جہادی کیسے کامیاب ہوئے؟


\"faizullah جہادیوں کے جس جن کو یورپ امریکہ اور ان کے اتحادی مسلم حکمرانوں نے تیس پینتیس برس قبل کابل قندھار جلال آباد میں آزاد کیا تھا اب وہ ان تمام کی جانب سے پوری قوت صرف کئے جانے کے باوجود بوتل میں دوبارہ بند ہونے پر بالکل بھی آمادہ نہیں۔۔۔۔

ماضی میں جب یہ سب عالی دماغ سوویت یوینین کے خلاف \” جہاد \” پہ یکسو تھے، تب ان کے سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن اسی کابل و جلال آباد سے واشنگٹن، نیو یارک، لندن اور میڈرڈ پہ منظم حملے کئے جائیں گے۔۔۔ بات یہاں تک بھی رہتی تو ٹھیک تھا لیکن خطرے کی سرحد تب عبور ہوئی جب حالیہ مہنیوں میں پیرس استنبول و برسلز نے ٹھیک خون کا وہی ذائقہ چکھا جس کی کڑواہٹ تیسری دنیا بالخصوص مسلم خطے گزشتہ کئی برس سے محسوس کرتے چلے آرہے ہیں۔۔۔۔

بلاشبہ بے گناہوں کے خون بہنے کی کوئی ذی ہوش تائید نہیں کرسکتا لیکن جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اس پہ غیر جانبدار ہوکر جائزہ لینے میں قطعاََ حرج نہیں اور یورپی مفکرین و ادارے یہ کام نسبتاً شفاف انداز میں کرسکتے ہیں۔۔۔۔ کیونکہ اسلامی دنیا ایسے تمام کام کرنے کی صلاحیت سے یکسر عاری ہے۔۔۔۔

ہوتا یوں ہے کہ جب بھی عالمی یا علاقائی قوت جہادیوں کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرکے احساس تفاخر میں مبتلا ہوتی ہے تو عین انہی لمحات میں جہادی اس قوت پہ خوب ہنس رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔

ذرا ماضی کا رخ کرتے ہیں۔۔۔ جب 1980 میں دنیا بھر سے جہادیوں کے افغانستان آنے کے سفر میں آسانیاں پیدا کردی گئیں تو جہادی، امریکی اور مسلم حکمران تنیوں ہی اپنی اپنی جگہ خاصے خوش تھے۔۔۔ امریکا کا کام یوں آسان ہوگیا تھا کہ سوویت یونین کے خلاف جہاد کی صورت میں مذہبی جواز مل چکا۔۔۔ مسلم حکمرانوں نے یوں کا سکھ کا سانس لیا کہ تمام مخالفین کو جہاد کے نام پہ افغانستان روانہ کردیا تاکہ ان کی \” شہادتیں \” ریاستوں کی جانیں مشکلات کم کردیں۔۔۔ اس کھیل میں سب سے اہم کردار جہادیوں کا تھا جنہیں جب پاکستان و افغانستان کی آزاد فضا میسر آئی اور عالمی جہادی ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھے تو کئی نئے مباحث کے دروازے ان پہ وا ہوئے۔۔۔۔ یہ 80 کی دہائی کا نصف تھا جب جہادی جمہوریت۔۔۔ امریکا۔۔۔۔ اقوام متحدہ۔۔۔ طاغوت۔۔۔۔ حاکمیت۔۔۔ توحید اور نواقض اسلام کے مسائل پہ گفتگو کرنے لگے ایک دوسرے کے نظریات و تجربات سے سیکھنے لگے، سمجھنے لگے۔۔۔ یہی وہ دن تھے جب جہادیوں نے ماضی کی جہادی تحریکوں پر غور و فکر کیا اور اپنے حلقوں میں اس فکر کا پرچار شروع کیا۔۔۔

انہی دنوں افغانستان میں موجود عرب پاکستانی نوجوانوں کو ایس کے ایس نامی بندوق تربیتی عمل کے دوران سب سے پہلے سکھاتے تھے ان کے مطابق پاکستانی پولیس ایس کے ایس استعمال کرتی ہے اور جب ہم پاکستان میں منظم کارروائیوں کا آغاز کریں گے تو پولیس پہلی مزاحمتی لائن ہوگی۔۔۔۔ بعد کے عرصے میں وہی ہوا جو سوچا گیا تھا۔۔۔۔۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ارادوں اور باتوں سے واقف سب ہی تھے لیکن انہیں سنجیدہ کوئی نہیں لیتا تھا کیونکہ ان کے مطابق سب کچھ آنکھ کے نیچے ہو رہا ہے ہمارے بچے ہمارے احکامات سے کیسے روگردانی کرسکتے ہیں؟ لیکن اسامہ بن لادن نے عین آنکھ کے نیچے سے کام اتار دیا۔۔۔ تب اندازہ ہوا کہ سب کے اندازے کتنے غلط تھے۔

اصل بات تو یہی تھی کہ جہادی اپنا الگ ہی ایجنڈا رکھتے تھے اور آج برسلز و پیرس حملوں کے بعد لگتا ہے عالمی طاقتوں نے نہیں بلکہ جہادیوں نے عالمی طاقتوں کو استعمال کیا۔۔۔۔۔

1980 تا 2016 کے حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو جہادی عالمی و علاقائی طاقتوں کے واسطے خاصے سخت جان ثابت ہوئے ہیں ڈورن حملے ہوں، نیٹو امریکہ روسی بمباری ہو یا اسلامی ممالک میں ان کے خلاف شروع کی گئی جنگ۔۔۔۔ ہر جگہ وہ مار کھانے کے باوجود زندہ نظر آتے ہیں اور کوئی نا کوئی خوفناک کارروائی کر گزرتے ہیں۔۔۔۔

دنیا کو سکون امن اور سلامتی کی تلاش ہے۔ اس ایک خواب کو دیکھتے دیکھتے نجانے کتنے معصوم ا نسان فنا کے گھاٹ اتر گئے مگر آگ و خون کا یہ کھیل بغیر وقفے کے جاری ہے۔ دنیا جتنی مہذب اب ہے شاید پہلے کبھی نا تھی لیکن انسان جتنا غیر مہذب اب ہے شاید پہلے کبھِی نا تھا۔۔۔۔۔۔

حقیقت تو یہی ہے کہ جب تک عالمی ادارے انصاف کی فراہمی میں ناکام رہیں گے آتش و آہن کا یہ کھیل انسانیت کو یونہی ذبح کرتا رہے گا۔۔۔۔ مرنے والے کا کیا ہے؟ آسمان سے گرے، ڈیزی کٹر سے مرے یا کسی خود کش کی جیکٹ پھٹنے سے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments