلیفہ ہونے پر مباحثہ کرتے ہیں۔ یعنی کہ نہ پوچھو نہ بتاؤ اور دہری زندگی گذارو والا حساب کتاب ہے۔ ایک ڈاکٹر ہونے کے لحاظ سے میں‌ یہ جانتی ہوں‌ کہ جو زخم دکھائی دیتا ہے ہم اس کا علاج کرسکتے ہیں لیکن جو زخم چھپا ہوا ہوتا ہے، وہ ناسور بن جاتا ہے اور جان بھی لے سکتا ہے۔ منٹو نے بھی یہی بات کی تھی کہ اگر آپ چاہتے ہیں‌ کہ میں‌ طوائف کے بارے میں‌ نہ لکھوں‌ تو معاشرے میں‌ سے طوائفوں‌ کو ختم کردیں۔

ہوسکتا ہے کہ یہ تصویریں‌ چھاپنے والے یہ کہہ رہے ہوں‌ کہ آپ جیسے ہیں‌ ویسے ہی سامنے بھی نظرآئیں۔ ہر انسان کا ذوق الگ ہے اور اسی لحاظ سے جہاں‌ کسی چیز کی مانگ ہوتی ہے تو اس کو بیچ کر منافع کمانے والے بھی آگے آتے ہیں۔ ہم سب پر لکھنے والے کئی لبرل گھبرا گئے کیوں کہ وہ اپنی ذاتی باؤنڈریز کے ساتھ ایک نارمل اور کھلی زندگی گذارنا چاہتے ہیں اور تنگ نظر جنہوں نے دہری زندگی سے سمجھوتا کرلیا ہے، فوراً ان کی ماں‌ بہن تک پہنچ جاتے ہیں۔ ان کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ لبرلز پر ذاتی حملے کرکے ان کو زلیل کرسکیں۔ یہ زمینی حقائق ہیں جن سے ہم سب واقف ہیں۔

ایک ایسا علاقہ جہاں خواتین گھروں میں بند موٹی اور بیمار ہوتی جارہی ہیں، مر بھی رہی ہیں وہاں‌ کھیل کود کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ثانیہ مرزا کی تصویریں دیکھ کر میں‌ نے محسوس کیا کہ ان کا چناؤ کرنے والے افراد پڑھنے والے لوگوں‌ سے یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ انسانی جسم اور اس کے حصے تو کھیلتے ہوئے ہلتے جلتے دکھائی دیتے ہی ہیں، ان سے ہٹ کر خواتین کے کھیل، صحت، زندگی اور کامیابی پر توجہ دیں۔

لبرلز کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ مکمل طور پر اپنے دماغ کو آزاد کرسکیں۔ اس کی وجوہات بہت گہری اور پرانی ہیں۔ ساؤتھ ایشین کلچر شرم کے کانسپٹ کے گرد گھومتا ہے جہاں‌ بچپن سے لوگوں‌ کے دماغوں‌ میں‌ شرم کا آئیڈیا اس طرح‌ بٹھا دیا جاتا ہے کہ لوگ جرم کرنے سے اتنا نہیں‌ گھبراتے جتنا اس کو کرتے ہوئے پکڑے جانے سے گھبراتے ہیں۔ پھر کسی انسان کی ویلیوز کو لے کر اس پر ذاتی حملے ہوتے ہیں۔ حالانکہ ضروری نہیں کہ ایک ہم جنسیت کو نارمل سمجھنے والا خود بھی ہم جنس پسند ہو۔ شرم ایک نہایت تکلیف دہ احساس ہے۔ شرم دلائی جائے تو لوگ ایسا محسوس کرتے ہیں‌ جیسے ان کو ٹھنڈے برفیلے پانی میں‌ ڈبو دیا گیا ہے اور اس تکلیف سے نجات پانے کے لیے وہ اپنے خیالات سے دستبرداری تو کیا اپنے بچوں‌ کا قتل تک آسانی سے کردیتے ہیں۔ ساؤتھ ایشین سوسائٹی میں‌ لوگ ایک دوسرے کے قیدی ہیں۔ اگر وہ دوسروں‌ کو آزاد کردیں‌ گے تو خود بھی آزاد ہوجائیں گے۔

نیو ایرز پر میں‌ اپنے بہت اچھے دوست سنڈی اور اس کے شوہر چارلی کے ساتھ تھی۔ میں یورپ گھوم کر آچکی تھی اور وہ لوگ کچھ مہینوں میں‌ جانے والے تھے۔ میں‌ نے سنڈی سے کہا کہ میں نے اپنا لیونگ روم نیا سیٹ کیا ہے، نئے کاؤچ خریدے ہیں، بک شیلف بنوائے ہیں، وہاں‌ یاماہا کا پیانو ہے، اب صرف ایک مجسمے کی کمی ہے جس کے بعد یہ ایک پرفیکٹ جگہ بن جائے گی۔ ایک ایسی جگہ جو خوبصورتی، آرٹ، تاریخ، کتابوں اور موسیقی سے بھری ہو، جہاں‌ دن کے آخر میں‌ آکر میں‌ خود کو پرسکون اورخوش محسوس کروں۔ ساری زندگی ایک جگہ سے دوسری جگہ شفٹ ہوتے گزری، اب کام سے واپس آکر جب پیانو کے اوپر وہ 1979 کی سکھر میں‌ تصویر فریم میں‌ لگی دیکھتی ہوں‌ جس میں‌ میرے امی ابو، میں‌ اور علی صوفے پر بیٹھے ہیں تو میں‌ ایسا محسوس کرتی ہوں‌ کہ گھر پہنچ گئی۔

میں‌ نے بہت سے مجسمے دیکھے کہ کون سا لوں۔ تصویریں پلٹتے میں‌ نے اس کو مذاق میں‌ کہا کہ میں‌ ڈیوڈ کا مجسمہ لے لیتی ہوں، جب میری امی گھومنے آئیں گی تو اس کو اسکرٹ پہنا دیں‌ گے۔ کافی مہینے گزر گئے اور میں یہ بات بھول چکی تھی، سنڈی مجھ سے ملنے آئی۔ کہنے لگی ہم فلورنس اٹلی گئے تھے وہاں‌ سے میں‌ تمہارے لیے ایک تحفہ لائی ہوں۔ اس تحفے کی شیپ دیکھ کر میں‌ نے سمجھا کہ اس میں سے زیتون کے تیل یا سرکے کی بوتل نکلے گی لیکن جب ہرا کاغذ ہٹاکر نکالا تو میں یہ دیکھ کر بہت ہنسی کہ وہ میرے لیے ڈیوڈ کا مجسمہ لائی تھی۔

وہ لا کر میں‌ نے بک شیلف پر رکھ دیا۔ اس کے برابر میں‌ آئفل ٹاور ہے جو ہم پیرس سے لائے تھے اور سنگ مرمر کا تاج محل ہے جو میری کزن نے علی گڑھ انڈیا میں‌ مجھے دیا تھا۔ اس دن میں‌ نے ڈاکٹر سہیل کو فون کیا اور ان کو بتایا کہ میری دوست سنڈی فلورنس اٹلی سے ڈیوڈ کا مجسمہ لائی ہے۔ ڈاکٹر سہیل کے بارے میں آپ کو پتا ہے کہ وہ لگی لپٹی تو جانتے نہیں، جیسی بات ہوتی ہے ویسے ہی کہتے ہیں۔ ان کی یہی بات مجھے بہت پسند ہے اور اسی لیے ہم بیسٹ فرینڈز بھی ہیں۔ کہتے ہیں اوہو وہ ننگا آدمی! جی وہی! میں‌ بہت ہنسی۔ انہوں‌ نے کہا کہ اب تو آپ کو وینس کا مجسمہ بھی لینا چاہیے۔ جی بالکل لے لوں‌ گی۔ میں‌ نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنی وینس کو برقعہ نہیں‌پہنائیں گے اور ڈیوڈ کو تہبند بھی نہیں‌۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).