تقسیم نے درد نہیں‌ بانٹا (دوسرا حصہ)


سونے کی چڑیا کہلائے جانے والے اس عظیم ہندوستان نے، تقسیم کے دوران سرحد کے دونوں طرف اپنے ہی چھہ لاکھ بیٹے بیٹیوں کا قتل عام دیکھا۔ لگ بھگ ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کو گھر سے بے گھر ہوتے دیکھا۔ اس وقت کے حالات و واقعات کی روداد اتنی تکلیف دہ اور مضطرب کردینے والی ہے کہ محض اس کا تصور کرکے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بٹوارے کے دوران بہتر لاکھ مسلمان پاکستان کو ہجرت کرگئے، جب کہ رَکارڈ کے مطابق 1941ء سے 1951ء تک پاکستانی علاقوں سے بھارت آنے والے ہندوؤں اور سکھوں کی تعداد 45 لاکھ چالیس ہزار ہے۔

تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کو جس بحران سے 1947ء میں گزرنا پڑا، وہ چند باتوں کے لحاظ سے 1857ء کے بحران سے کم، مگر مجموعی طور سے اس سے کہیں زیادہ شدید تھا۔ 1947ء کے بعد کے چند سالوں میں، بھارتی مسلمانوں کو 1857ء سے کہیں زیادہ اور روحانی اور جسمانی، خطرناک آزمایشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں اگر میں ایک ہندوستانی مسلمان کی حیثیت سے محمد علی جناح پر تنقید کرتا ہوں، تو سرحد کے اُس پار (پاکستان) والوں کی ایک بڑی تعداد کی دل آزاری ہوگی۔ اگر تعریف کرتا ہوں تو سرحد کے اِس پار (بھارت) والے بہت سے لوگ ناراض ہوں گے۔

خاص اس حوالے سے آزادی کے بعد لکھے گئے لٹریچر کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے؛ دونوں طرف کی قیادتوں کے حوالے سے بیاں کیے گئے قصیدوں، مذمتی بیانیوں اور تحریروں سے بڑی بڑی لائبریریاں بھری پڑی ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ آخر اِن تمام کوششوں کا حاصل کیا نکلا؟ شاید کچھ بھی نہیں؛ حالات مزید خراب ہی ہوئے ہیں۔ ہم آج تک کسی ایسے نتیجے تک نہیں پہنچ پائے ہیں، کہ جو سب کو قبول ہو۔ تقسیم کا نتیجہ تو یہی نکلا کہ دونوں ملکوں کے لیے ایک دشمن، ایک سرحد کا اضافہ ہوا۔ رہی سہی کسر مفاد پرستانہ سیاست اور زرد صحافت، فوجی مہم جووں کے مقاصد نے پوری کردی۔

آزادی کے بعد دونوں طرف سے ہمارا کام کم از کم اتنا تو بنتا تھا، کہ ایک بہت ہی پے چیدہ اور مختلف النوع سماج کے تناظر میں، ہم خود کو ایک مضبوط جمہوری ڈھانچے میں منظم کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے۔ کہنے دیجیے، کہ ہم نے؛ یعنی متحدہ ہندوستان کی متحدہ قیادت نے یہ ذمہ داری اطمینان بخش طریقے سے ادا نہیں کی۔ کم از کم ابھی تک تو ہم یہ کام نہیں کرپائے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہم اکثر سہل راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہمارے اندر مقصد کے تئیں ایمان داری کا فقدان بھی ہے۔ اس لیے ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی بھی پیش آمدہ مشکل کا جو بھی حل نکالتے ہیں، اس میں وہ وہ مکمل اخلاص نہیں ہوتا، جو کسی اڑچن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے۔ نتیجے کے طورپر ہمارا یہ ”تعویذ“ کچھ دنوں کے بعد ہی غیر موثر ہوجاتا ہے، بلکہ بعد کے ایام میں مزید نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔

ہمارے سامنے چیلنج، بنیادی اور مبنی برحقیقت باتوں کو ایمان داری سے کہنے کا ہے۔ کل بھی یہی چیلنج تھا اور آنے والے کل میں بھی یہی سب سے بڑا چیلنج ہوسکتا ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم اس سے بھی کتراتے ہیں۔ آسان یہ ہے کہ ہم اور آپ، جب چاہیں جناح کو گالی دیں، یا گاندھی کو؛ آزاد کو برا کہیں یا نہرو کو؛ مسئلے کا حل قطعی طور پر یہ نہیں ہے۔ کیوں کہ جو ہونا تھا وہ ہوچکا۔ پلوں کے تلے سے بہت سا پانی بہہ چکا۔ اب ہم دونوں، بلکہ تینوں ممالک پاکستان، بنگلادیش، اور بھارت کو ایک نہیں کرسکتے۔ تقسیم نے اپنا کام کردیا ہے۔

تقسیم کا زخم ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کی بھرپائی ناممکن ہوتی ہے۔ اس لیے اس کا حل یہی ہے کہ ہم دونوں جانب امن اور سکون کو فروغ دینے کے لیے کوشش کریں۔ اگر ہم یہ کوشش کرتے ہیں تو یہاں ایسی کوئی کٹھنائی نہیں ہے جس کا حل نہ ہو۔ ابھی وقت ہے؛ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو تمام فروعی باتوں کو ایک طرف رکھ کے، اپنی آنے والی نسلوں کے لیے امن سکون اور بھائی چارہ کی وراثت چھوڑسکتے ہیں۔ تقسیم نے ہمیں امن نہیں دیا، ناہی ہم سے بچھڑنے والے حصے کو امن فراہم کیا۔

رنجشوں کی بنیادی وجہ یہ ہے، کہ دونوں جانب ”بٹوار“ ابھی ذہنوں پر سوار ہے۔ ہندو مسلم خلیج بدستور باقی ہے۔ اگر تقسیم کا واحد سبب دو قومی نظریے کا فروغ تھا، تو یہ سوال آج کتنا جائز ہے؟ ایسا کیوں ہوا کہ تقسیم نے، جو دوقومی نظریے کا واحد علاج تھا، اس نظریے کو یک لخت ختم کردیا، پاکستان مزید دو حصوں میں بٹ گیا؟! اگر دوقوموں کے درمیان تفاوت اور دراڑ تقسیم کے بعد بھی جوں کی توں قائم ہے، تو اس کا واحد مطلب یہی ہوا کہ تقسیم ایک غیر ضروری شئے تھی۔ بٹوارا کسی مسئلے کا حل نہیں تھا۔ بعضوں نے الٹا زخموں پر نمک پاشی ہی کی۔ دھرتی کی تقسیم کے ساتھ، ہم نے انسانوں کو بھی بانٹ دیا ہے۔ صد افسوس! تقسیم کا پھل امن کی صورت نہیں ملا، جیسا کہ تقسیم کاروں نے سوچا تھا۔

لیکن اب کرنے کو کیا ہے؟ ہندوستان ہو یا پاکستان، ایک دوسرے پر الزام تراشی سے باز نہں آتے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہیں۔ کیوں نہ اس دھرتی کو امن کا گہوارا بنایا جائے! آئیے ہم دونوں اطراف سے ایک دوسرے پہ الزام تراشی کے بجائے، محبتوں کا پرچار کریں۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں۔ دوسرے کی کامیابی پر مسرت کے گیت گائیں۔ آئیے ہم وہ کریں، جو ہمارے بزرگ نہ کرسکے۔ اگر یہ نہیں ہوگا تو پھر وہی کچھ ہوتا رہے گا، جو کچھ ہوتا آیا ہے۔ امن اک خواب بن کے رہ جائے گا۔

کیا ہمارے مورخین تاریخ کے اوراق الٹتے پلٹے رہیں گے اورایک دوسرے پر الزام رکھتے رہیں گے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ الزام تراشی کسی مسئلے کا عارضی حل بھی نہیں؟! ہم جس بیج کو بوئیں گے، ہماری آیندہ نسلوں کو وہی فصل کاٹنا پڑے گی۔ تقسیم در تقسیم در تقسیم؛ بے امنی، خون، لاشے، سسکیاں، آہیں، ماتم! کیا ہم اپنی آیندہ نسلوں کے لیے امن کاشت نہیں کرسکتے؟

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments