بینظیر بھٹو: اگر آج وہ زندہ ہوتیں


بینظیر بھٹو اگر کچھ عرصہ اور زندہ رہتی تو کیا ہوتا! اس بارے میں کافی قیاس آرائیاں ہو سکتی ہیں۔ لیکن وہ ماضی میں کیا تھیں بہت کچھ یقین سے کہا جا سکتا ہے۔ ان پر کرپشن کے الزامات لگے، ان پر خراب حکمرانی کے آوازے کسے گئے، مگر ان کے نڈر ہونے پر کسی نے شک نہیں کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اپنے باپ کو جرات کے ساتھ پھانسی کے لیے تیار دیکھا تھا۔

27 دسمبر 2007 کی شام تک تمام خطرات کے باوجود ان کا عوام سے رابطہ منقطع نہیں ہوا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب صرف دو ماہ قبل کراچی میں ان کے عظیم الشان استقبالیہ جلوس پر دو خود کش حملے ہوئے تھے جن میں ان کی جماعت کے 180 کارکنان ہلاک ہوگئے تھے۔ پر تشدد موت کا شکار ہونے والی بینظیر خود ہمیشہ تشدد کی مخالف رھیں۔ وہ ایک جمہوری تحریک چلانے والی مصالحت پسند سیاسی رہنما تھیں۔

سٹینلے والپرٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ جب 1979 میں ان کو پھانسی دی جانے والی تھی تو بینظیر نے انتقام لینے کا ارادہ کرنے کی بـجائے پاکستان میں ’جمہوریت کی تحریک چلانے کا ارادہ کیا تھا‘۔ بقول بینظیر بھٹو، پھانسی سے ایک شب قبل جب بینظیر بھٹو اپنی ماں کے ہمراہ اپنے باپ سے آخری ملاقات کرنے گئیں تو انھیں ملاقات کے لیے 30 منٹ دیے گئے تھے۔

’میں نے وہ قیمتی وقت ایک سکتے میں گزارا، میں ایک خواب میں تھی اس حقیقت سے بے خبر کہ یہ بیٹی کی باپ سے آخری ملاقات ہے، اس باپ سے جسے میں نے دنیا میں کسی بھی شخص سے زیادہ محبت کی!‘

تاہم جب بینظیر 1977 کی فوجی بغاوت کے بعد رہا ہوئی تھیں تو وہ لاہور آئیں جہاں پرانی انارکلی کی ربانی روڈ پر پیپلز پارٹی کی ایک عام رکن بیگم شفیع پیرزادہ کی رہائش پر پیپلز پارٹی کی حامی خواتین سے ان کے گھر میں انھوں نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات میں حصہ لے گی اور ہر جمہوری جدوجہد کا حصہ بنے گی (میری والدہ بیگم تاج آرا واسطی اس موقع پر پیپلز پارٹی کی لیڈر بیگم آباد کے ہمراہ اُن کی دعوت پر موجود تھیں۔)

x

جس وقت بینظیر بھٹو بیگم شفیع پیرزادہ کے گھر میں تقریر کررہی تھیں اس وقت باہر قومی اتحاد کے چند کارکنان پولیس کی معیت میں بینظیر کے خلاف گالیوں بھرے نعرے لگا رہے تھے۔ بینظیر کی ساری عمر ایسے ہی معاندانہ ماحول میں مصالحتی جدوجہد کرتے گزری ہے۔

جب بینظیر بھٹو 2007 میں مصالحت کرکے وطن لوٹیں تو ایسے حالات میں ہر شخص ان کو محفوظ رہنے کا مشورہ دے رہا تھا۔ ان کی واپسی جس مصالحتی معاہدے کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی اس معاہدے سے جن سیاسی سرگرمیوں کے لیے مواقع ملے اس سے فائدہ تو کئی سیاسی رہنماؤں نے اٹھایا مگر اس معاہدے کی بدنامی صرف بینظیر کے حصے میں آئی تھی۔

معاہدے کی بدنامی سے لے کر اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا بینظیر بھٹو کی سیاست کا خاصّہ رہا ہے۔ یہ ان کے نظریات کی اساس تھی۔ وہ کوئی بھی بڑا اور نڈر فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں بشرطیکہ انھیں یقین ہو کہ اس سے قومی سیاسی سفر آگے بڑھے گا۔

تحریک بحالئ جمہوریت یعنی ایم آرڈی ہو یا وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے وطن واپسی کے لیے بات چیت، اپنے باپ کے قاتل جنرل ضیا سے شراکت اقتدار پر راضی ہونا یا جنرل بیگ کو تمغہ جمہوریت دینا، یا قومی مصالحتی آرڈیننس جیسے معاہدے پر راضی ہونا۔ بینظیر بھٹو کبھی دائیں بازو کے مخالفین کی تنقید کا نشانہ بنیں، کبھی بائیں بازو کے حامیوں کی تنقید کا نشانہ بنیں اور کبھی لبرلز کا۔

مگر انھوں نے جمہوریت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے مصالحت سے لے کر براہ راست تصادم تک، ہر طریقے کو حالات کی ضروریات کے مطابق استعمال کیا۔

اپنی آخری کتاب ’مصلحت: اسلام، جمہوریت اور مغرب (Reconciliation: Islam, Democracy and the West) میں جو باہمی بقا کی بات مغرب اور مشرق یا مغرب اور عالم اسلام کے حوالے سے اسی باہمی بقا کے فلسفے کو وہ پاکستان کی اندرونی سیاست میں بھی عملی طور پر اپنائے ہوئے تھیں۔ ان کی اپنی زندگی پر پہلی خود نوشت دخترِ مشرق (Daughter of the East) میں بھٹو نے 1989 ہی میں ایک ’آزاد، تکثیریت اور رواداری والے اسلام‘ کی بات کی۔

یہی بات انھوں نے ایک دوسرے انداز میں اپنی 1983 میں لکھی گئی کتاب Pakistan: The Gathering of Storm میں کہی جس میں وہ ایم آر ڈی میں ان جماعتوں کے ساتھ بھی جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاسی جدوجہد کی وجہ بیان کرتی ہیں جو ان کے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے قتل میں بالواسطہ شریک تھیں۔ دراصل ان کی سیاسی جدوجہد کا فلسفہ عدم تشدد ہی تھا۔ اسی وجہ سے وہ اپنے بھائی مرتضیٰ بھٹو کی مبینہ مسلح سیاسی تحریک سے الگ رہیں۔

بینظیر بھٹو نے 1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک کے بارے میں اپنی کتاب ’دی گیدرنگ آف سٹارم‘ میں لکھا تھا: ’یہ ظلم کی ایک طویل شب ہے ۔۔۔ جو اب چھٹے برس میں داخل ہوچکی ہے ۔۔۔ یہ ایک غیر معینہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکتی ہے۔ عوام کو ہمیشہ کے لیے فوجی بوٹوں تلے کچلا نہیں جاسکتا۔ ایک دن علم بغاوت بلند ہوگا ۔۔۔ اور کچھ زیادہ دنوں میں نہیں۔ پاکستان کے حریت پسند عوام یہ ثابت کرچکے ہیں 1968 میں اور 1971 میں جب ظالم ناقابل تسخیر نظر آتا تھا۔ جب بھی عوام نے ظالمانہ طاقت کو گلیوں سڑکوں پر چیلینج کیا جیسا کہ ایران کے عوام نے 1978 میں کیا، (تو) یہ ظلم ہوا میں خاک کی طری تحلیل ہوگیا۔ آزادی کی قیمت چاہے کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو پاکستان کے عوام اپنے خون سے ادا کریں گے۔ چاہے کچھ بھی ہو، ہم ہوں گے کامیاب!‘

گیارہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل تحریک بحالئ جمہوریت 1981 میں بنی تھی۔ اس میں بائیں بازو، دائیں بازو اور لبرل جماعتیں بھی شامل تھیں۔ جنرل ضیا اس تحریک سے گھبرایا ہوا تھا، کیونکہ 1979 میں پاکستان کے طول و عرض میں ’عوام دوست‘ کے نام سے انتخابات لڑنے والے امیدواروں کی بھاری تعداد ضیا کے پہلے مقامی حکومتوں کے انتحابات میں کامیاب ہوئی تھی۔ جنرل ضیا شدید سیاسی دباؤ میں تھے۔

لیکن ابھی ایم آر ڈی ضیا مخالف سیاسی تحریک کا آغاز ہی کررہی تھی کہ پی آئی اے کا ہوائی جہاز ہائی جیک ہوگیا۔ ایک فرانسیسی محقق کرسٹوف جیفرلوٹ اپنی کتاب The Pakistan Paradox: Instability and Resilience میں لکھتے ہیں کہ دو مارچ 1981 کو ہوائی جہاز کے اغوا نے بظاہر جنرل ضیا کی حکومت کو زچ کردیا مگر اس واقعے نے انھیں ایک موقع دے دیا جس کو بہانہ بنا کر اس نے انتہائی سفاکی سے پیپلز پارٹی کو کچل دیا۔ ہوائی جہاز کو ہائی جیک کراچی کے ایک نوجوان سلام اللہ ٹیپو نے کیا تھا۔ ہائی جیکنگ کی ذمہ داری میر مرتضیٰ بھٹو سے منسوب کی گئی۔ مگر سٹیون زونز نے لکھا ہے کہ مرتضیٰ بھٹو نے اس کی تردید کی تھی۔

اس دور کے جمیعت علمائے اسلام کے پنجاب کے سیکریٹری اطلاعات عبدالرحیم زاہد کے مطابق، اس وقت بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ ہوائی جہاز کو ایجنسیوں نے ہائی جیک کروایا تھا۔ اس وقت پیپلز پارٹی ہی ایم آر ڈی کی سب سے بڑی جماعت تھی جب اسے ریاستی بربریت کے ذریعے کچلا گیا تو ایم آر ڈی کی تمام سرگرمیاں عملاً ختم ہوگئیں۔

بینظیر بھٹو کی پہلی سوانح عمری ’ڈاٹر آف دی ایسٹ‘ کے مطابق، اس ہائی جیکنگ کے بعد بینظیر بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس وقت سلامتی کی ایجینسیوں کے کچھ افسران نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ہائی جیکنگ کی منصوبہ بندی کے کاغذات بینظیر کے بیڈروم سے ملے تھے۔ سکھر جیل میں بینظیر پر جس طرح کا تشدد ہوا وہ کسی بھی مضبوط اعصاب والے شخص کی قوت ارادی کو توڑ سکتا تھا۔

پھر 1983 میں ایم آر ڈی نے جلسوں اور جلوسوں کی ایک ملک گیر تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کی روح رواں پیپلز پارٹی ہی تھی۔ تاہم دوسری سطح پر بڑا کردار جمیعت علمائے اسلام اور سندھ کی علاقائی جماعتوں کا تھا۔ عبدالرحیم زاہد کا کہنا ہے کہ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے قبل پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو دسیوں ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کیا گیا تھا اسی طرح ہائی جیکنگ کے واقعے کے بعد پورے ملک میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو دہشت گرد قرار دے کر گرفتاریوں سے لے کر، کوڑوں، شاہی قلعے کے عقوبت خانوں اور پھانسی جیسی سزائیں دی گئیں۔

پیپلز پارٹی کی لاہور کی رہنما شاہدہ جبیں کے بھائی کو بھی اسی دوران پھانسی دی گئی۔ عبدالرحیم زاہد کے مطابق پورے ملک کی طرح پنجاب کے تمام عہدیداروں اور کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ مرد تو مرد، عورتیں بھی تشدد کا نشانہ بنیں جن میں پنجاب کے سابق صدر رانا شوکت محمود کی اہلیہ سمیت کئی خواتین کو شاہی قلعے میں انتہائی شرمناک انداز میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ عبدالرحیم زاہد کا کہنا ہے کہ بیگم رانا شوکت محمود کو جس طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اس کا ذکر ایم آر ڈی کی ایک میٹنگ میں کرتے ہوئے رانا شوکت پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے تھے۔

سیاسی کارکنوں اور طلبہ رہنماؤں پر شاہی قلعہ لاہور میں تشدد کیا گیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم رہنما آغا نوید جسمانی طور پر اپاہج ہو گئے (جس کی وجہ سے 2009 میں ان کی موت ہوئی) اور پنجاب کے سابق سپیکر شیخ رفیق کے بیٹے، شیخ عتیق ذہنی طور پر اپاہج ہوگئے اور اسی حالت میں ان کا انتقال ہوا۔ اس کے علاوہ ہزاروں کارکنان تشدد کا نشانہ بنے، ہزاروں کارکنوں کو فوجی عدالتوں سے کوڑوں اور طویل المدت قید کی سزائیں دی گئیں (بینظیر بھٹو نے وزیراعظم بننے کے بعد ان کی سزائیں ختم کیں)۔

عبدالرحیم زاہد کے مطابق پرانے سیاسی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایم آر ڈی کی تحریک برصغیر کی بڑی تحریکوں میں سے ایک تھی۔ ایک امریکی محقق سٹیون زونز نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پاکستان میں جمہوری تحریک کے حق میں بیان دیا جو پاکستان کی فوجی حکومت اور دائیں بازو کے صحافیوں کے لیے ایم آر ڈی اور پیپلز پارٹی کو انڈین ایجنٹ قرار دینے کے لیے کافی تھا (آج تک پاکستان میں دائیں بازو کی اسٹیبلشمینٹ کی قوتیں کسی بھی حقوق یا جمہوری تحریک کو انڈیا کی حمایت یافتہ تحریک کہہ کر کچلنے کی کوشش کرتی ہیں۔)

چونکہ پیپلز پارٹی کو بہت بری طرح کچلا جاچکا تھا، پھر پنجاب میں پیپلز پارٹی کو مبینہ تخریب کاری کے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرا کر ایک علحیدگی پسند جماعت کا تاثر بنا دیا گیا تھا، اس لیے ایم آر ڈی کی 1983 کی تحریک عملاً اندرون سندھ تک محدود ہو گئی تھی۔ سندھ میں جنرل ضیا کے مارشل لا کی بربریت کا ایک نیا باب کھلا۔

بینظیر بھٹو نے جمہوری اور سیاسی عمل کو اتنا آگے بڑھایا کہ جنرل ضیا کا اپنے ہاتھ کا بنایا ہوا وزیر اعظم، جونیجو، بھی اپنے آپ کو عوامی قائد بنانے کے لیے کئی مرتبہ جنرل ضیا کے سامنے اپنے حقوق مانگنے کے لیے کھڑا ہوا اور جب جونیجو نے افغانستان کی جنگ ختم کرنے کے لیے جینیوا معاہدہ کیا تو بینظیر بھٹو نے ان کا ساتھ دیا۔ اس طرح جنرل ضیا سیاسی طور پر مزید کمزور ہوئے۔

اور پھر 1988 میں راولپنڈی میں آئی ایس آئی کے ایک کیمپ (اوجھڑی کیمپ) میں میزائلوں کے حادثے کی تحقیقات کا حکم وزیر اعظم جونیجو نے دیا جو غالباً جنرل ضیا کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ لیکن وہ چپ رہے۔ پھر ایک جونیئر فوجی کی شہریوں سے لڑائی کے واقعے کو ایک موقع سمجھتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں بدعنوانی کے الزامات کے تحت برطرف کر دیں اور قومی اور صوبائی اسمبلیاں بھی توڑ دیں۔ لیکن چند دنوں ہی میں نواز شریف کی پنجاب میں وزارت اعلیٰ بحال کردی گئی۔

وطن واپسی کے بعد بینظیر بھٹو نے جب جمہوری فاختاؤں کی تحریک کا آغاز کیا تو جہاں انہیں جنرل ضیا کی ’رژیم‘ کی جبریت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہیں ان کا ایک ایسے میڈیا کا بھی سامنا ہوا جس نے چھوٹی چھوٹی باتوں کے ذریعے بینظیر کے غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اشاروں کنائیوں میں گھٹیا قسم کے پراپیگینڈے کے ذریعے بینظیر بھٹو کی کردار کُشی شروع کردی۔

کبھی ان کے فیصل صالح حیات سے قربت کی باتیں بنائی گئیں، کیونکہ وہ اپنے تاریخی استقبال کے بعد فیصل حیات کی رہائش گاہ میں ٹھہری تھیں، کبھی کسی اور سے تعلقات کی کہانی کو ہوا دی گئی۔ اسی پس منظر میں بینظیر بھٹو کی آصف زرداری سے شادی ہوئی۔ اور ادھر اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد حسب سابق جنرل ضیا نے نوّے دنوں میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا مگر تاریخ کا اعلان نہ کیا۔ نگراں کابینہ بنائی مگر آئین کو نظرانداز کرتے ہوئے وزیر اعظم کا تقرر نہیں کیا۔

بینظیر کو ہمیشہ سے ہی ایک ایسے سیاسی ماحول کا سامنا کرنا پڑا جہاں ان کے مخالفین ان کی کسی بھی کمزوری کا کسی بھی گھٹیا سطح پر جا کر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں گے۔ اور وہ اس کے لیے تیار تھیں۔ اپنی شادی کے بعد جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ بچے چاہتی ہیں تو ان کا فوری جواب تھا مجھے ابھی کچھ انتظار کرنا ہو گا۔ لیکن جب وہ یہ جواب دے رہی تھیں تو وہ اس وقت حاملہ ہو چکی تھیں۔

لیکن وہ اپنے بڑھتے ہوئے پیٹ کو ڈھیلے ڈھالے شلوار قمیض کے ذریعے پوشیدہ رکھ رہی تھیں۔ کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ ان کو ایک ایسے مخالف کا سامنا ہے جو ان کے ایام زچگی کو دیکھ کر انتخابات کی تاریخ طے کرے گا۔ بینظیر نے یہ مشہور کرایا کہ ان کے ہاں پیدائش نومبر میں متوقع ہے۔

اگرچہ بینظیر بھٹو نے پوری کوشش کی کہ اپنی جسمانی صورت کو پوشیدہ رکھیں مگر چادر اور چاردیواری کا تحفظ کرنے والی سلامتی کے اداروں کو ایک رحم مادر کی جاسوسی کرنی تھی۔ اور انھیں پتہ چل گیا کہ بینظیر ماں بننے والی ہے، لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی۔ جنرل ضیا کا جہاز حادثے کا شکار ہوا اور وہ ہلاک ہوئے۔

انتخابات کا شیڈول ایسا دیا گیا تھا جس میں انتخابی مہم ستمبر میں شروع ہوتی تھی اور پولنگ اکتوبر میں ہونا تھی۔ ایک محقق کے مطابق یہ تاریخ کے پہلے انتخابات تھے جن میں مخالف لیڈر کی زچگی کی تاریخوں کی بنیاد پر طے کیے گئے یا دوسرے الفاظ تھے یہ پہلے انتخابات تھے جن میں زچگی سب سے بڑا معاملہ تھی۔ بلاول 21 ستمبر 1988 کو پیدا ہوئے اور انتخابات 9 اکتوبر کو۔

اگرچہ اور بھی کئی خواتین سیاست میں آئی ہیں جن کے سیاسی کریئر میں ان کی زچگی کا اہم کردار ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ کی سابق مارگریٹ تھیچر یا انڈیا کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی، اس کے علاوہ اسرائیل کی سابق وزیر اعظم مسز گولڈا مئیر۔ پھر آج بھی کتنی خواتین ہیں جنھیں زچگی کی وجہ سے اور صرف اپنی صنف کی وجہ سے اپنا سیاسی کریئر بدلنا پڑتا ہے۔

چند مشہور ناموں میں ترکی کی سابق وزیر اعظم تانسو چلر، نکارا گوا کی وائیویلیٹا چمورو، چین کی ایک خاتون رہنما، تزاُو ہسی، کینیا کی سابق وزیر اعظم کم کیمبیل، ناروے کی گرو ہارلیم برونڈٹلینڈ، ارجینٹائین کی آئیزا بیلا پیرون، بنگلہ دیش کی خالدہ اور حسینہ واجد، سری لنکا کی مسز بندرا نائیکا، نیوزی لینڈ کی ہیلن کلارک اور ابھی حال ہی میں آسٹریلیا کی جولیا گیلارڈ۔ ان سب نے عورت ہوتے ہوئے سیاست میں نام پیدا کیا ہے۔ مگر بے نظیر جیسے نامساعد حالات کا سامنا کسی نے نہیں کیا۔

بینظیر بھٹو ان تمام خواتین میں اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ انھوں نے عورت کی زندگی کے جسمانی طور پرکمزور ترین لمحوں کو طاقت میں بدل ڈالا۔ تاہم دنیا کو اس وقت بے نظیر بھٹو سے مایوسی ہوئی جب وہ اقتدار میں آئیں مگر انتظامی طور پر ایک کمزور لیڈر نظر آئیں۔ ان کے پہلے دور میں نہ کوئی بڑی قانون سازی ہو سکی، نہ کوئی بڑا اقتصادی فیصلہ۔ لیکن مصالحت کی حکمت عملی سے انھوں نے جنرل ضیا کے حامی کئی سیاستدانوں کو اپنے ساتھ ملایا۔

لیکن ان کے ناقدین ان کی ان کمزوریوں پر تو بات کرتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ جنرل ضیا ایک جہاز کے حادثے میں ہلاک ہوئے تھے مگر ان کا بنایا ہوا نظام پوری طرح برقرار تھا یہاں تک کہ آٹھویں ترمیم کی وجہ سے وہ مردہ ہونے کے باوجود بھی پاکستان کے صدر تھے!

1988  کے انتخابات میں ان کی لینڈسلائیڈ کامیابی کو روکنے کے لیے راتوں رات اسلامی جمہوری اتحاد کھڑا کیا گیا اور انھیں پنجاب میں حکومت بنانے سے روکا گیا۔

جنرل ضیا کی سب سے بڑی اور طاقتور قوت خود فوج تھی جو اس دوران ایک ناقابل یقین حد تک اسلامائیز ہوچکی تھی۔ فوج نے سیاست سے کے لیے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے حریف بنا لیے تھے۔ لیکن بینظیر نے سیاسی سفر کو آگے بڑھانے کے لیے مصالحت کی حکمت عملی کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے رہنما غلام اسحاق خان کو صدر منتخب کیا اور جنرل اسلم بیگ کو جمہوریت کا تمغہ عطا کیا۔

لیکن پھر بھی اسٹیبلشمینٹ نے بینظیر کی حکومت کو کام کرنے سے روکنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ صرف دو برس سے کم عرصے کی حکومت، جس کو گرانے کی دو بڑی سازشیں ہوئیں تھیں، اسے صدارتی اختیارات کے ذریعے گھر روانہ کردیا گیا۔ بینظیر کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر غلام اسحاق خان اور انہی سے تمغہ جمہوریت لینے والے فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ نے ان کی حکومت کو برطرف کیا۔

لیکن بینظیر بھٹو نے کسی مرحلے پر اور کتنے ہی تلخ تجربات کے باوجود اپنے مخالفین، دھوکہ دینے والوں اور بدل جانے والوں سے مصالحت کی سیاست ترک نہ کی۔ اور جب وہ نواز شریف کے دوسرے دور اقتدار میں جلاوطن ہوئیں تھیں تو انھوں نے اسی نواز شریف کے برے وقت میں آئندہ کے لیے جمہوری جدو جہد کے لیے اور فوجی مداخلت روکنے کے لیے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔ اور یہی وہ وقت تھا جب انھوں نے جنرل مشرف سے بھی مصالحت کی۔ تاریخ بینظیر بھٹو کے سیاسی کردار کو اس کے ماحول اور اس کے رویے کو سمجھنے میں ابھی بہت وقت لے گی۔

تاریخ دانوں کے اس مخمصے کو شاید بینظیر کے پسندیدہ جرمن تاریخ دان اوشولڈ شپینگلر سے زیادہ کوئی نہ سمجھتا ہو جس کے کئی حوالے بے نظیر بھٹو نے اپنی آخری کتاب Reconciliation: Islam, Democracy and the West میں سیمیوئیل ہنٹنگٹن کے تہذیبوں کے ٹکراؤ کے نظریے کو رد کرنے کے لیے دیے ہیں۔

شپینگلر کے مطابق، اکیڈیمکس (تاریخ دان) واقعات کو گزرجانے کے بعد ان کا اپنی معلومات کے مطابق تجزیہ کرتے ہیں جبکے تاریخ بنانے والا تاریخ بناتے ہوئے اپنی تخلیقی صلاحیت کے مطابق تاریخ کے سفر کو آگے بڑھانے کے لیے نت نئے اور نڈر فیصلے کررہا ہوتا ہے۔

شپینگلر ایک اور جگہ کہتے ہیں: ’ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہمیں جو زندگی ملی ہے ہم اس کو اس طرح گزاریں کہ ہم اس پر فخر کر سکیں ۔۔۔۔۔ اسے جتنا بھی بامقصد بنا سکتے ہیں بنائیں۔ اور ہم اس طرح عمل کریں کہ ہمارا ہی کچھ حصہ ہمارے بعد حیات جاوادں پائے۔‘ پاکستان کا مستقبل کیا سمت اختیار کرتا ہے شاید اسی سے بینظیر بھٹو کا تاریخ میں کردار طے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).