بابا رحمت اور جسٹس کیانی


گاؤں دیہاتوں میں اگر تھوڑی بہت زمین ہو، کھانے کو دانے اپنے ہوتے ہوں اور کلف لگی قمیص میسر آ جائے تو اگلا سٹیپ مقدمے بازی کا ہوتا ہے۔ روایتی سوچ کے مطابق وہ بندہ ہی نہیں جس کا دشمن کوئی نہ ہو۔ عام طور پر یہ لڑائیاں بہت چھوٹی باتوں سے شروع ہوتی ہیں اور خاندانی جھگڑوں میں بدل جاتی ہیں۔ زیادہ تر معاملے زمین کی حد بندی یا پانی لگانے کی باری سے شروع ہو کے برس ہا برس چلنے والے دیوانی مقدمات میں بدل جاتے ہیں۔ ہمارا عدالتی نظام کورٹ کچہری کے شوقینوں کو سوٹ بھی بڑا کرتا ہے۔ دو ہفتے میں حل ہو سکنے والا مسئلہ بیس برس بعد بھی نمٹ جائے تو سب اسے نارمل سمجھتے ہیں۔ یہ تو اب جا کے شاید نئی نسلوں کو تھوڑی پریشانی محسوس ہوتی ہو گی لیکن بیس تیس برس پہلے تک ایک باعزت زمیندار کچہری اسی طرح جاتا تھا جیسے ہم لوگ دفتر جاتے ہیں، پوری تیاری کے ساتھ، ضرورت کی ساری چیزیں لیے، خدمت گاروں سمیت جانے کا رواج ہوا کرتا تھا۔ لیکن یہ سب ان کے لیے بہتر ہے جو اسے ایک اچھی مصروفیت یا روٹین سمجھتے ہیں۔

شہروں میں اگر خدا نہ کرے کسی کو بھی تھانے یا عدالت کا چکر لگ جائے تو وہ بے چارہ خود کو منہ دکھانے لائق نہیں سمجھتا۔ پولیس موبائل دہشت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ کسی محلے میں، سوسائٹی میں کوئی پولیس والا اپنے دوست سے ہی ملنے موبائل پہ آ جائے تو اگلے چار دن طرح طرح کی باتیں بنتی رہتی ہیں۔ بار بار آئے تو علاقے کے بزرگ باقاعدہ مائنڈ کرتے ہیں کہ بیٹا شریفوں کا محلہ ہے پولیس کی گاڑیاں ایسے آتی بری لگتی ہیں۔ ایسے میں ایک یونیورسٹی کا پروفیسر، ایک لکھنے پڑھنے والا انسان، کوئی شاعر، ادیب، بلاگر، صحافی یا کالم نویس اس چکر میں پھنس جائے تو وہ کس قدر ڈسٹرب ہو گا کسی کو اندازہ ہے؟

خبر آتی ہے کہ پانچ بلاگرز جن پہ اہانت کا الزام تھا ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل سکے۔ جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دیے کہ جب شواہد موجود نہیں تو کارروائی بھی نہیں ہونی چاہئیے۔ پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا کوئی بھی الزام لگانے والا دوہرے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے۔ ہم نے خبر پڑھ لی۔ کیا ہمیں ذرہ برابر بھی اندازہ ہے کہ جو خبر بنے تھے ان کے ساتھ کیا گزری ہو گی؟ پہلی خبر سے دوسری خبر تک کے دس ماہ کس عذاب میں کٹے ہوں گے؟

پچھلے برس مظہر حسین کو بھی انصاف ملا تھا۔ وہ قتل کے مقدمے میں گرفتار ہوا تھا۔ غریب آدمی تھا، لکڑیاں بیچ کے روٹی کماتا تھا۔ جسے اگلے وقت کے کھانے کا آسرا نہ ہو وہ کدھر سے وکیل کرے گا؟ مظہر حسین کو سزائے موت سنائی گئی۔ سیشن کورٹ ہائی کورٹ، سپریم کورٹ تک مقدمہ کھنچا۔ مظہر کا باپ کیس ڈھوتے ڈھوتے مر گیا۔ ماں رو رو کے اندھی ہو گئی۔ بچے رل کھل کے پل گئے۔ انیس برس گزرنے کے بعد مظہر حسین باعزت بری ہو گیا۔ جج صاحب نے فرمایا کہ فلموں میں سنتے تھے کہ میرے بارہ سال مجھے واپس کر دیں، مظہر حسین کے انیس برس کون واپس کرے گا؟ خیر، عدالت کے ضمیر کا بوجھ کم ہوا۔ مظہر حسین کو رہائی ملی۔ عدالت کے علم میں نہیں تھا کہ مظہر حسین دو سال پہلے ہی رہا ہو چکا تھا۔ مظہر حسین کیس کا فیصلہ اس کی قبر کے کتبے پہ ہی چپکایا جا سکتا تھا۔

رانی بی بی پہ قتل کا مقدمہ تھا۔ اس پر الزام لگا کہ اس نے اپنے شوہر کو مارا ہے۔ رانی کا باپ، ماں، بھائی، کزن سب گرفتار ہو گئے۔ عدالت نے پورے خاندان کو عمر قید کی سزا سنائی۔ رانی کا باپ جیل میں تشدد سے مر گیا، بھری جوانی میں قید ہونے والا بھائی کچھ عرصہ پہلے رہا ہوا اور رانی بی بی کو ابھی ہفتہ پہلے انیس برس کے بعد ناکافی ثبوت اور ناقص شواہد کی بنیاد پہ باعزت بری کیا گیا۔ رانی پتہ ہے انیس برس پہلے اپیل کیوں نہیں کر سکی؟ رانی کے پاس پولیس والے کو دینے کے لیے چار سو روپے نہیں تھے۔ 1998 میں چار سو روپے آپ میں سے کسی کے پاس نہیں تھے کبھی کوئی ایسا دن تھا؟ رانی کے پاس نہیں تھے۔ تو رانی بی بی چار سو روپے نہ دینے کے عوض انیس برس بعد باعزت بری ہو گئی۔

شاہ زیب خان کراچی کا رہنے والا خوبرو نوجوان تھا۔ وہ اور اس کی بہن شادی کے ایک فنکشن سے واپس آ رہے تھے۔ اس کی بہن کو ایک لڑکا گاڑی آگے پیچھے دوڑا کے مسلسل ہراساں کر رہا تھا۔ شاہ زیب نے روکا تو جھگڑا ہوا، شاہ زیب کو مار دیا گیا۔ اسے قتل کرنے والا شاہ رخ جتوئی تھا۔ دو ہفتے بعد گرفتاریاں ہوئیں جب شاہ رخ جتوئی دبئی بھاگ چکا تھا۔ اسے واپس لایا گیا، اینٹی ٹیررازم کورٹ میں کیس چلا، عینی شاہدین نے گواہیاں دیں۔ شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھ سراج تالپور کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے پھانسی کی سزا ہو گئی۔ شاہ رخ سزا سنتے ہوئے بھی مسکرا رہا تھا۔ اس کے بعد اللہ کی راہ میں شاہ رخ جتوئی کو شاہ زیب کے والدین نے معاف کر دیا۔ جس کیس میں دہشت گردی کی دفعات تھیں، اس میں صلح ہوئی کیسے؟ صلح کے بعد جتوئی نے وکٹری کا نشان بنایا، پورے ملک کے منہ پہ وہ جیت کا نشان ایک تھپڑ تھا اور وہ تصویر آج پھر ٹھیک ثابت ہو گئی۔ شاہ رخ کی سزائے موت کالعدم ہوئی۔ کیس میں دہشت گردی کی دفعات ختم ہوئیں۔ کیس دوبارہ سیشن عدالت میں بھیج دیا گیا۔ شاہ رخ جتوئی سمیت انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سزا پانے والے تمام مجرم ضمانت پہ رہا ہو چکے ہیں۔

بابا رحمت کے فیصلے گاؤں دیہات کے دیوانی مقدمات والوں کو سمجھ آ جاتے ہوں گے، ادھر معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ اغوا شدہ افراد پہ اہانت کا الزام اتنا لمبا کھنچا کے وہ باعزت بری ہو کے بھی ملک واپس نہیں آ سکتے۔ مظہر حسین اپنی باعزت رہائی سننے سے دو برس قبل رخصت ہو گیا۔ رانی بی بی انیس سال بعد باعزت بری ہوئیں۔ دہشت گردی کے مقدمے میں دیت کا اصول چلا کے شاہ رخ جتوئی باعزت بری ہو گیا۔ ابھی کچھ عرصے پہلے ریمینڈ ڈیوس بھی اسی اصول کے تحت گیا تھا۔ مشال خان کا باپ آج بھی رل رہا ہے۔ سترہ لاکھ سے زیادہ مقدمے پینڈنگ میں چل رہے ہیں اور قوم کو بابا رحمت دین کا فلسفہ پڑھایا جاتا ہے؟

ہر غیر آئینی حکومت کو قانونی تحفظ ملتا ہے، ہر با اثر آدمی دیت کی پشت پناہی میں آتا ہے اور ہم لوگ کمبلوں میں دبکے ہوئے یہ بیان سنتے ہیں کہ فیصلے کبھی پریشر میں نہیں ہوتے؟ ہر آن نظریہ ضرورت ہے، ہر جگہ نظریہ ضرورت ہے۔ جس کی لاٹھی ہے بھینس سالم اس کے ہاتھ میں ہے، جو کمزور ہے وہ بابا رحمت کی باتیں سنتا ہے جو طاقتور ہے وہ موم کی طرح ہر قانونی اصول اپنے حق میں موڑ لیتا ہے۔

جسٹس ایم آر کیانی مارشل لا دور میں بات کرتے تھے۔ احتجاج کا علم بلند کرتے تھے۔ غلط کو غلط مانتے تھے۔ سی ایس پی ایسوسی ایشن کے ایک پروگرام میں جنرل ایوب خان سامنے بیٹھے تھے اور جسٹس کیانی فوجی مارشل لا پہ دوٹوک حملے کرتے رہے۔ تقریر ختم ہوئی تو ایوب خان شدید غصے میں تھے، کہنے لگے، ”آپ نے اپنی تقریر لکھنے میں خاصی محنت کی ہے، مجھے امید ہے کہ آپ فیصلے بھی اسی محنت سے لکھتے ہوں گے۔ “ جسٹس کیانی کے ساتھ پوری قوم تھی اور ایوب خان کو نکالنے کے لیے جس طرح کے نعرے لگے وہ شہاب نامہ پڑھیے، وہاں نظر آ جائیں گے۔ آج عوام بابے رحمتے سے وہی مطالبہ کر رہے ہیں جو ایوب خان جسٹس کیانی سے کیا کرتے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ جملہ ایک آمر کہتا تھا اور یہ مطالبہ ان کا ہے جنہیں جمہوری بندوبست میں اقتدار کا سرچشمہ کہا جاتا ہے۔ جس وقت جج آئین کی خلاف ورزی پہ جمہوریت کی سربلندی کے لیے بولیں گے، تاریخ گواہ ہے کہ جمہور کا ہر حصہ ان کے ساتھ ہو گا۔ جب جج ہسپتالوں اور سول ایڈمینیسٹریشن کے معاملات میں آ کے فوک داستانیں سنائیں گے تو ریزیسٹنس بہرحال آئے گی۔ افسوس کی بات صرف یہ ہے کہ یہ باتیں کل کے بچے سوشل میڈیا پہ لکھ رہے ہیں اور جنہیں نوشتہ دیوار دور سے پڑھنے کی عادت ہے وہ منہ موڑے بیٹھے ہیں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain