لافانی اور عوامی فنکار : محمد رفیع


تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے
جب کبھی بھی سنو گے گیت مرے
سنگ سنگ تم بھی گنگناؤ گے

1931 کو ہندوستان کی پہلی متکلم فلم عالم آرا میں فلم کے اداکار وزیر خان کے مقبول گانے ”دیدے خدا کے نام پہ پیارے ہمت ہے گر دینے کی“ سے مشخص ہوگیا تھا کہ برصغیر کی فلموں کی اہم ترین شناخت اس کے گیت بننے والے ہیں۔ ایک سال بعد 1932 کو فلمی دنیا میں کے ایل سہگل کی آمد نے اس روایت کو مزید مستحکم کردیا۔ سہگل کی سریلی آواز نے ہندوستان بھر کے نوجوان ٹیلنٹ کو مہمیز دے کر فلمی دنیا کی جانب متوجہ کردیا اور انہوں نے سہگل کے نقشِ پا کو اپنے لئے رھبر جانا۔ ان نوجوانوں میں ایک امرتسر کے محمد رفیع بھی تھے جنہوں نے سہگل کی تلاش میں ممبئی پہنچ کر اپنی ایک منفرد اور بلند و بالا شناخت بنائی۔

محمد رفیع کو گائیکی کا سرتاج کہا جاسکتا ہے۔ ان کی آواز کی چاشنی، جادو اور مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔
آنے سے اس کے آئے بہار
جانے سے اس کے جائے بہار

آپ کے پہلو میں آکر رودیے
داستانِ غم سنا کر رو دیے

چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو
جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
کہ دل ابھی بھرا نہیں

جب جب بہار آئی اور پھول مسکرائے
مجھے تم یاد آئے، مجھے تم یاد آئے

کھلونا جان کر تم تو مرا دل توڑ جاتے ہو
مجھے اس حال میں کس کے سہارے چھوڑ جاتے ہو

ہم نے جفا نہ سیکھی ان کو وفا نہ آئی
پتھر سے دل لگایا اور دل پہ چوٹ کھائی

سمیت سینکڑوں ایسے گیت ہیں جو آج بھی سننے والے کو سروں کی لہروں میں بہا لے جاتے ہیں۔ سُروں پر ان کی گرفت بے مثال ہے۔

امرتسر کے نزدیک ایک گاؤں ہے کوٹلہ سلطان سنگھ، 24 دسمبر 1924 کو جب محمد رفیع اس گاؤں کے ایک چھوٹے سے بھرے پرے گھر میں پیدا ہوئے تو ان کا استقبال زیادہ دھوم دھام سے نہ کیا گیا اور نہ ان کی تعلیم و تربیت کوئی خاص توجہ دی گئی۔ بچپن میں فقیروں کو گاتے دیکھ کر انہیں بھی گانے کا شوق پیدا ہوا، وہ ان کی نقلیں اتارنے لگے۔ ان کے گھر کا ماحول گانے بجانے کے موافق نہ تھا اس لئے بچے کے شوق کو بچپنا سمجھ کر نظر انداز کیا گیا۔

غالباً 1933 میں ان کا خاندان امرتسر چھوڑ کر لاہور آبسا۔ یہاں سے شروع ہوئی اس محمد رفیع کی زندگی جو آج برصغیر کی ساز و آواز کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ بھاٹی گیٹ لاہور میں واقع نائی کی دکان اور ان کے بھائی کے دوست عبدالحمید نے صرف برصغیر کو ایک گلوکار ہی نہیں دیا بلکہ انہوں نے فنِ گائیکی کو اُس بلند مقام پر پہنچانے کا وسیلہ بھی فراہم کیا جس کا تصور ہی محال تھا۔

بھلا کون سوچ سکتا تھا ایک شخص ایک ہی موضوع کو سو طریقے سے گاسکتا ہے، غم، خوشی، محبت، نفرت جیسے جذبات سمیت قوالی، غزل، بھجن حتی کہ نعت تک بھی کوئی ایسے گاسکتا ہے کہ تخصیص مشکل ہو۔

عبدالحمید کی پرذور سفارش پر ان کے اہلِ خانہ نے بادلِ نخواستہ ان کو موسیقی سیکھنے کی اجازت دے دی۔ زمانہِ طالبعلمی میں ہی محض 13 سال کی عمر میں انہوں نے لاہور میں کے۔ ایل سہگل کے نقشِ قدم پر چلنا شروع کردیا۔ 1944 کی پنجابی فلم گل بلوچ (ہزار کوششوں کے باوجود راقم اس فلم تک رسائی نہ پاسکا) کے ذریعے شیام سندر نے انہیں فلمی دنیا کا راستہ دکھایا۔ تاہم یہ ان کی منزل نہ تھی، ان کی نظریں ممبئی پر جمی ہوئی تھیں جہاں کے ایل سہگل کا طوطی بول رہا تھا۔

ایسا نہ تھا کہ لاہور میں مشہور محمد رفیع کو ممبئی میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ممبئی کے ایل سہگل کی راجدھانی تھی جبکہ وہ خود بھی سہگل کے متاثرین میں سے تھے سو ان کی حیثیت بس واجبی سی تھی۔ چند ایک فلموں میں گانے کا موقع بھی ملا جن میں اہم ترین محبوب خان کی سپرہٹ فلم انمول گھڑی ہے جس میں انہوں نے صفِ اول کی گلوکارہ نورجہاں کے مقابل تیرا کھلونا ٹوٹا بالک گایا۔ اس فلم کے موسیقار نوشاد علی تھے۔ نوشاد علی کی جہاندیدہ نظروں نے مستقبل کو بھانپ لیا، وہ سمجھ گئے نوجوان گلوکار کی صورت ایک نئے عہد کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔

اس نئے عہد کا آغاز 1947 کو شوکت رضوی کی فلم جگنو کے اس گیت سے ہوا ”یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے“۔ دلچسپ بات یہ ہے اس خوبصورت فلم سے اداکاری کے میدان میں بھی دلیپ کمار کی صورت ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ شوکت رضوی اور نور جہاں اس فلم کے بعد نوزائیدہ پاکستان ہجرت کرگئے مگر وہ جاتے جاتے برصغیر کو دو انمول رتنوں سے سرفراز کر گئے، ایک تھے دلیپ کمار اور دوسرے محمد رفیع۔

اس کے بعد محمد رفیع سہگل کی راجدھانی (کندن لال سہگل اسی سال وفات پاگئے، سہگل پر تبصرہ پھر کبھی) پر قبضہ کر گئے۔ ان کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ وہ جو گاتے ہر دلعزیز ہوجاتا۔ نوبت بہ اینجا رسید وہ ہر ہدایت کار و موسیقار کی پہلی پسند کا درجہ اختیار کرگئے۔

وہ زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے اس لئے تلفظ اور گیتوں کو یاد کرنے، آواز کو سنگیت کے زیر و بم سے ملانے کے لئے لاہور کی تعلیم ناکافی تھی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے شبانہ روز محنت کی، ایک ایک گانے کے ریاض پر انہوں نے گھنٹوں صرف کیے، کلاسیک موسیقی کو گھول کر پی لیا۔ سر اور تال کے اسرار سمجھنے کے لئے زندگی کھپا دی۔ اس محنت کا نتیجہ یہ نکلا ان کے فن کا تاثر گہرے سے گہرا ترین ہوتا گیا۔ وہ آواز کو ہر سچویشن میں ڈھالنے پر قادر ہوگئے۔ نشیلی، غمگین، رونی، مستی، عاشقانہ، حب الوطنی الغرض وہ ہر قسم کی آواز بڑی خوبصورتی سے نکال لیتے۔

ان کے گہرے اثر کا اندازہ اس مشہور واقعے سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک نیپالی پنڈت نے جب نیپال میں محمد رفیع کا بھجن سنا تو وہ ان کو بھگوان سمجھ کر عقیدت کے پھول چڑھانے پیدل ممبئی پہنچے۔ ممبئی پہنچنے کے بعد انہیں یہ جان کر یقین نہ آیا کہ اس عقیدت اور سوز کے ساتھ بھجن گانے والا ایک پنج وقتہ نمازی مسلمان ہے۔ پنڈت نے بڑی عقیدت کے ساتھ ان کے ہاتھ چھومے اور نیپال چلے گئے۔ سری لنکا کا واقعہ تو ہر کسی کو ازبر ہے جہاں ایک عوامی محفل میں سری لنکن صدر و وزیر اعظم سمیت لاکھوں افراد کا مجمع آخر تک سحر زدہ حالت میں انہیں سنتا رہا۔

یہ عزت اور شہرت انہیں کسی جادو یا خدائی طاقت سے نہیں بلکہ اپنے فن سے بے انتہا اخلاص اور دن رات کی محنت سے ملی تھی۔ کہا جاتا ہے شہرہِ برِ صغیر فلم بیجو باورا کا گانا ”او دنیا کے رکھوالے، سن درد بھرے میرے نالے“ گانے سے قبل انہوں نے تقریباً درجن بار اس کی ریاضت کی، اس شدید محنت کے باعث ان کا گلا تک بیٹھ گیا اور اندیشہ ہوا شاید وہ پھر کبھی نہ گا سکیں گے مگر پھر چشمِ فلک نے دیکھا وہ تھے، ساز تھے اور کروڑوں سامعین تھے۔

ساٹھ کی دہائی آتے آتے ہندی سینما کی موسیقی کا دوسرا نام محمد رفیع بن چکا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں نوے فیصد فلمی گیت ان کو ملتے اور باقی دس فیصد دیگر گلوکاروں میں تقسیم ہوتے تھے۔

رفیع صاحب کے جادو کا مشاہدہ راقم کے بچپن کا حصہ ہے۔ میرے دادا سمیت علاقے کے بیشتر بزرگ محمد رفیع کو صرف رفیع یا رفیع صاحب کہنا گستاخی سمجھتے تھے، وہ انتہائی احترام کے ساتھ انہیں محمد رفیع صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔ ہمارے ایک بزرگ جناب اکبر جلال کے مہمان خانے میں آج بھی دیوار پر گر کسی کی تصویر لگی ہے تو وہ محمد رفیع کی ہے۔ اس حوالے سے میرے ایک دوست کا قصہ بھی کافی دلچسپ ہے۔ ان کے والد محمد رفیع کے دیوانوں میں سے تھے۔ دوست کے مطابق محمد رفیع کے انتقال کی خبر جب انہیں ملی تو وہ سکتے میں آگئے، لمبی خاموشی کے بعد ان کے منہ سے نکلا ”کاش ان کی جگہ میرا کوئی چاچا ماما مرجاتا“ اس کے بعد وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ لتا منگیشکر کے علاوہ شاید ہی برصغیر کا کوئی دوسرا گلوکار عوامی محبت کے اس درجے تک پہنچا ہو۔

محمد رفیع کی سلطنت کو 1969 میں فلم ارادھنا کے ذریعے جھٹکا لگا جب آر ڈی برمن نے اپنے والد سینئر موسیقار ایس ڈی برمن کی غیر موجودگی میں رفیع صاحب کے ساتھ کیے گئے معاہدے سے روگردانی کرکے فلم کے تمام گانے سوائے ایک کے کشور کمار کو گانے کے لئے دے دیے۔ وہ اگر چاہتے تو معاہدے کے ذریعے اسے چیلنج کرسکتے تھے مگر شریف النفس، حلیم الطبع اور صلح جو محمد رفیع نے نہ صرف آر ڈی برمن کو مسکراہٹ سے نوازا بلکہ کشور کمار کا بھی خیر مقدم کیا۔ ارادھنا کے گانوں نے کشور کمار کو یکایک آسمان تک پہنچادیا۔

بعض افراد کا ماننا ہے آر ڈی برمن ایک کٹر ہندو تھے اس لئے انہوں نے کشور کمار کے ساتھ مل کر سازش کرکے محمد رفیع کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن میں اس تھیوری سے اتفاق نہیں رکھتا۔ آر ڈی برمن ہر جرات مند نئی نسل کی طرح اپنی پہچان خود بنانا چاہتے تھے۔ ان کی شدید خواہش تھی وہ اپنے والد کے زمانے کی بجائے کسی نئے گلوکار کے ساتھ کام کریں دوسری جانب حالات بھی ان کی اس تمنا کے موافق تھے۔ اشوک کمار، راج کپور، دلیپ کمار، دیو آنند، منوج کمار اور راجندر کمار جیسے اداکاروں کا سورج غروب ہونے کو تھا جن کے لئے رفیع صاحب گایا کرتے تھے۔ نئے اداکاروں کے لئے نئی آوازوں کی ضرورت تھی۔ کشور کمار اسی ضرورت کی پیداوار تھے۔ ارادھنا کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی جب 70 کی دہائی میں محمد رفیع کو ملنے والے گانوں کا حجم گھٹ گیا اور کشور کمار کا بڑھ گیا۔

70 کی دہائی میں ان کے گانوں کا حجم ضرور کم ہوا مگر معیار برقرار رہا۔ ان کے ہونٹوں سے جو بھی برآمد ہوتا شاہکار بن جاتا جیسے:

یونہی تم مجھ سے بات کرتی ہو (سچا جھوٹا)
کتنا پیارا وعدہ ہے ان متوالی آنکھوں کا (کاروان)
چلو دلدار چلو، چاند کے پار چلو (پاکیزہ)
آج موسم بڑا، بے ایمان ہے بڑا، بے ایمان ہے آج موسم (لوفر)
پردہ ہے پردہ، پردے کے پیچھے پردہ نشیں ہے (امر اکبر انتھونی)
کیا ہوا تیرا وعدہ، وہ قسم وہ ارادہ (ہم کسی سے کم نہیں)

اسی دوران آل انڈیا ریڈیو پر بھی ایک فضول جنگ چھڑ گئی۔ کشور کمار کے پرستار نوجوانوں نے ان کو محمد رفیع سے بڑا گلوکار قرار دے دیا۔ دوسری جانب بزرگ خم ٹھونک کر محمد رفیع کی حمایت میں آگئے۔ خطوط پر خطوط آتے گئے۔ اس دوران ان کی ذات تک پر حملے کیے گئے اپنی خاموش طبعیت کے باعث وہ اس طوفانِ بدتمیزی پر خاموش رہے۔ بالآخر کشور کمار سے رہا نہ گیا وہ بیچ میں آگئے اور انہوں نے رفیع صاحب کے سو گیتوں کی ایک فہرست بنا کر اپنے پرستاروں سے پوچھا کیا میں اپنی پوری توانائی کے ساتھ ان گیتوں کو اس خوبی سے گاسکتا ہوں؟ پھر اس کا جواب خود ہی دیتے ہوئے لکھا، میں کیا ہندوستان کا کوئی بھی دوسرا گلوکار نہیں گاسکتا اس لئے ایک عظیم استاد کے ساتھ میرا موازنہ کرکے میری توہین مت کرو۔ یوں کشور کمار کے خط نے یہ فضول جنگ بند کردی۔

کشور کمار درست کہتے ہیں ان کے متعدد گانے ایسے ہیں جنہیں شاید ہی کوئی دوسرا اس فنی آمیزش کے ساتھ گاسکے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب شہنشاہِ موسیقیِ ہند نوشاد علی کے بتائے ہوئے اس واقعے سے مل سکتا ہے۔

نوشاد علی کہتے ہیں ایک دفعہ رات گئے میرے دروازے پر دستک ہوئی، میں آنکھیں ملتا باہر نکلا، باہر محمد رفیع کو کھڑا دیکھ کر میں پریشان ہوگیا۔ استفسار پر انہوں نے مجھے بتایا آج جو گانا ہم نے فائنل کیا ہے میں اس سے مطمئن نہیں ہوں اس لئے نیند نہیں آرہی چلیں اسے دوبارہ ریکارڈ کرتے ہیں۔ نوشاد علی کے مطابق میں نے کہا گانا بالکل ٹھیک ہے، مطمئن رہیے مگر بے چین رفیع کو قرار نہ آیا۔ ان کے اصرار پر میں نے کپڑے بدلے، اسٹوڈیو پہنچے اور گانا پھر ریکارڈ کیا۔

اپنے فن سے حد درجہ عشق ہی وہ قوت ہے جس نے ہر کسی کو یہ کہنے پر مجبور کردیا ہے محمد رفیع جیسا نہ تھا، نہ ہے اور نہ ہوگا۔ افسوس محمد رفیع اپنی تمام تر عظمت اور خلاقی کے باوجود بھارتی حکومت کی جانب سے نظر انداز کیے گئے۔

وہ ہندوستان کے سب سے بڑے سول اعزاز بھارت رتن کے حق دار ہیں مگر ان کو دوسرے اہم اعزاز پدما بھوشن کے بھی قابل نہ سمجھا گیا۔ ایک احسان سمجھ کر انہیں تیسرے درجے کے اعزاز پدما شری سے نوازا گیا۔ ایک ایسا فنکار جن کی عظمت کا اعتراف جواہر لال نہرو سمیت ایک جہان کرتا ہے ان کی یہ حق تلفی بلاشبہ بھارتی حکومت کے نام نہاد میرٹ پر سوالیہ نشان ہے۔ اب تو یہ نوبت آگئی ہے کرن جوہر جیسے مصالحہ ہدایت کار ان کی تضحیک پر اتر آئے ہیں اور لتا منگیشکر جیسی بزرگ فنکار تضحیک پر خاموش رہتی ہیں۔

حکومت کی عدم دلچسپی کے برخلاف ان کے گیتوں سے امید پانے والے عوام، محنت کش عوام نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا۔ 31 جولائی 1980 کو جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو تقریباً پورے برصغیر نے سوگ منایا۔ بارش کے باوجود بلاتخصیص رنگ، نسل و مذہب ان کے جنازے پر ایک خلقت امنڈ آیا۔ میڈیا کے مطابق پندرہ ہزار افراد نے ان کے جنازے میں شرکت کی، یہ اعزاز آج تک کسی فنکار کو نصیب نہ ہوا۔

مہندر کپور، محمد عزیز اور سونونگم جیسے معروف گلوکاروں نے ان کے راستے پر چلنے اور ان کے انداز کو اپنانا اپنے لئے قابلِ فخر گردانا۔ عوامی فنکار کو عوام نے ہی عزت دی اور نجانے کب تک محمد رفیع بھلائے نہ جاسکیں گے، یقیناً رہتی دنیا تک۔

یہ زندگی کے میلے
دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).