خاقان عباسی کی اقتصادی ٹیم، بہترین متبادل حل ہے؟


خاقان عباسی

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بظاہر کافی سوچ بچار کے بعد اپنی اقتصادی ٹیم مکمل کر لی ہے۔

مفتاح اسماعیل کو مشیر برائے اقتصادی امور لیکن عہدے وفاقی وزیر کے برابر اور رانا افضل کو وزیر مملکت برائے خزانہ تعینات کر دیا ہے۔

سابق وفاقی وزیر اسحاق ڈار پر بدعنوانی کے الزامات کے مقدمے اور خرابی صحت کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو جبری طور پر یہ تبدیلیاں کرنی پڑی ہیں۔ لیکن کیا یہ بہترین متبادل حل ہے؟

سابق وزیراعظم نواز شریف کے دست راست، معاشی ٹیم کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار موجودہ حالات میں تاریخ کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

اسحاق ڈار شریف خاندان کے لیے ناگزیر کیوں ؟

اسحاق ڈار: گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رابطے کا فیصلہ

حکومت کی جانب سے نئی ٹیم متعارف کروانے سے بھی یہی پیغام دیا گیا ہے کہ اب فی الحال ان کی واپسی مستقبل قریب میں ممکن نہیں لیکن قومی معیشت کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا جاسکتا۔

اب سوال یہ ہے کہ وزیراعظم، مفتاح اسماعیل اور رانا افضل کی معاشی تکون ایسا کیا کر سکتی ہے جو ڈار نہیں کر پائے تھے۔

کراچی میں پیدا ہونے والے مفتاح پبلک فنانس میں امریکہ کی پینسلوینیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ 90 کی دہائی میں انھوں نے واشنگٹن میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کے لیے بحیثیت اکانومسٹ کام کیا تھا۔

لیکن وہ اسحاق ڈار کی طرح وفاقی سطح پر معاشی امور چلانے کا کوئی خاص تجربہ نہیں رکھتے۔ ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ سرمایہ کاری بورڈ کی چار سالہ سربراہی میں بھی ان کی کارکردگی کوئی زیادہ اچھی نہیں تھی اور نہ ہی سخت اقدامات کے لیے کوئی زیادہ سیاسی اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔

وزیر اعظم خود چونکہ معاشی امور پر کافی عبور رکھتے ہیں تو بظاہر زیادہ ذمہ داری انہی کو نواز شریف کی آشیرباد کے ساتھ لینی ہوگی۔ انھوں نے پہلے ہی اکنامک کورڈینیشن کونسل (ای سی سی) کی سربراہی ڈار سے اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے۔

یہاں اکثر معیشت دان یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ آخر وزیر اعظم کیا کیا دیکھیں گے۔ ان کے خیال میں ملک کو ایک متحرک کل وقتی وزیر خزانہ کی ضرورت ہے۔ یا تو مفتاح اسماعیل کو ماضی سے ہٹ کر زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہوگا یا پھر حکومت وزیر خزانہ کی نشست مشیر کے ذریعے نہیں بھرے گی۔

ایک بیان میں مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ اس مقام پر پہنچنے میں سیاست میں اپنے پہلے استاد میاں شہباز شریف، خواجہ محمد آصف، پروفیسر احسن اقبال اور پرویز رشید کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

ان کا اپنے معاشی ایجنڈے کے بارے میں کہنا تھا کہ ’نواز شریف کی سوچ کی روشنی میں وزیر اعظم نے انہیں افرادی ٹیکس ریٹ کو کم کرنے، ٹیکس کی بنیاد بڑھانے، چند کارپوریٹ ٹیکسوں میں اصلاحات لانے اور پاکستانیوں کی غیردستاویزی دولت کو ملکی معیشت میں لانے کا ٹاسک دیا ہے۔‘

یہ تعیناتیاں ایک ایسے وقت ہوئی ہیں جب خود حکمراں جماعت مسلم لیگ ن قومی معیشت کے بارے میں ملے جلے اشارے دے رہی ہے۔ کہیں وزیر اعظم اس میں بہتری کی نوید سنا رہے ہیں تو کہیں سابق وزیر اعظم ان کے چلے جانے کے بعد معیشت کے پہیے کے رک جانے کی بری خبر سناتے ہیں۔

اسحاق ڈار کے بارے میں اکثر ماہرین یہ مانتے ہیں کہ انھوں نے پہلے دن سے معیشت پر مکمل اختیار رکھا۔ وہ آج تک کے وزرا خزانہ میں سب سے بااثر مانے جاتے ہیں۔ ان سے قبل پی پی پی کی حکومت کے ٹیکنوکریٹس مشکل فیصلے نہیں کر پاتے تھے لیکن ڈار کو بھی مشکلات کا سامنا رہا۔

رانا افضل اور وزیر اعظم کے ساتھ مل کر اب اس نئی ٹیم نے ملک کو ناصرف نئے انتخابات کی جانب لے کر جانا ہے بلکہ قومی معیشت کو بھی جاندار رکھنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp