کیا عمران خان پاکستان کا ڈونلڈ ٹرمپ بن سکے گا؟


طریقہ واردات وہی پرانا ہے یہی کہ الیکشن اور ووٹ ڈالنے کو لوگوں کے لئے بوجھ بنا دیا جائے۔ لوگ یہ کہتے پھریں کہ ہمارے ایک ووٹ سے کیا ہوگا۔ فلاں ابن فلاں وزیراعظم بن جائے گا اور چھوٹا بھائی یا بڑا بھائی یا بیٹی وزیراعلیٰ بن جائے گی اس لیے میں ووٹ ڈالنے نہیں جاؤں گا۔ اگلا مرحلہ ہوتا ہے کہ فلاں لیڈر بین الاقوامی طور پر بہت مقبول ہے اس لیے اس کے جیتنے کے چانس بہت زیادہ ہیں اور ہانڈی میں آخری مصالحہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ تو اسٹیبلشمنٹ بھی ہے اگر یہ تین عناصر موجود ہوں تو پھر بقول علامہ اقبال، ہاتھ ہے اللہ کا، بندہ مومن کا ہاتھ۔۔۔ ۔ مطلب الیکشن میں کامیابی یقینی ہوجاتی ہے

 مثال 2002 کی لے لیتے ہیں۔۔۔ 2002 کے الیکشن کی بات ہے کسی امریکی اخبار میں خبر آئی مسلم لیگ قائداعظم (ق) ایک سادہ اکثریت سے الیکشن جیت جائے گی چوہدری شجاعت حسین نے اگلے دن بیان دے دیا کہ میں کہتا رہا ہوں نا کہ ہم الیکشن جیت جائیں گے اب تو امریکہ نے بھی کہ دیا ہے۔ سب کو معلوم تھا کہ مسلم لیگ قاف (قائداعظم) پرویز مشرف نے بنوائی تھی اس لیے اس کا الیکشن جیتنا یقینی تھا اور مزے کی بات یہ تھی کہ لوگوں کو یہ بھی معلوم تھا کی میاں محمد اظہر جو مسلم لیگ قاف کے بانی رکن تھے الیکشن ہار جائیں گے یہ تک معلوم تھا کہ میاں محمد اظہر جو شاید میاں نواز شریف کے کزن تھے ان کو صرف مسلم لیگ قاف بنانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور 2002 کے الیکشن ان کو ہروا دیا جائے گا تاکہ وہ وزیراعظم بننے کے لئے رولا نہ ڈال سکیں۔ آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ ہوا بھی عین سکرپٹ کے مطابق۔

 2018 کے الیکشن کی آمد آمد ہے پانامہ کے ذریعے نوازشریف کو راستے سے ہٹا یاجا چکا ہے۔ اس کی تصدیق ہونا باقی ہے کہ عمران خان کو استعمال کیا گیا یا نہیں یہ پہلا حصہ تھا۔ چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کی بطور وزیراعظم نامزدگی کا اعلان کر کے سٹپ2 مکمل کر دیا گیا ہے۔

 مریم نواز دنیا میں ساتویں نمبر کی طاقتور خاتون ہیں” یہ کہلواکر تینوں عناصر مکمل کرلیے گئے ہیں لیکن رنگ میں بھنگ کیاعمران خان ڈال پائے گا. کالم کے اگلے حصے میں اس کا جائزہ لیتے ہیں

جب ٹرمپ نے الیکشن جیتا تھا تو میں نے لکھا تھا کہ امریکا ہم جیسے غریب ملکوں پر دھونس دھاندلی سے نااہل حکمران مسلط کرتا رہا ہے امریکا پر پہلی دفعہ کوئی ایسا شخص حکمران بنا ہے۔ دیکھتے ہیں امریکہ یہ جھٹکا کیسے برداشت کرتا ہے امریکا میں بھی بندہ مسلماں ہونے کے تمام عناصر ہیلری کلنٹن میں مکمل تھے، اس کی جیت یقینی تھی۔ بارک اوباما نے اسے تاریخ کی بہترین صدارتی امیدوار قرار دے دیا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اپنی تمام تر طاقت اور پیسے کے ساتھ اس کے پیچھے موجود تھی یہ تو سلام ہو ان تمام امریکی غریبوں کو اور بھلا ہو ان تمام امریکیوں کا جو واشنگٹن اور نیویارک سے دور کہیں کسی گاوں میں رہتے ہیں اور جو فرق اسلام آباد کی سڑکوں اور جنوبی پنجاب کی سڑکوں میں ہیں وہی فرق واشنگٹن، نیویارک اور اپنے گاؤں کی سڑکوں میں محسوس کیا اور 8 نومبر 2016 کو ٹرمپ کو ووٹ دے کر تمام امریکی اسٹیبلشمنٹ اور مین سٹریم میڈیا جیسا کہ سی این این کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا

امریکی 8 نومبر 2016 کا انتظار کرتے رہے اور آٹھ نومبر کو باہر نکل کر ووٹ کے ذریعے ہیلری کلنٹن کی برنی سینڈرز کے ساتھ کی گئی تمام زیادتیوں کا بدلہ چکا دیا۔ ہیلری کلنٹن نے ڈیموکریٹک جماعت کا صدارتی امیدوار بننے کے لئے مبینہ طور پر برنی سینڈرز کے ساتھ پرائمریز میں دھاندلی کی تھی اور برنی سینڈرز کو اپنی کمپین چلانے کے لیے فنڈ میں سے کم پیسے دیے تھے اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ووٹرز کو ناپسندیدہ (ڈیپلوریبلز) قرار دیا۔ یہ تمام نفرت لے کر امریکی ووٹر پولنگ سٹیشن میں گیا اور اس نے ٹرمپ کے انتخابی نشان پر مہر لگا دی۔۔۔۔ ہیلری کلنٹن ہار گئی۔۔۔ امریکی اسٹبلشمنٹ ہار گئی۔۔۔ یہ صرف صاف الیکشن کے ذریعہ ہی ممکن تھا اگر ٹرمپ پاکستان میں ہوتا تو یقیناً الیکشن ہار گیا ہوتا۔ کیونکہ اس کی جیت کا کسی کو یقین نہیں تھا۔ اور اس کے الیکشن ہارنے کے بعد یہی کہا جاتا کہ ہمیں تو پہلے سے پتہ تھا اس نے الیکشن ہار جانا ہے۔۔۔ لیکن ٹرمپ کی جیت صرف اور صرف صاف الیکشن کا نتیجہ تھی یعنی اگر عوام آپ کے ساتھ ہوں الیکشن صاف ہو تو آپ ہیلری کلنٹن کو بھی الیکشن ہرا سکتے ہیں۔۔۔ آپ فرانس کے صدر بن سکتے ہیں، چاہے آپ نے میکرون کی طرح صرف ایک سال پہلے اپنی سیاسی جماعت بنائی ہو۔ کیا ایسا پاکستان میں ممکن ہے اس کا جواب “نہیں” میں ہے۔ پاکستان میں الیکشن صرف اس صورت میں شفاف ہو سکتے ہیں جب الیکشن بائیو میٹرک ہوں۔ اگر 2018 کا الیکشن بھی پرچی پر کروایا گیا تو جو کچھ اسٹبلشمنٹ چاہے گی وہی بندہ وزیراعظم بنے گا اس میں ووٹ ڈالنے والوں کو کوئی کردار نہیں ہوگا اور یہ جو جٰی ٹی روڈ کی ریلی ہوتی ہے “مجھے کیوں نکالا” والی، یا عدل کی تحریک ہوتی ہے یہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر ڈیل کے لیے ہوتی ہیں کہ دکھایا جاسکے کہ میرے ساتھ بندے موجود ہیں حقیقت میں جو خاموش ووٹر ہوتا ہے اس کا ان ریلیوں سےکوئی تعلق نہیں ہوتا۔۔۔

جس دن اس ملک میں بائیومیٹرک الیکشن ہو گئے بڑے بڑے برج الٹ جائیں گے تمام مذہبی جماعتیں جن کو مین سٹریم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ مین سٹریم ہونے کے بجائے سائیڈلائن ہو جائیں گی۔ اس لیے بائیومیٹرک الیکشن کسی بھی پرانی سیاسی جماعت جوکہ موروثیت پر یقین رکھتی ہو۔۔۔ فوج یا کسی مذہبی تنظیم کے حق میں بہتر نہیں ہیں، کیوںکہ اس طرح ان کے تمام عزائم پر پانی پھر سکتا ہے ، اور مرضی کے نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔۔۔

ہیلری کلنٹن نے اپنی شکست کے ایک سال بعد ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے واٹ ہیپنڈ۔ یہ کتاب اصل میں “مجھے کیوں نکالا” کا انگریزی ترجمہ ہے۔ ہیلری کلنٹن کو نواز شریف کی طرح یقین نہیں آرہا کہ سسٹم اس قدر طاقتور کیسے ہوگیا کہ کیوں اٹھا کر اسی کو باہر پھینک دیا۔ ہیلری کلنٹن نے ٹرمپ سے 28 لاکھ ووٹ زیادہ لیے لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیں اب امریکہ میں نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ صدر صرف پاپولر ووٹ کے ذریعے بنایا جائے یعنی جس کے ووٹ زیادہ ہوں۔ الیکشن جیتے۔ لیکن یہ بات چھوٹی ریاستوں کے حق میں بہتر نہیں ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ نااہل ہونے کے بعد نوازشریف نے بل پاس کرا لیا کہ نااہل شخص پارٹی کے صدر بن سکتا ہے۔۔۔

امریکا ہو یا پاکستان۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک ہی طریقہ ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک ہی طریقے سے شکست دی جاسکتی ہے۔ اور وہ ہے صاف شفاف الیکشن اور پاکستان جیسے ملک کے لیے کہنا چاہیے صاف شفاف بائیو میٹرک الیکشن۔ حقیقی تبدیلی پاکستان میں صرف بائیومیٹرک الیکشن سے ہی آئے گی۔۔۔ فوج اور پرانی سیاسی جماعتیں، اور نئی نئی مذہبی سیاسی جماعتیں، حقیقی تبدیلی کے کتنا حق میں ہیں یہ ہم سب جانتے ہیں۔۔۔ بائیومیٹرک الیکشن کی ضرورت جتنی پی ٹی آئی اور عمران خان کو ہے اتنی شاید کسی بھی جماعت کو نہیں کیوں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کسی مقام پر یہ فیصلہ کرتی ہے کہ عمران خان کو وقت کا میاں اظہر بنادیاجائے تو یہ بائیومیٹرک الیکشن ہی ہونگے جو عمران خان کو ٹرمپ بنانے میں مدد کریں گے۔ جو کہ اسٹیبلشمنٹ کو ہرا سکے۔ تا وقتیکہ خود اسٹیبلشمنٹ عمران کو اس دفعہ جتوانا چاہتی ہو۔ اور شہباز شریف کے نام کو لے کر اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف میں کوئی این آر او نہ ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).