فاٹا ایشو پر کچھ سوالات و جوابات


سوال 1 : ”فاٹا“ کیا چیز ہے؟

جواب : افغانستان کے ساتھ لگتی پاکستانی سرحد پر آباد پختون قبائل کی پٹی کو فاٹا کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ اس کو ” علاقہ غیر“ بھی کہاجاتا ہے کیونکہ یہاں ہمارے دستوری ریاستی قوانین لاگو نہیں ہوتے بلکہ صدیوں سے وہاں اپنی علاقائی روایات ہی نافذ العمل ہیں۔ انگریزوں نے اس علاقے کے عمائدین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا کہ یہ علاقے اپنی داخلی آزادی برقرار رکھیں گے۔ یہی معاہدہ بعد میں قائد اعظم نے بھی یہاں کے سرداروں ( مشران) کے ساتھ کیا تھا۔ پس ریاستِ پاکستان کا بھی ان کے ساتھ وہی آئینی معاہدہ ہے۔

سوال 2 : کہتے ہیں کہ قبائل میں انگریز کا دیا ہوا کالا قانون نافذ ہے؟

جواب : دراصل انڈیا میں انگریزوں کے زمانہ میں ان قبائل کو اس شرط پرخودمختار چھوڑا گیا تھا کہ وہ انگریز عملداری میں امن وامان خراب نہیں کریں گے۔ اس معاہدہ کی پہلے یہ صورت رکھی گئی تھی کہ اگر کوئی شخص، انتظامی علاقے میں کوئی جرم کرکے، علاقہ غیر میں جاکر چھپے گا تو وہاں کا سردار(ملک) اس کو گرفتار کرکے سرکار کو پیش کرے گا۔ بصورت دیگر، متعلقہ قبیلہ کے وہ سب افراد جو انتظامی علاقہ میں موجود ہوں گے، ان کو سرکار گرفتار کرلے گی جبتک کہ مطلوب مجرم، سرکار کے حوالہ نہیں کیاجاتا۔

مگر اس صورت پر قبائلی مشران نے منطقی اعتراض کیا کہ ہم کو کیا معلوم، کون مجرم کہاں سے آیا اور کس قبیلہ میں جاکر چھپ گیا یا ملک پار کرگیا؟ وغیرہ۔ چنانچہ اس میں سے ”غیر قبائلی مجرم“ کا تذکرہ نکال دیا گیا۔ (جس کا یہ نیتجہ ہوا کہ ہندوستان کا کوئی آدمی کسی کو قتل کرکے، علاقہ غیر چلا جاتا تو اس کو واپس کرنے کے لئے کوئی پابند نہیں تھا)۔ اس بارے قبائل کے ساتھ معاہدہ کی نئی صورت یوں بنی کہ اگر کوئی قبائلی، کسی انڈین شہری کو قتل کرکے واپس فرار ہوجا ئے تو اس کے ہم قبیلہ ایسے لوگ جو علاقہ سرکار میں رہتے ہوں ( اور وہ اکثر خود قبائلی ملکان کی فیملی سے ہی ہوتے تھے) ان کو گرفتار کیا کرلیا جا ئے گا تاوقتیکہ وہ اصل مجرم کو ریاست کے حوالے کریں۔ چونکہ قبائل کا اخوت کا نظام مضبوط تھا تو اپنے بھائی بندوں کو چھڑانے، باقی قبیلہ ضرور اس مجرم کو حکومت کے حوالے کرتا تھا ( بلکہ غیرت کے مارے وہ خود ہی پیش ہو جاتا تھا )۔ اس قانون کو ریاستِ پاکستان نے بھی برقرار رکھا۔ اس کو ” ایف سی آر“ کا قانون کہتے ہیں۔ ماضی کے برعکس، آجکل چونکہ زیادہ قبائلی لوگ انتظامی علاقوں میں رہتے بستے ہیں تو یہ قانون ان کے لئے کافی حرج کا باعث ہوتا ہے۔ ( اب قبائل کی وہ روایات بھی باقی نہ رہیں کہ ان کو ایک دوسرے پر ”پیغور“ آئے )۔ اس لئے اس قانون کو ” کالا قانون“ کہا جاتا ہے۔

سوال 3 : پھر تو فاٹا کو ریاستی انتظام میں لانا چاہیے اور مولانا کو اس کی مخالفت نہیں کرنا چاہیے؟

جواب : ” ایف سی آر“ یعنی کالا قانون کا مسئلہ، صوبہ انضمام کے ساتھ منسلک نہیں بلکہ یہ الگ مسئلہ ہے۔ سیاسی قیادت اگر چاہے تو اس مسئلہ کو الگ طور پرحل کرسکتی ہے۔ لیکن بدنیتی دیکھئے کہ حکومت کی فاٹا اصلاحات کمیٹی نے اس کو ”رواج ایکٹ“ کے نام سے بعینہ اپنی روح میں برقرار رکھنے کی تجویز دی ہوئی ہے۔ فاٹا کے علاقے کو ریاستی انتظام میں ضرور لانا چاہیے اور مولانا بھی اس کا مخالف نہیں مگر اس کے انتطام کی صورت کیا ہو؟ ، اس پر مولانا کا یہ مطالبہ ہے کہ پہلے فاٹا کے لوگوں سے اس بارے پوچھ لیا جائے۔

سوال 4 : فاٹا کے جو منتخب اراکین اسمبلی ہیں، ان سے کیوں نہ پوچھا جائے اور باقی کس سے پوچھا جائے؟

جواب : موجودہ اسمبلی، دستوری اسمبلی نہیں ہے۔ موجودہ اراکینِ اسمبلی، ترقیاتی کاموں کا یا دستور کے اندر قانون سازی کا مینڈیٹ لے کر آئے ہوئے ہیں۔ علاقے کی آئینی حیثیت کا فیصلہ، ان ارکان اسمبلی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ اس کے لئے رفرنڈم کا جمہوری طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ جب پاکستان بن رہا تھا تو صوبہ سرحد میں منتخب اسمبلی موجود تھی مگر اس بارے رفرنڈم کرایا گیا تھا۔ ( حالانکہ یہ انتظامی علاقہ تھا )۔ یورپ میں مشترکہ کرنسی بارے ( یورو یا پونڈَ؟ ) اور آئرلینڈ بارے بھی ریفرنڈم ہوچکے ہیں۔ رفرنڈم اور الیکشن میں فرق یہ ہے کہ الیکشن میں بہتر یا کم بہتر علاقہ نمائندہ بارے چناؤ کیا جاتا ہے جبکہ رنفرنڈم میں کسی سوال کا ” ہاں یا ناں ” میں جواب مانگا جاتا ہے۔

مزید یہ کہ فاٹا علاقہ بارے، ریاست پاکستان کے ساتھ آئینی فریق صرف رجسٹرڈ قبائلی مشران ہیں نہ کہ منتخب ارکان اسمبلی۔

سوال 5 : کیا مولانا، قبائلی مشران کے ساتھ مل کر، حکومت اور قبائلی عوام کے لئے مسائل پیدا کررہا ہے؟

جواب : میرا تو خیال ہے کہ مولانا دونوں کے لئے آسانی پیدا کررہا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ انگریز دور سے ہی جو لوگ قبائل کے رجسٹرڈ مشران تھے، وہ نہ صرف آپس میں متحد ومتفق نہیں تھے بلکہ ان میں سے اکثر عمائدین، ذاتی لگژری زندگی انجوائے کررہے تھے اور اپنے عوام سے بے فکر تھے۔ یہ تو فقط چند سال پہلے کی بات ہے کہ مولانا کو ہی خیال آیا کہ ان عمائدین کو جگایا جائے اور ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا جائے۔ مولانا نے ان کو اکٹھا کیا اور فاٹا کو بیحیثیت ” نیشنل ایشو ” کے ریاست پاکستان کے سامنے رکھا ورنہ اس سے پہلے تو کسی سیاسی قیادت کو فاٹا ایشو کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔ مولانا نے 2007 سے اس پہ کام شروع کیا اور ایک ایک قبائلی ایجنسی میں جاکر، قبائل کے علماء اور مشران کو اپنے علاقے کے کاز کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جس کو گرینڈ قبائلی جرگہ کا نام دیا گیا۔ یہ قبائلی سپریم کونسل بنا کر، انگریز دور کے رجسٹرڈ قبائلی مشران کے ساتھ تو مولانا نے گویا گیم کھیلی کہ اب اس جرگہ میں ان کے علاوہ، علماء اور دوسرے معروف لوگوں کو بھی فریق بنا دیا اور یوں حکومت اور عوام دونوں کا کام آسان کردیا۔

قبائلی عوام پر مولانا اپنا کوئی ایجنڈا مسلط نہیں کررہا بلکہ وہ تو اپنی رائے دے رہا ہے کہ ان کے لئے الگ صوبہ بنانا زیادہ بہتر ہوگا۔ الگ صوبہ بننا ویسے تو کوئی اتنا مشکل کام نہیں کیونکہ یہی ریاستِ پاکستان، راتوں رات گلگت بلتستان کو تقریباً تقریباً ایک صوبہ ڈکلئر کرچکی ہے ( اور وہاں الیکشن بھی ہوچکے ہیں) لیکن بالفرض اگر انضمام اور الگ صوبہ بننے میں کچھ عرصہ کا فرق بھی ہو تو جہاں عوام نے 70 سال ایک نظام کو برداشت کیا، وہاں چند ماہ مزید برداشت کرکے، اپنا اخیتار کیوں نہ لیا جائے؟

سوال 6 : پاکستان کے اور فاٹا کے حالات، رفرنڈم کے متحمل نہیں نہ ہی اس کا بجٹ ہے۔ تو کیا یہ مسئلہ کو الجھانے کا حیلہ نہیں ہے؟

جواب : دو باتیں ہیں۔ پہلی بات یہ کہ مولانا نے رفرنڈم کی متبادل صورت بھی دی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ فاٹا سپریم کونسل کے ساتھ مل کر آئینی راہ نکالی جائے۔ قبائل کی سپریم کونسل گویا اب قبائل کی طرف سے وہ آئینی فریق ہے جس کو عالمی سطح پر بھی پیش کیا جا سکے گا۔ دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ دراصل یہ مسئلہ تب الجھے گا جب مولانا کی تجویز نہ مانی گئی اور معاہدے توڑ کر بزور طاقت کوئی فیصلہ کیا گیا ( اور شاید بعض عالمی قوتوں اورہمارے کسی ہمسایہ کی بھی چاہت ہوگی کہ کوئی اس کو عالمی تنازعہ بنا ئے اور اس بہانے، عا المی امن فوج اور اقوام متحدہ کو اس علاقے میں داخل کردیا جائے)۔ پس مولانا تو اس مسئلہ کا حل 2007 سے ہی دے چکا ہے مگر ہماری اسٹبلشمنٹ ہر معاملے کی طرح یہاں بھی خود کنفیوز ہے۔

سوال 7 : یہ فاٹا سپریم کونسل کیا بلا ہے؟ اس میں تو مولانا فضل الرحمان کے مولوی شامل ہیں؟ منتخب نمائندوں کی بجائے، ان کی کیوں مانی جائے؟

جواب : پختون قبائل میں صدیوں سے مسجد و حجرہ کا ساتھ رہا ہے۔ پختونوں میں علماء کو ” کمی کمین“ نہیں بلکہ اپنا قابل احترام بزرگ مانا ا جاتا ہے۔ تاہم، قبائل کے انتظامی سربراہان، ان کے ملکان ہی ہوتے تھے نہ کہ مولوی حضرات ( اور انہی ملکان کے ساتھ انگریز کا معاہدہ ہوا تھا)۔ مولانا نے ان ملکان کے ساتھ علماء کرام اور بعض موجودہ معروف شخصیات ( ریٹایرڈ قبائلی بیوروکریٹ اور فوجی افسران ) بھی شامل کرکے، ایک سپریم جرگہ تشکیل دے دیا۔ اس میں موجود علماء، سب کے سب مولانا کی پارٹی سے نہیں ہیں۔ پھر اس جرگہ میں مولانا کی پارٹی کے جو علماء موجود ہیں وہ، اس جرگہ کی تشکیل کے وقت وہاں کے منتخب ممبران اسمبلی ہی تو تھے (پس ممبران پارلمنٹ والی بات تو یہاں بھی پوری ہوگئی)۔ پھر اس جرگہ کو مولانا نے اسلام آباد بلایا اور اس وقت پاکستان کی ساری قیادت کے سامنے پیش کیا۔ وہاں پوری قومی قیادت نے اس جرگہ کو بطور نمائندہ تسلیم کیا اور یہ طے کیا کہ فاٹا بارے آئندہ ہر فیصلہ اس جرگہ کی رضامندی سے طے کیا جائے گا۔ (اس اعلامیہ پر اس وقت نواز شریف نے بھی دستخط کیے تھے)۔ اب آپ فرض کریں کہ اگر مولانا نے صرف اپنے رشتہ داروں کو ہی سپریم کونسل بنا کر پیش کیا ہوتا اور ساری سیاسی قیادت ان کو ہی نمائندہ مان لیتی تو کم ازکم مذکورہ سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کو تو اس سپریم کونسل پہ اعتراض نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ موجودہ سپریم کونسل میں بڑے محترم اور قابل لوگ شامل ہیں۔

سوال 8 : اس سپریم کونسل کو آخر کیا ضد ہے کہ فاٹا ایک الگ صوبہ ہی بنے؟ لگتا ہے کہ ان جرگہ عمائدین کو صرف اپنی کرسی کی فکر ہے نہ کہ قبائلی عوام کی۔

جواب : دیکھئے، اس وقت دو کے سوا، ساری سیاسی پارٹیاں، انضمام کے حق میں ہیں جن کا یہ دعوی ہے کہ قبائلی عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ چنانچہ، اب اگر الگ صوبہ بھی بن جائے تو موجودہ سپریم کونسل کے لوگوں کو تو پھر بھی کوئی ووٹ نہیں دے گا۔ ( اور موجودہ سیاسی پارٹیاں بھی ان کو ٹکٹ نہیں دیں گی)۔ اس صورتحال میں تو یہ جرگہ عمائدین، گویا اپنی سیاسی و معاشرتی عزت داؤ پر لگا کر، الگ صوبہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کرسی کی بات تو الگ رہی۔ اس میں ہر طرح ان کو ذاتی نقصان ہے۔ صوبہ بنے یا نہ بنے۔

قبائل کو اس پہ سوچنا چاہیے کہ الگ صوبہ بننے میں قبائلی عام عوام کوکیا فوائد مل سکتے ہیں؟ (میرے پاس تو اس کیایک لمبی لسٹ ہے)۔ سینیٹ میں زیادہ نشستیں جو ان کے حق میں بہتر قانون سازی کریں گے، معدنیات پہ صوبے کا کنٹرول، اپنا مرتب کردہ تعلیمی نصاب، اپنےرسوم ورواج موافق قانون سازی، این ایف سی ایوارڈ میں حصہ داری وغیرہ۔ انضمام کی صورت میں نہ صرف تعلیمی اور سول سورس کوٹہ سے محرومی ہوگی بلکہ ان پڑھ قبائلیوں کو ”ایف سی“ میں کوٹہ سے بھی محرومی ہوگی۔ رہ گئے انضمام کی صورت میں ان علاقوں میں معاشی اور سماجی ترقی کے دعوے تو حال یہ ہے کہ ابھی تک ہزارہ اور جنوبی پختونخواہ، خود کو ”تختِ پشاور“ کا قیدی قرار دیتے رہتے ہیں تو قبائل کا کیا بھلا ہوگا؟

بہرحال، یہ فیصلہ خود قبائل کو کرنا چاہیے، یہ کسی اور کا ایشو نہیں ہے۔

سوال 9 : ایسا کیوں نہیں کرلیتے کہ پہلے خیبر پختونخواہ کے ساتھ انضمام ہوجائے اور پھر اس کے بعد الگ صوبہ بن جائے؟

جواب : ضرور ایسا ہوجائے مگر ریاست سے اس کی ضمانت ابھی سے لے لی جائے۔ ابھی تو ریاست بہاولپور کو صوبہ نہیں بنایا جاسکا ( جس کے ساتھ صوبہ بنانے کا لکھا ہوا معاہدہ بھی مو جود ہے) تو قبائل کو بعد میں کون اپنا صوبہ دے گا؟

اس لئے تو مولانا نے سپریم کونسل کو راضی کرنے کا کہا ہے تاکہ ان کے ساتھ ریاست، کوئی ٹایم فریم طے کرے۔

سوال 10 : ویسے مولانا خود تو قبائلی نہیں ہے تو پھرکیوں اس مسئلہ میں ٹانگ اڑا رہا ہے؟

جواب : فاٹا کا ایشو، نیشنل ایشو ہے اور ساری قومی قیادت کا فرض منصبی ہے کہ اس بارے ٹانگ اڑائے۔ مولانا کے وہاں سے ممبران بھی منتخب ہوتے رہتے ہیں اور ایک مضبوط سیاسی نمائندگی بھی ہے۔ لیکن مولانا کا قبائل سے علاقائی و نسبی تعلق نہ ہونے والا اعتراض، اس وقت اٹھانا ضروری تھا جب پاکستان کی ساری سیاسی قیادت نے مولانا کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت قبول کی تھی۔

سوال 11 : اگر فاٹا کو، مولانا کی مرضی کے خلاف، پختونخواہ میں ضم کرلیا گیا تو پھر مولانا کا کیا ہوگا؟

جواب : ماضی میں، مولانا کے بڑوں کی مرضی یہ تھی کہ ہندوستانی مسلمان متحد رہیں۔ وہ اپنی رائے کو امانت سمجھ کر، اس کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ اس وقت عام مسلمان چونکہ مسلم لیگ کے زیر اثر تھے تو انہوں نے ان علماء کی بات نہیں مانی اور پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا۔ پھر ان علماء کا کیا ہوا؟

سوال 12 : آخر کیوں ہر بار ایسا ہوتا ہے کہ مولانا، سب کے مخالف سمت چلتا ہے؟ چوہدری افتخار بارے بھی سب ایک طرف تھے اور مولانا، ایک طرف۔ اکیسویں ترمیم بارے بھی یہ اکیلا ہی مخالف تھا۔ اب فاٹا بارے بھی صرف مولانا اور اچکزئی ایک پیچ پر ہیں۔

جواب : لیڈر کا کام یہ ہے وہ پاپولر سٹانس پہ چلنے کی بجائے، قوم کو اپنے ساتھ چلائے۔ اسے چاہیے کہ اپنے تئیں قوم کو ایک راستہ دکھائے اور اس پہ چلانے کی کوشش کرے۔ اس موقف میں، قوم کو بھی غلطی لگ سکتی ہے اور لیڈر بھی غلط ہوسکتا ہے۔ یہی زمانے کا چلن رہا ہے اور اسی طرح دنیا چلتی رہے گی۔ باقی، وقت فیصلہ کرے گا کہ کس کا موقف درست ہے۔

فاٹا کے مسئلہ پر اچکزئی اور مولانا کا ایک موقف نہیں ہے۔ اچکزئی، صرف الگ صوبہ بنانے کے حق میں ہے جبکہ مولانا، اگرچہ ذاتی طور پر الگ صوبہ کے حق میں ہے مگر فاٹا کے مستقبل کو فاٹا کے باشندگان کی رائے سے مشروط کرتا ہے۔ بات یہ ہے کہ فاٹا کا مسئلہ، کفر واسلام کا مسئلہ نہیں بلکہ صرف ایک سیاسی وا نتظامی مسئلہ ہے۔ اس کو اتنا دل پہ لینے کی ضرورت نہیں۔ والسلام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).