انڈیا: پولیس نے ’موت کے سوداگر‘ کو ہلاک کر دیا
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے سرینگر کے مضافاتی علاقے میں فائرنگ کے واقعے میں ایک علیحدگی پسند عسکریت پسند کو ہلاک کر دیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک کیے جانے والا جنگجو نور محمد تانترے تھا جو کہ پاکستان میں موجود جیشِ محمد میں کمانڈر تھے۔
’کشمیری تنظیم کا دولت اسلامیہ سے وفاداری کا اعلان‘
حاجن، ‘کشمیر میں شدت پسندوں کا نیا گڑھ’
اطلاعات کے مطابق نور محمد کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی سینکڑوں رہائشی سڑکوں پتر نکل آئے اور انڈیا مخالف نعرے بازی شروع کر دی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں ایک مخبری موصول ہوئی تھی جس کے مطابق تانترے اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ پلواما کے علاقے میں مقیم تھے۔
2003 میں دلی میں تانترے کو گرفتار کرنے والے ایک پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ نور محمد کو اس لیے جیشِ محمد نے تنظیم میں شامل کیا تھا کیونکہ وہ اپنے انتہائی کم قد، چار فٹ دو انچ کی وجہ سے عسکریت پسند معلوم نہیں ہبتا تھا۔
اہلکار کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی اس پر دہشتگرد ہونے کا شک نہیں کر سکتا تھا۔‘
تاہم ان کے چھوٹے قد اور ٹانگ کی معذوری کی وجہ سے ان کی شناخت کرنا انتہائی آسان تھا۔
نور محمد تانترے کون تھا؟
- 47 سالہ نور محمد تانترے کو ان کے مقدمے پر ’موت کا سوداگر‘ کہہ کر پکارا گیا۔
- انھیں ان کے چھوٹے قد کی وجہ سے جیشِ محمد میں شامل کیا گیا۔
- 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر ہونے والے حملوں کے مرکزی منصوبہ ساز اور جیشِ محمد کے کمانڈر غازی بابا کے قریبی ساتھی مانے جاتے ہیں۔
- 2003 میں انھیں دلی میں پیسوں کی ایک بوری کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔
- 2011 میں انھیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تاہم وہ 2015 میں فرار ہوگئے۔
- ستمبر 2017 میں ایک مقامی وزیر پر گرنیڈ حملے کے ملزم ہیں۔
نور محمد تانترے کی ہلاکت کو انڈیا کے سیکیورٹی حکام ایک اہم کامیابی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
- مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات - 18/04/2024
- یوکرین جنگ میں 50 ہزار روسی فوجیوں کی ہلاکت: وہ محاذِ جنگ جہاں روسی فوجی اوسطاً دو ماہ بھی زندہ نہیں رہ پا رہے - 18/04/2024
- دنیا کے دوسرے مصروف ترین دبئی ایئرپورٹ کی کہانی: ’یہاں حالات بدترین نہیں بلکہ خطرناک ہیں، ہمیں جانوروں کی طرح رکھا گیا ہے‘ - 18/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).